وہ وقت جب خلیفہ ہارون رشید کے نامور وزیر نے اپنے محسن کا احسان اتارنے کے لئے اسکے بیٹے کو اپنی وزارت دے دی

وہ وقت جب خلیفہ ہارون رشید کے نامور وزیر نے اپنے محسن کا احسان اتارنے کے لئے ...
وہ وقت جب خلیفہ ہارون رشید کے نامور وزیر نے اپنے محسن کا احسان اتارنے کے لئے اسکے بیٹے کو اپنی وزارت دے دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حسن بن سہل سے روایت ہے کہ ایک دن میں یحییٰ ابن خالد بر مکی وزیر خلیفہ ہارون رشید کی خدمت میں حاضر تھا اور وہ انصرام امور سلطنت میں مصروف تھے۔ لوگ اپنی حاجتیں لے کر ان کے پاس آتے تھے اور یحییٰ حتی الامکان ان کی حاجت روائی کر کے انہیں یکے بعد دیگرے رخصت کرتے تھے۔ ان میں سب سے پیچھے جو شخص باریاب ہوا۔ اس کا نام احمد ابو خالد احوال تھا۔ یحییٰ نے انہیں بغور دیکھ کر اپنے لڑکے فضل سے کہا کہ اس شخص کے باپ ابو خالد احوال اور میرے درمیان جو معاملہ پیش آیا۔ وہ قابل ذکر ہے ۔ اس لیے میں جب کام سے فارغ ہوں تو مجھے یاد دلانا ۔ میں تم سے بیان کروں گا۔

جب یحییٰ کام سے فارغ ہوئے اور کھانا کھا کر بیٹھے تو ان کے لڑکے فضل نے پوچھا ۔
’’ابو خالد احوال والا معاملہ کیا تھا۔ ‘‘
یحییٰ نے کہا۔ ’’ہاں سنو؟ میں جب خلیفہ مہدی کے زمانے میں عراق سے یہاں آیا تو اس وقت مفلس تھا اور گھر میں نقدو جنس کچھ باقی نہ تھا۔ ایک دن گھر والوں نے کہا کہ ہم نے اپنی حالت اب تک تم پر ظاہر نہیں کی مگر اب برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے۔آج تیسرا دن ہے کہ ہمارے حلق سے رزق نہیں اترا ہے۔ یہ سن کر میں بہت رویا اور بڑی دیر تک حیرانی اور پریشانی کی حالت میں سرنگوں بیٹھا ہوا سوچتا رہا کہ کیا چیز کرنی چاہے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ میرا یک رومال تھا ؟جو عمامہ پر میں لپیٹا کرتا تھا۔
میں نے پوچھا ’’وہ رومال کیا ہو؟‘‘
گھر والوں نے کہا کہ موجود ہے اور مجھے لا کر دیا۔ میں اسے لے کر ایک ملاقاتی کے پاس گیا اور کہا’’ازراہ مہربانی اسے بیچ کر لا دو‘‘
تھوڑی دیر کے بعد اس نے سوا چار روپے قیمت اس رومال کی لا کر مجھے دی۔ میں نے گھر والوں کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ ’’جب تک کوئی اور سبیل منجانب اللہ ہوا سے لے کر خرچ کرو۔ ‘‘
دوسرے دن صبح ہی ابو خالد کے مکان پر پہنچا ۔ وہ اس وقت خلیفہ مہدی کے وزیر تھے اور بہت سے لوگ ان کے دروازے کے باہر ان کے انتظار میں کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ گھوڑے پر سوار برآمد ہوئے۔ میں نے دیکھ کر سلام کیا۔ انہوں نے پہنچانا اور پوچھا کہ کیا حال ہے؟
’’میں نے کہا’’ ایسے شخص کا حال آپ کیا پوچھتے ہیں جس نے اپنے عمامے پر لپیٹنے کا رومال سوا چار روپے میں بیچا ہے ۔‘‘
یہ سن کر ابو خالد مجھے بغور دیکھتے رہے۔ لیکن کوئی جواب مجھ کو نہ دیا اور چلے گئے۔
میں مایوس ہو کر واپس آیا۔ اور گھر والوں سے ملاقات کا حال بیان کیا۔ انہوں نے کہا ۔ ’’ تم نے برا کیا کہ ایسے شخص سے جو تمہیں کسی بڑے منصب پر ممتاز کرنا چاہتا تھا ‘ اپنا راز ظاہر کر دیا اور اپنی اصلی حالت اسے جتا کر اپنی بے توقیری کی اور باوجود یہ کہ وہ تمہیں معزز سمجھتا تھا ‘ اپنی قدرو منزلت اپنے ہاتھوں برباد کر دی۔ ‘‘
میں نے کہا ’’جو کچھ ہونا تھا ہو چکا ۔ اب اس کا کوئی علاج نہیں‘‘
دوسرے دن صبح کو میں خلیفہ مہدی کے دروازے پر پہنچا تو دودربانوں نے یکے بعد دیگرے کہا کہ’’یہاں تمہارا ذکر ابھی ہو رہا تھا۔ ‘‘
پھر ابو خالد کا حاجب میرے پاس آکر کہنے لگا ’’ آپ کہاں تھے؟ ابو خالد وزیر مجھے حکم دے گئے ہیں کہ جب تک میں خلیفہ ولید کے پاس سے واپس آؤں ۔ یحییٰ ابن خالد کو ٹھہرانا‘‘یہ سن کر میں بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر میں ابو خالد برآمد ہوئے اور مجھے دیکھ کر پاس بلایا اور میری سواری کے لیے دوسرا گھوڑا منگایا پھر اس پر سوار کرا کے مجھے اپنے مسکن پر لے گئے۔ وہاں پہنچ کر ابو خالد نے حکم دیا ’’فلاں فلاں غلہ فروشوں کو حاضر کرو۔ ‘‘ چنانچہ وہ گندم فروش حاضر ہو گئے تو ان سے ابو خالد نے پوچھا کہ’’میری جاگیر کا غلہ پینتیس لاکھ روپے میں تم ہی دونوں نے خریدا ہے؟ ‘‘
انہوں نے کہا’’ ہاں‘‘
’’ابو خالد نے کہا’’ تمہیں یا دہے میں نے یہ شرط رکھی تھی کہ اس غلہ کی تجارت میں تم کو ایک اور شخص شریک کرنا پڑے گا۔ جس کو میں نامزد کروں گا۔ وہ شخص یہی ہے۔ ‘‘
تاجروں نے شراکت کا اقبال کیا۔ ابو خالد نے مجھے ان کے ساتھ کر دیا۔ جب ہم لوگ باہر آئے تو تاجروں نے مجھ سے کہا۔
’’مسجد میں چلو ۔ تم سے اس معاملہ میں کچھ گفتگو کرنا ہے۔ جس سے تم کو نفع پہنچے گا۔ ‘‘
پھر ایک مسجد کے اندر لے جا کر انہوں نے کہا ’’اگر ہماری اور تمہاری شراکت قائم رہی تو تم کو گماشتہ اور آڑھتی اور غلہ تولنے والے بہت سے معتبر آدمی نو کر رکھنے پڑیں گے اور تم پر دیسی آدمی انہیں کہاں سے ڈھونڈو گے۔ کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تم اپنا حق شرکت ہم سے کافی منافع لے کر ہمارے ہاتھ بیچ ڈالو ۔ اس طرح تم کو منافع پیشگی مل جائے گی اور آئندہ کوئی خدشہ تم کو نہیں رہے گا’’
میں نے کہا’’ کیا منافع دو گے؟‘‘
کہا’’پچیس ہزار درہم ‘‘
میں نے کہا’’ بہت کم ہے۔ ‘‘
یہ سن کر وہ دونوں تاجر میرے ہرانکار پر رقم معاوضہ بڑھاتے گئے۔ یہاں تک کہ پچھتر ہزار تک پہنچ کر کہنے لگے کہ’’اس سے زیادہ ہم نہیں دے سکتے‘‘
میں نے کہا ’’ ابو خالد سے پوچھ کر جواب دوں گا‘‘‘پھر میں نے ابو خالد سے جا کر کیفیت بیان کی انہوں نے تاجروں کو جا کر پوچھا ’’تم پچھتر ہزار روپے معاوضہ دینے پر رضا مند ہو؟ ‘‘
انہوں نے کہا ’’ہاں‘‘
پھر یہ پوری رقم مجھے ادا کر دی گئی اور مجھ سے کہا ’’ یہ رقم لے کراپنا کام چلاؤ اور تیار ہو جاؤ‘ میں عنقریب کسی صوبے کی گورنری تمہارے لیے تجویز کر رہا ہوں۔‘‘
میں نے روپیہ لے کر اپنا سامان درست کیا اور کچھ عرصہ کے بعد ابو خالد نے حسب وعدہ مجھے ایک صوبے کا گور نر مقرر کر دیا۔میری ترقی برابر کی رہی۔ یہاں تک کہ میں اس منصب و زارت تک پہنچ گیا۔ یہ کہہ کر یحییٰ بر مکی نے اپنے بیٹے فضل سے پوچھا ’’جس شخص نے مجھ پر یہ احسان کیا اس کے بیٹے سے کیا سلوک کرنا چاہیے؟‘‘
فضل نے کہا ’’ ابو خالد کے لڑکے کا بے شک آپ پر بڑا حق ہے ‘‘
یحییٰ نے کہا ’’ اس لڑکے کے ساتھ اس کے باپ کے احسان کا پورا بدلہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ میں اپنے عہدہ وزارت سے دست کش ہو کر اس لڑکے کو اپنی جگہ وزیر مقرر کر ادوں۔ ‘‘چنانچہ یحییٰ نے ایسا ہی کیا۔

مزید :

روشن کرنیں -