ترسیلات زر میں بہتری و معاشی استحکام

  ترسیلات زر میں بہتری و معاشی استحکام
  ترسیلات زر میں بہتری و معاشی استحکام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

الیکشن2024ء: پی ٹی آئی اے نے تمام جماعتوں سے زیادہ ووٹ لئے لیکن ان کے پاپولر ووٹ انہیں الیکٹورل برتری نہ دِلا سکے، پھر انتخابات کے بعد قیادت نے معاملات کو جس طرح لیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی کہیں بھی موثر نہ رہی۔پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے ضوابط کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پارٹی الیکشن کرائے،جس کی پاداش میں ان سے بلّے کا نشان چھن گیا اِس بارے میں تو کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ پی ٹی آئی ایک پاپولر جماعت ہے کم از کم الیکشن2024ء کے نتائج سے تو ایسا ثابت ہو گیا ہے،لیکن تحریک انصاف کی قیادت پارلیمانی سیاست میں فہم و فراست کا مظاہرہ نہیں کر سکی ویسے عمران خان کے جیل جانے کے بعد سے جو قیادت اُبھر کر سامنے آئی ہے اس میں کوآرڈینیشن کا شدید فقدان پایا جاتا ہے اگرچہ عمران خان کی سیاست کا محور اور مرکز خود عمران خان ہی ہے اور وہ کبھی بھی لیڈر نہیں بن سکے،وہ ہمیشہ ایک ناراض ”اینگری ینگ مین“ کے طور پر ری ایکٹ کرتے رہے ہیں ان کی یہی ادا ہمارے نوجوانوں میں ان کی پاپولیرٹی کا باعث ہے۔عمران خان ہر وقت1996ء سے لے کر 2011ء تک اور پھر2018ء میں اقتدار میں آنے تک وہ الجھی ڈور رہے بطور وزیراعظم انہوں نے اپوزیشن سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کیا۔10اپریل2022ء میں جب انہیں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے چلتا کیا گیا تو ان کی لڑنے جھگڑنے کی صلاحیتیں مزید نکھر کر سامنے آنے لگیں،اپنی حکومت سے معزولی نے انہیں پاگل سا بنا دیا۔ انہوں نے پنجاب میں تھیٹر لگایا۔عدم استحکام پیدا کرنے کی کامیاب کاوشیں کیں۔زمان پارک میں مورچہ زن ہوئے اور اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کیا۔ عمران خان کی مزاحمتی سیاست کا کلائمیکس 9مئی کا سانحہ ہے جب عمران خان کے مریدین نے ریاست پاکستان پر منظم انداز میں حملہ کیا،پھر جیل یاترا کے بعد سے لے کر24نومبر2024ء تک عمران خان کے ایماء اور حکم پر پی ٹی آئی کے جتھے چھ مرتبہ اسلام آباد اور لاہور پر حملہ آور ہوئے،لیکن ریاست نے حملہ آوروں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا،جو ایک مستحکم اور طاقتور ریاست کرتی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر دفعہ حملہ آور جتھوں کو منہ کی کھانا پڑی،لیکن ان جتھوں کے حملہ آور ہونے کے اعلانات سے شہریوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا،عمومی کاروبار جس طرح متاثر ہوئے۔ معیشت کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا۔ان جتھوں کی چڑھائی سے ایک بات واضح ہو گئی کہ حکومت نے انتظامی طریقوں سے انہیں ناکام بنا دیا،ان کی پارٹی تتر بتر ہو گئی۔ صف اول کی قیادت منظر  سے غائب ہو گئی۔ تحریک انصاف کی سیاسی قوت کا مرکز و محور صوبہ پنجاب اور اس کا مرکز لاہور پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست سے تقریباً مکمل طور پر الگ ہو گیا، آخری بال اور آخری کال کے وقت بھی پنجاب سے کوئی ورکر یا لیڈر باہر نہ نکلا۔آخری کال بھی فلاپ ہو گئی پھر پی ٹی آئی نے ترپ کا پتہ پھینکنے کا فیصلہ کیا، بشریٰ بی بی کی قیادت میں اسلام آباد پر دھاوا بولا  گیا۔اس دوران بیلا روس کے صدر اسلام آباد میں موجود تھے، علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی چند ہزار شریر احتجاجیوں کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہوئیں،حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث معاملات احسن طریقے سے انجام پذیر نہ ہوئے، ویسے گنڈا پور اور بشریٰ بی بی برے طریقے سے کارکنان کو سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے نرغے میں تنہا چھوڑ کر فرار ہو گئے، لیکن انہیں کسی قسم کی شرمندگی نہیں اُٹھانا پڑی، پی ٹی آئی شرمندہ ہونے والی چیز ہی نہیں ہے۔

ویسے اب مذاکرات کا ڈول ڈالا جا چکا ہے،عمران خان جن کے ساتھ ہاتھ ملانا گوارہ نہیں کرتے تھے اور جنہیں چور چور کہتے ہوئے ان کی زبان تھکتی نہیں تھی، اب ان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں،لیکن وہ اس عمل میں بھی بہت سنجیدہ نظر نہیں آ رہے،ان کی مذاکراتی ٹیم پہلی میٹنگ میں پوری طرح شامل نہیں ہوئی تھی اب دیکھتے ہیں کہ اگلی میٹنگ میں کیا ہوتا ہے۔یہ سب باتیں اپنی جگہ،لیکن عمران خان سول نافرمانی کی کال بھی دے چکے ہیں، بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان زرمبادلہ نہ بھیجنے کا کہہ چکے ہیں،کیونکہ عمران خان کا مطمع نظر نہ صرف حکومت کو کمزور کرنا ہے، بلکہ پاکستان کا بھی بیڑہ غرق کرنا ہے اس لئے وہ ہر ایسا قدم اُٹھانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے یا پہنچنے کا امکان ہو۔اِس وقت پاکستان کو زرمبادلہ کی شدید ضرورت ہے ہم ایک ایک ڈالر کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، ہماری تمام پالیسیوں کا محور اور مرکز آئی ایم یاف کی شرائط پر عملدرآمد کرنا ہے تاکہ ہمارے معاملات چلتے رہیں،ہمیں ڈالر ملتے رہیں۔ویسے عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جن پالیسیوں کو اختیار کیا تھا،اس کے بعد کی کیئر ٹیکر حکومت کے دور میں انہی پالیسیوں پر عمل ہوتا رہا،پھر فروری2024ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی شہباز شریف کی حکومت انہی پالیسیوں کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔معیشت استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے، قدرِ زر میں نہ صرف گراوٹ ختم ہو گئی ہے،بلکہ استحکام نظر آ رہا ہے،مہنگائی خاصی کم ہو چکی ہے، شرح سود میں مسلسل کمی آ رہی ہے جو سرمایہ کاری میں اضافے کے لئے ضروری ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی کسی نہ کسی حد تک مستحکم ہیں۔بجلی و گیس کی قیمتوں کے معاملات پر گرفت موثر نہیں ہو سکی،مجموعی طور پر ملک معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سٹیٹ بنک کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزرے گیارہ ماہ کے دور ان بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 31فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے گیارہ ماہ کے دوران21ارب پانچ کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے۔ سب سے زیادہ سات ارب29کروڑ ڈالر سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے بھجوائے یہ رقم گزشتہ سال بھجوائی جانے والی رقم سے 38.7فیصد زیادہ ہے۔یو اے ای سے چھ ارب 15کروڑ ڈالر آئے۔ برطانیہ سے چار ارب71کروڑ، یورپ سے تین ارب 61کروڑ، جبکہ امریکہ سے تین ارب 44 کروڑ ڈالر کی رقوم پاکستان بھجوائی گئیں۔یہ اعداد و شمار حوصلہ افزاء بھی نہیں، خوشی کا باعث ہیں۔قومی معیشت استحکام کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا  ہے کہ عمران خان کی سول نافرمانی کی تحریک کتنی کامیاب ہوتی ہے؟ اندرون ملک تو وہ ریاست پر حملہ آور ہو کر دیکھ چکے ہیں،بار بار اسلام آباد و لاہور پر چڑھائی کر کے بھی دیکھ لیا ہے، لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی،اب وہ مذاکرات کی میز پر تو آن پہنچے ہیں،لیکن احتجاجی سیاست بھی کر رہے ہیں۔ سول نافرمانی کی کال دے کر انتشار کو ہوا دینا چاہ رہے ہیں۔قومی معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے،سفارتی سطح پر پاکستان کو کامیابیاں مل رہی ہیں،لیکن عمران خان کے مریدین کبھی امریکی کانگریس مینوں کو پاکستان کے خلاف اُبھارتے ہیں،کبھی نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نامزد کردہ مشیر عمران خان کی رہائی کے لئے پریس کانفرنس کرتا ہے۔بیرون ملک پاکستانیوں کو زرمبادلہ نہ بھیجنے کی کال دینا ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ مرکزی بینک کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار حوصلہ افزاء ہیں پھر دوسری اہم بات یہ ہے کہ زرمبادلہ کی زیادہ مقدار سعودی عرب اور یو اے ای میں بسنے والے پاکستانیوں کی مرہون منت ہیں یہ لوگ مزدوری کرتے ہیں چھوٹے موٹے کام کاج کر کے اپنے خاندانوں کے لئے مالی وسائل پیدا کرتے ہیں ان ممالک میں ویسے بھی پی ٹی آئی کی پذیرائی نہیں ہے، جہاں تک امریکہ و برطانیہ کا تعلق ہے وہاں صہیونی لابی، کیونکہ غالب ہے اور وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتی ہے ان کی تائید و حمایت وہاں بسنے والے پاکستانیوں میں پی ٹی آئی کی کسی نہ کسی د تک پذیرائی موجود ہے اِس لئے امکان ہے کہ عمران خان کی کال پر کچھ شنوائی ہو،لیکن پاکستان کی مجموعی زرمبادلہ کی آمدنی پر کوئی موثر ڈینٹ پڑتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -