افسانہ بھٹو کی بہادری کا

تحریر: سید عارف مصطفیٰ
مجھے کہنے دیجیئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا شدید مخالف ہونے کے باوجود مجھے اسکی پھانسی کا جزوی افسوس ہے ۔۔۔
جزوی یوں کہ اک ایسے شخص کو ایک غلط عدالتی فیصلے اور نہایت جانبدارنہ طریقہء کار اپنا کر تختہء دار پہ چڑھادیاگیا، ۔۔ اہل علم کو بخوبی علم ہے کہ اسکے دور میں طلباء اور مزدوروں کے احتجاجی ہجوموں پر متعدد بار کروائی گئی وحشیانہ فائرنگ سے ہوئی بیشمار ہلاکتوں اور قومی اتحاد کے جلوسوں میں کیئے گئے قتل عام کی پاداش تو بعد میں ، پہلے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھٹو کے کردار کو پہلے ہی تختہء دار کا مستحق بنادیا گیا تھا-
جسے نہیں معلوم ، وہ بیشک حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ پڑھ لے ۔۔۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جب بتایاگیا کہ اس کے پاس سات گھنٹے باقی ہیں تو ان کا چہرہ سفید پڑگیا لیکن بعد میں خود کو سنبھال لیا تھا اوراپنا کنفیڈینس لیول جلد ہی اس حد تک بحال کرلیا تھا کہ حکام کو اپنے اطمینان کی انتہاء دکھانے لیئے دو گھنٹے سو کربھی دکھایا تھا اور پھراٹھ کر چائے بھی طلب کی تھی جو اسے اس کے مشقتی عبدالرحمان نے جب بناکر دی تو اس وقت تک بھٹو کو پھانسی کو لیجانےکے لیئے جیل اہلکاران کوٹھڑی میں داخل ہوچکے تھے لہٰذا عبدالرحمان کو چائے کا کپ وہیں فرش پہ ہی رکھنا پڑا تھا کیونکہ بھٹو خود کو یقینی طور پر ناقابل پھانسی باور کرچکا تھا جس کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو چند بڑے سربراہان کی جانب سے اسکے لیئے معافی دینے کا مطالبہ تھا جن میں امریکہ کے صدر کارٹر ، سعودی شاہ خالد ، لیبیا کے معمر قذافی، الجزائری صدر بومدین اور یوگنڈا کے عیدی امین کے نام نمایاں تھے۔
کرنل رفیع کے بیان سے یہ تصدیق بھی ہوئی کہ جب بھٹو کو پھانسی کے لیئے لیجانے کے لیئے اہلکاراس کوٹھری میں پہنچے، تب رتن ناتھ سرشار کے لکھے فسانہ آزاد کے تاریخی کردار 'خوجی' کے موافق اس 'مرد جری' نے بھی اچھل پھاند کی تھی - اسے یقین نہیں تھا کہ کہ اسکی رہائی کے لیئے کی گئی اسقدر کثیر اور نہایت ہیوی ویٹ سفارشیں بھی رد کی جاسکتی ہیں لیکن وہاں تو معاملہ ایک قبر اور دو اشخاص کی نوبت تک آپہنچا تھا ۔۔۔
تاہم اس سے کئی دن قبل ہی بھٹو صاحب کی پہلی یگم یعنی امیربیگم نے صدر ضیاء کو باقاعدہ معافی کی درخواست دیدی تھی (جو کہ بعد میں غائب کردی گئی جسکی اینٹری جیل کے ریکارڈ کا حصہ بنی اور پھرپی پی پی کے حکومت میں آنے کے بعد وہ بھی ندارد کردی گئی ) درحقیقت امیر بیگم ہی قانونی طور پہ بھٹو کی مجاز وارث اؤل تھیں اور انکی مجال نہ تھی کہ بھٹو کی مرضی و اجازت کے بغیر کوئی قدم اٹھاسکیں لہٰذا یہ دعویٰ ہی بوگس ہے کہ بھٹو کے لیے انکے کسی وارث نے معافی کی درخواست نہیں دی تھی –
جس کسی کو بھٹو کی بہادری کی اصلیت جاننی ہو وہ مرحوم اصغر خان کی کتاب جنرلز ان پولیٹیکس میں بھٹو کے ان دنوں کے بارے میں انکی یادداشتیں پڑھ لے کہ جب انہیں صدر ایوب خان نےاپنی کابینہ سے نکال دیا تھا اور وہ اصغر خان کے گھر جاپہنچے تھے – یہ الگ بات کہ اسی روپوشی کے عالم میں جب انہیں ہرطرف سے یہ خبریں ملنے لگیں کہ عوام اب ایوب خان سے بیحد بیزار ہیں اور انہیں متؤقع نجات دہندہ باور کرنے اور پیچھے آنے کے لیئے پرجوش ہوچکے ہیں تو پھرتو زلفی نے اپنا خوف کا وہ کمبل اتار پھینکا جس میں وہ کئی روز سے چھپے ہوئے تھے اور مفقود الخبر ہوچکے تھے ۔۔۔
پھر تو بھٹو لاہور بار سے خطاب کرنے بذریعہ ٹرین لاہور جا پہنچے اور جب انہیں لینے کے لیئے آئی گاڑی میں سوار ہونے کے بعد عوام نے اس گاڑی کو اپنے کاندھوں پہ اٹھا لیا تو پھر تو وہ ہواؤں میں اڑنے لگے اور بس اس کے بعد اس 'بہادر' نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ۔۔۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔