چمن ریلوے لائن پر بوستان جنکشن سے ایک نیرو گیج پٹری ژوب تک جاتی تھی، اب بند ہو گئی ہے، اسے دنیا کی طویل ترین نیرو گیج پٹری تسلیم کیا گیا تھا

چمن ریلوے لائن پر بوستان جنکشن سے ایک نیرو گیج پٹری ژوب تک جاتی تھی، اب بند ہو ...
چمن ریلوے لائن پر بوستان جنکشن سے ایک نیرو گیج پٹری ژوب تک جاتی تھی، اب بند ہو گئی ہے، اسے دنیا کی طویل ترین نیرو گیج پٹری تسلیم کیا گیا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:26
بسا اوقات ایسی گاڑیاں عموماً بڑی کمپنیاں مقامی طور پر اپنے ملازمین اور سامان کی نقل و حرکت کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ ڈبوں کی چوڑائی کم ہونے کی وجہ سے اس میں مسافروں کے بیٹھنے اور سامان رکھنے کی گنجائش کم  ہوتی ہے۔
کوئٹہ سے چمن ریلوے لائن پر بوستان جنکشن سے ایک نیرو گیج پٹری ژوب تک جاتی تھی، اب بند ہو گئی ہے، اسے دنیا کی طویل ترین نیرو گیج  پٹری تسلیم کیا گیا تھا۔ اس کی لمبائی لگ بھگ300 کلومیٹر تھی۔ اسی طرح رفتہ رفتہ پاکستان میں کچھ اور بھی نیرو گیج پٹریاں تھیں جو بند کردی گئیں یا انھیں تبدیل کرکے پاکستان میں رائج براڈ گیج پٹریوں سے بدل دیا گیا ہے۔
میٹر گیج (3 فٹ 3 انچ)
یورپ، امریکہ اور دوسرے بیشترممالک، مثلاً فرانس، جرمنی، سوئیٹزرلینڈ کے شہروں کو ملانے والی ریلوے لائن کی چوڑائی میٹر گیج ہی میں رکھی جاتی ہے۔ پاکستان کے علاقے میں بھی ایک میٹر گیج پٹری ہوا کرتی تھی، جس کو حیدرآباد جنکشن سے کھوکھرا پار کے راستے ہندوستان کے شہر جودھ پور سے ملایا گیا تھا، تاہم بعد میں پاکستان ریلوے نے اس میٹر گیج  پٹری کو بتدریج براڈ گیج میں تبدیل کر دیا تھا۔ اسی طرح جیکب آباد اور کشمور کے درمیان بھی ایک نیرو گیج پٹری تھی، اسے بھی براڈ گیج میں تبدیل کر کے سارے پاکستان میں ایک ہی معیار اپنا لیا گیا۔
 اسٹینڈرڈ گیج (4فٹ 8.5 انچ)
برطانیہ کی حکومت اور وہاں کی کمپنیوں نے اپنے لیے اسٹینڈرڈ گیج کا انتخاب کیا تھا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ کے دیگر بہت سے ممالک کا ریلوے نظام بھی زیادہ تر اسٹینڈرڈ گیج پر ہی چلتا ہے۔ اسی طرح ہمارے پڑوسی ملکوں ایران، ترکی اور چین والے بھی زیادہ تر اسٹینڈرڈ گیج ہی استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے دنیا کے دوسرے ملکوں سے ریلوے کے عدم رابطے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ جس پر برسوں سے حکومت پاکستان غور کر رہی ہے لیکن ابھی تک کوئی قابل عمل حل نکل ہی نہیں پایا۔
 براڈ گیج  (5 فٹ 6 انچ)
دْنیا میں ابھی کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں ریلوے کے نظام میں براڈ گیج پٹریاں استعمال ہوتی ہیں جن میں منگولیا،فن لینڈ، اسپین، پرتگال، ارجنٹینا، چلی اور آئرلینڈ وغیرہ شامل ہیں۔تاہم ہندوستان، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش وغیرہ میں اب ساری نئی پٹریاں براڈ گیج میں ہی بنائی جاتی ہیں۔ یہ دْنیا بھر میں بچھائی جانے والی پٹریوں کی سب سے زیادہ چوڑی قسم ہے، لہٰذا اس پر چلنے والی گاڑیوں کے ڈبے بھی کافی وسیع ہوتے ہیں اور ان میں نشستوں اور مسافروں کی گنجائش بھی زیادہ ہوتی ہے۔
پاکستان کے پاس شروع میں، براڈ، میٹر اور نیرو گیج تینوں ہی اقسام کی پٹریاں تھیں۔ تاہم ایک منصوبے کے تحت ان کو آہستہ آہستہ براڈ گیج  میں تبدیل کر کے یکساں نظام رائج کر دیا گیا ہے۔پاکستان کے براڈ گیج پر قائم رہنے کی وجہ سے اس کے ریلوے نظام کا رابطہ ہندوستان کے علاوہ کسی اور پڑوسی ملک سے نہ ہو سکا۔ مثلاً ایران کے راستے براہ راست ترکی اور یورپ جانے کا خواب ابھی ادھورا ہی ہے کیونکہ ہماری براڈ گیج پٹریوں کے بجائے وہاں کی پٹریاں اسٹینڈرڈ گیج پر بنی ہوئی ہیں۔
ہندوستان میں ابھی تک مختلف علاقوں میں چاروں گیج کی پٹریاں فعال ہیں۔ لیکن یہ مخصوص ریاستوں یا علاقوں میں ہی چلتی ہیں۔ ہندوستان کے اندر ہی جہاں کہیں ملک کے دوسرے حصے میں جانا ہو یہ ریل گاڑی چھوڑکر دوسرے گیج والی گاڑی پر سفر کرنا پڑتا ہے۔اسی لیے انڈین ریلوے بھی آہستہ آہستہ اپنی تمام پٹریوں کو براڈ گیج میں تبدیل کرتی جا رہی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -