ماڈل ٹاؤن کی ہر کو ٹھی میں آم، امرود، جامن کے پیٹر ہوتے تھے، ان درختوں سے پھل توڑ کر کھانا اس دور کے نوجوانوں کا محبوب مشغلہ تھا

  ماڈل ٹاؤن کی ہر کو ٹھی میں آم، امرود، جامن کے پیٹر ہوتے تھے، ان درختوں سے ...
  ماڈل ٹاؤن کی ہر کو ٹھی میں آم، امرود، جامن کے پیٹر ہوتے تھے، ان درختوں سے پھل توڑ کر کھانا اس دور کے نوجوانوں کا محبوب مشغلہ تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:67
میرے بچپن کا ماڈل ٹاؤن(اماں الن)؛
37 بی میں اماں ”الن“(اصل نام عائشہ تھا) علی گوجر کی زوجہ رہتی تھی۔ سخت جان خاتون تھی۔بہت سی گائے پال رکھی تھیں۔ سارا بی بلاک اس سے ہی دودھ لیتا تھا۔ صبح سویرے اٹھتی،اماں دودھ دوہتی، گوبر اکٹھا کرتی، ریڑھی میں ڈالتی، بی بلاک بس سٹاپ کی دیوار کے اندرونی جانب پاتھیاں لگاتی اور پھر بی بلاک گردوارے پہنچتی اور اس کی دیواروں پر پا تھیاں ٹانک جاتی پھر بھی گو بر بچ جاتا تو ماڈل ہائی سکول کی گراؤنڈ کا وہ حصہ جو چیپ سٹور سے ملتا تھا وہاں لگا جاتی تھی۔اماں الن کے پوتے اب بی بلاک میں ماڈل ٹاؤن کی سب سے بڑی چکن شاپ چلاتے ہیں۔         
پھل کے پیٹر؛
 اس دور میں ماڈل ٹاؤن کی ہر کو ٹھی میں آم، امرود، جامن کے پیٹر ہوتے تھے۔میرے اپنے گھر میں دوسہری آم کے 2 اور جامن کے 3(یہ بعد میں کٹوا دئیے گئے تھے کہ فرش گندا کرتے تھے۔)بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں سے پھل توڑ کر کھانا اس دور کے نوجوانوں کا محبوب مشغلہ تھا۔کمال کی یہ بات تھی کوئی کہ کسی بھی کوٹھی کا مالک اس کا نہ توبرا مانتا تھا اور نہ ہی کوئی شکایت کرتا تھا۔یوں سمجھ لیں پیٹر سے توڑ کر پھل کھانا اس بستی کی روایت تھی۔ایک روز مجھے تجمل خاں (بی بلاک کی دکان کا مالک۔ یہ میرے چھوٹے بھائی شہباز کا ہم جماعت تھا۔) نے بتایا؛”شہزاد بھائی! اگلے روز ایک واقف کار آیا اور کہنے لگا؛”خاں صاحب ذرا میرے ساتھ تھانے چلیں میرے بچے کو پولیس پکڑ کے لے گئی ہے کہ اس نے ہمسائے کے گھر سے پھل توڑا تھا۔“ میں تھانے گیا تو وہاں ایک ریٹائیرڈ جج بھی بیٹھے تھے۔ سلام دعا کے بعد انہیں بتایا کہ میں بھی ایسے ہی سلسلے میں تھانے آ یا ہوں۔ انہوں نے ڈی ایس پی کو مخاطب کرتے کہا؛”لگتا ہے آپ ماڈل ٹاؤن میں نئے نئے آئے ہیں۔درخت سے پھل توڑ کر کھانا اس بستی کے واسیوں کی ریت ہے۔ جس نے ایسا نہیں کیا اسے ماڈل ٹاؤن میں رہنے کاحق ہی نہیں۔ آپ اس بچے کو چھوڑ دیں۔ بچے کو چھوڑ دیا تھا لیکن شہزاد بھائی اب وہ پرانی بہاریں نہیں رہیں۔ اس بستی میں بھی نئے دولت مند چلے آئے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کو پرانا سکون ان نئے آنے والوں کے شور میں کہیں دب گیا ہے۔آج بھی اگر کہیں ماڈل ٹاؤن کا کوئی پرانا واسی آپ کو مل جائے تو اس سے مل کر بہت خوشی ہو گی۔ آپ اس سے بات کرکے خوشی محسوس کریں گے جبکہ نئے لوگوں کے پاس  چند منٹ گزارنا بھی مشکل ہے۔“
میرا بی بلاک؛
ماڈل ٹاؤن اڈا بھی تاریخی جگہ تھی۔ یہاں بنی چند دوکانیں اور کھوکھے اس بستی کی بہت سی روایات کے راز دارتھے۔ افسوس 1983ء میں یہ قدیم مارکیٹ ختم کی گئی، پارک اور نئی مارکیٹ1983.84 میں قائم ہوئی اور آج یہ پارک سیر کو آنے والوں کی گہما گہمی اور مارکیٹ بنک سکوائر کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ ماڈل ٹاؤن اڈے پر ہر وقت رونق ہوتی اور مغرب کے بعد تو یہ عروج پر پہنچ جاتی تھی جب پان کے شوقین ”غنی پان“ شاپ کا رخ کرتے۔ پان کھاتے اور دن بھر کی خبروں سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے تھے۔غنی پھل فروش کو بھی سارا ماڈل ٹاؤن جانتا تھا۔ لودھی میڈیکل سٹور، چیپ سٹور، ورائیٹی سٹور، چنوں منوں کی یونائیڈڈ بیکری قابل ذکر دوکانیں تھیں۔ نئی مارکیٹ نے پرانی روایات کی یاد بھی حافظے سے محو کر دی ہے۔ روایات جب یادوں سے دور ہو جائیں تو ثقافت کمزورپڑ جاتی ہے۔
(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -