گرتے ہیں، شہسوار ہی…………؟
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی طرف سے فائنل کال کا جو کچھ ہوا وہ اب تک سب کے علم میں آ چکا اور اب صورت حال یہ ہے کہ خود تحریک انصاف کی صفوں میں الزام جواب الزام سامنے آ رہا ہے، شوکت یوسفزئی اور ان کی اہلیہ کی طرف سے 24نومبر کو پارٹی کی مرکزی قیادت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے اور بتایا گیا کہ کارکن پوچھتے ہیں کہ اسلام آباد میں داخل ہونے کے بعد جو ہوا، اس میں مرکزی قیادت نظر نہیں آئی۔ دوسری طرف جماعت کے اندر تبدیلیوں کا بہت شور ہوا۔ خبر تو یہ ہے کہ عمران خان نے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر خان کو سیکرٹری جنرل اور چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ گوہر خان کے حوالے سے تائید و تردید نہیں ہوئی وہ بدستور اسی حیثیت میں کام کررہے ہیں جبکہ سلمان اکرم راجہ نے وجوہ بتائے اور الزام لگائے بغیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اس کے علاوہ حامد رضا (مولانا) بھی کور کمیٹی وغیرہ سے مستعفی ہو گئے اور قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے کو عمران خان سے ملاقات اور مشاورت سے مشروط کر دیا، یوں ساری کی ساری کیفیت بعد از…… ناکامی کا رولا ہے کہ شکست ہے کہ الزام سے بچنے کے لئے انتشار کی کیفیت بن گئی ہے۔
تحریک انصاف کے کارکنوں کا غصہ اپنی جگہ بجا ہے کہ مظاہرین کی قیادت کے لئے کوئی مرکزی قائد موجود نہیں تھا، صرف بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور تھے۔ اب بتایا گیا ہے کہ علی امین گنڈا پور ان کو تحفظ دے کر ساتھ لے گئے اور باقی جو ہجوم بچا قیادت سے محروم تھا اور یہی الزام اب بشریٰ بی بی پر لگایا گیا کہ انہوں نے قیادت سے عدم اتفاق کرتے ہوئے ڈی چوک پہنچنے پر ضد کی اور کہا کہ ڈی چوک ضرور جانا ہے لیکن ایسا ہو نہ سکا اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اب وضاحتوں اور الزامات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے،اس سلسلے میں گو علی امین گنڈا پور نشانے پر ہیں لیکن ان کی وزارت اعلیٰ موجود ہے اور اسی بل پر انہوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس بُلا کر اپنی وضاحت کرنے اور نئی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ دھرنے والی ناکامی کے بعد تو انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم پرتشدد ہوا تو مشتعل کارکنوں نے بھی جواب دیا۔ یوں اگر تحریک انصاف کی طرف سے اموات کا الزام لگایا جا رہا ہے تو اس میں تعجب کیا، علی امین گنڈا پور نے تو اسمبلی کے فورم پر پھر اعلان کر دیا کہ وہ آزادی اور بانی کی رہائی کے لئے سردھڑ کی بازی لگانے کے لئے تیار ہیں اور اس بار یلغار روکی نہ جا سکے گی۔ انہوں نے اب جو نئی دھمکی دی وہ زیادہ خطرناک اور اس کے اثرات بھی برے ہیں،انہوں نے ایوان میں کہا ”کسی کا باپ بھی گورنر راج نہیں لگا سکتا، اگر کسی کو شوق ہے تو پورا کرلے“ یوں بولے ”گورنر ہاؤس لگا تو پھر تم میں کوئی بھی ادھر نہیں رہ سکے گا“ یوں بات اور بڑھ گئی ہے۔
اس بحث اور تکرار کو چھوڑ کر میں عرض کروں گا کہ ماضی میں ایوب آمریت کے خلاف تحریک تھی تو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی زبردست تحریک چلی، میں نے ایوب کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی معرکہ، اس سے پہلے حکومت مخالف مظاہروں اور پھر بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد کی زبردست تحریکوں کی بھی رپورٹنگ کی ہوئی ہے۔ میں نے ہر تحریک کے دوران جلوسوں اور مظاہروں کی قیادت کرتے ہوئے مرکزی راہنماؤں کو دیکھا، ماسوا پیر علی مردا ن شاہ پیر آف پگارو کے تمام راہنما خود قیادت کرتے تھے، پیرپگارو بوجوہ کسی مظاہرے میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ میں پی این اے کی تحریک کے دو مختلف واقعات کا ذکر کرتا ہوں، بھٹو مخالف جلوس جامع مسجد چوک نیلہ گنبد سے روانہ ہوا کرتے تھے۔ میں نے 9اپریل کے واقعہ کا ذکر کیاتو معمول کے مطابق اس جلوس کی قیادت نوابزادہ نصراللہ خان اور دوسرے قائدین کررہے تھے۔ یہی جلوس جب ریگل چوک پہنچا اور پولیس نے آگے بڑھنے سے روکا تو تنازعہ ہوا، پھر آنسو گیس اور بالآخر فائرنگ ہوئی، ان حالات میں بھی نوابزادہ نصراللہ خان اور دیگر رہنما جانا نہیں چاہتے تھے کارکن ان سب کو زبردستی ہٹا کر لے گئے تھے۔
آیئے ایک اور افسوس اور دکھ دینے والے جلوس اور واقع کا ذکر کرلیں، یہ بھی اسی تحریک کا ذکر ہے، اس روز مرکزی قیادت ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی تھی اور کئی محترم راہنما بھی موجود تھے۔ انہی میں خواجہ رفیق بھی تھے جو اپنی پارٹی کا جھنڈا لے کر شرکت کیا کرتے، پرجوش مقرر تھے، اس روز جب جلوس جی پی او چوک سے آگے بڑھا تو اگلے چوک میں لاہور ہائیکورٹ کے دروازے اور سٹیٹ بینک بلڈنگ کے سامنے والے کونے میں پیپلزپارٹی کے وکلاء اور کارکن کھڑے نعرے لگا رہے تھے، ان کے ہاتھوں میں چھڑیوں پر آلو پروئے ہوئے تھے اور وہ آلو خان، آلو خان کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ اصغر خان کے سامنے آتے ہی شور زیادہ ہو گیا، پی این اے والے اس طرف بڑھے لیکن قائدین نے روک دیا اور تصادم بچ گیا، یہ جلوس فیصل چوک پہنچ کر اختتام پذیر ہو گیا، کارکن ا ور راہنما منتشر ہو گئے، ہم رپورٹر اسمبلی کی سیڑھیوں تک پہنچ کر کھڑے تھے، اچانک مغربی طرف موجود خانقاہ کے سامنے سے فائرنگ کی آواز آئی۔دیکھا تو ایک نوجوان پستول یا ریوالور سے ہوئی فائرنگ کر رہا تھا، ہمارے سامنے ہوتے ہی وہ فرار ہوگیا، ان دنوں اسمبلی کے پیچھے کھلا میدان تھا جس کے درمیان سڑک تھی میں اور رفیق ڈوگر (مرحوم) وہاں تھے کہ دور ایک تانگہ چلتا نظر آیا، یکایک کوئی نوجوان اس تانگے کے پیچھے بیٹھے کسی سے کچھ چھیننے لگا، تھوڑی دیر کشمکش نظر آئی اور پھر ٹھاہ کی ہلکی آواز سنائی دی اور کوئی شخص زمین پر گرا اور ملزم بھاگ گیا، میں اور رفیق ڈوگر قریب پہنچے تو پہچان لیا کہ خواجہ رفیق زخمی پڑے تھے۔ درمیان والی سڑک پر اصغر خان (تب ڈی ایس پی سول لائنز) عرف ہلاکو خان دوچار سپاہیوں کے ساتھ درمیانی سڑک پر اسمبلی کی طرف جاتے نظر آئے۔ رفیق ڈوگر اور میں نے ایک ہی بار ان کو آوازیں دے کر بلایا اور کہا کہ خواجہ رفیق زخمی پڑے ہیں، وہ وہاں آئے اور پھر ایک پرائیویٹ کار رکوا کر خواجہ صاحب کو زخمی حالت میں اس میں سوار کراکے لے گئے، بدقسمتی ہے کہ ہم خانقاہ کے باہر ہوائی فائرنگ کرنے اور خواجہ رفیق پر گولی چلانے والوں کے چہرے نہ دیکھے سکے اور یوں ہم سے تو پہچانے نہ گئے تاہم خواجہ شہید ہو گئے تھے، ہم اگر ملزمان کو پہچان لیتے تو ہم میں اتنی ہمت ضرور تھی کہ ہم ان کے نام لکھتے چاہے انجام کچھ بھی ہوتا، مقصد یہ ہے کہ لڑائی کیوں کرتے ہو،قیادت تو قائدین کرتے ہیں لیکن تحریک انصاف کی قیادت تو صاف ستھرے سوٹوں کے ساتھ ٹی وی سکرینوں پر نظر آتی ہے یا پھر عدالتوں اور اڈیالہ جیل جا کر واپسی کے بعد میڈیا سے بات کرکے قیادت کا حق ادا کر دیتی ہے، یوسفزئی کا کہنا درست ہے اور سوال بجا ہے کہ ”مرکزی قیادت“ کہاں تھی۔