سیاسی عدم استحکام
ہمارے ہاں سیاست اور سماج کا سب سے بڑا مسئلہ عدم برداشت کا ہے. ہم اخلاقی طور پر اتنے بونے ہیں کہ اپنی غلطی کو خوبی اور مخالفین کی خوبیوں کو بھی خامیاں منوانے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں.بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک منظم طریقے سے سیاسی ورکروں کی تربیت ہی ایسے کی جاتی ہے کہ وہ صحیح و غلط کا معیار فقط اتنا جانتے ہیں کہ یہ ہماری پارٹی نے کیا ہے اس لیے درست ہے اور یہ فریق مخالف نے کیا ہے اس لیے غلط ہے.اپنی ذاتی پسند نا پسند کی بناء پر ہم ہر کسی کے فعل کو جانچتے ہیں اور اتنا حوصلہ نہیں رکھتے کہ اپنی صفوں میں غلطی پر بھی ویسے آواز بلند کرسکیں جیسے سامنے والوں کی خوبی پر بھی کردیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی ورکرز عاشقوں والا کردار ادا کرتے ہیں کہ جنہیں اپنے محبوب کی ہر خامی بھی زمانے کی سب سے بڑی خوبی نظر آتی ہے.
انسان غلطیوں کا پتلا ہے. بہترین معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں ایک دوسرے کی تعمیری تنقید کے ذریعے اصلاح کی جائے اور لوگ معاشرے کا سامنا کرنے کے خوف سے غلط کام کرنے سے پہلے سارے معاشرے سے کٹ جانے کی ہمت پیدا کرلیں.مگر جہاں کسی کو اس کے غلط کام پر بھی لاکھوں چاہنے والوں کی مفت کی وکالت مل جائے جو اس کی غلطی پر دلائل کے انبار لگا دیں کہ فلاں فلاں نے بھی تو یہ کیا تھا وہ کیا تھا تو وہاں کیا ضرورت ہے کہ کوئی خود کو سدھارنے کی کوشش کرے.
ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں حکومت و اپوزیشن کے دو مختلف رول ہیں جن کو ادا کرنے والے بدلتے رہتے ہیں مگر کہانی وہی رہتی ہے. جو حکومت میں آ جائے وہ وہی سب دہراتا ہے کہ جس پر وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے روزانہ تنقید کے نشتر برسانا فرض سمجھتا تھا،جن افعال کو سارے ملک کے مسائل کی جڑ سمجھتا تھا اور یوں لگتا تھا کہ اس حکیم وطن نے نبض پکڑ کر اس وطن عزیز کے تمام مسائل کی تشخیص کرلی ہے، بس وقت ملنے کی دیر ہے یہ کمزور، لاغر اور مسائل کے شکار ملک کو دنوں میں ٹھیک کردے گا.ایسے حالات کا ہم کئی دہائیوں سے سامنا کررہے ہیں، مگر ابھی کچھ دن پہلے جو ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے.
سنہ 2013 سے 2018 تک عمران خان اپوزیشن میں تھا تو وہ نواز حکومت کے مینڈیٹ کو جعلی اور دھاندلی زدہ قرار دے کر اس کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا. احتجاج، جلسے،ریلیاں، جلوس، سول نافرمانی، جلاؤ گھیراؤ، 126 دن کا ڈی چوک کا دھرنا اور ایک لمبی فہرست ہے کہ جو اس حکومت کو چلتا کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں. بھلا ہو پانامہ سکینڈل کا کہ جس نے موقع فراہم کیا اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو عدالت سے نااہل قرار دلوا کر گویا انا کو تسکین پہنچ گئی اور بقیہ مدت میں شاہد خاقان عباسی صاحب وزیر اعظم رہے اور نواز شریف صاحب اپنی ہی پارٹی کے اقتدار میں ہونے کے باوجود ملک کے کونے کونے میں جاکر یہ سوال اٹھاتے نظر آئے کہ مجھے کیوں نکالا؟
سنہ 2018 کے الیکشن کے بعد جب پاکستان تحریک انصاف نے اتحادیوں کی مدد لے کر حکومت سازی کرلی تو ملک کی تینوں بڑی پارٹیوں نے اب اس کو دھاندلی زدہ، چوری کا مینڈیٹ، آر ٹی ایس سسٹم کو بٹھا کر لائے جانے اور کئی اس قسم کے الزامات لگا کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا. اور اس کو چلتا کرنے میں لگے رہے جس میں چار سال بعد کامیاب ہوگئے.
گویا ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے باری باری پاکستان کے انتخابی سسٹم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا مگر سوال یہ ہے کہ 2008 سے آج 2022 تک یہ چاروں بڑی جماعتیں برسراقتدار رہ چکی ہیں لیکن کیا انہوں نے پاکستان کا انتخابی نظام اس قابل بنانے کی کوشش کی کہ کوئی اس پر انگلی نا اٹھاسکے؟
یہ حکومت میں ہوتے ہوئے اسی نظام سے مستفید ہوتے ہیں اور اس میں موجود خامیوں کا خوب جی بھر کر فائدہ اٹھاتے ہیں مگر جب اختیار ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے ہاتھ میں جاتا ہے تو یہ شور مچانا شروع کردیتے ہیں. 2013 سے 2018 تک عمران خان صاحب جس پولیس کو تمام مسائل کی جڑ اور پاکستان میں جمہوریت کی سب سے بڑی دشمن قرار دیتے تھے اقتدار میں آنے کے بعد کیا اس میں اصلاحات لائے؟آج پھر وہی پولیس جب عمران خان کے خلاف اسی طرح استعمال ہوئی کہ جس طرح وہ ماضی میں خود استعمال کرچکے ہیں تو آج پھر چیخیں آسمان کو پہنچ رہی ہیں.
جس پارلیمنٹ کے ایک دن کے اجلاس کی قیمت اس غریب، لاچار، مقروض اور آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر پڑی قوم کو 4 کروڑ روپے ادا کرنی پڑتی ہے، چاہے وہ اجلاس کورم پورا نا ہونے، یا اسپیکر صاحب کی طبع نازاں پر کچھ گراں گزرنے کی وجہ سے ملتوی ہی کردیا جائے. اس پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری فقط قانون سازی ہے،لیکن اس کی شاندار کارکردگی تو یہ ہے کہ جس پولیس کے رویے کا رونا یہ سب روتے ہیں وہ پولیس 1860 کے پولیس ایکٹ کے مطابق کام کررہی ہے جس میں برائے نام کچھ رد و بدل مشرف دور میں ہوا اور باقی وہی چل رہا ہے جو انگریز نے 1857 کی بغاوت کچلنے کے لیے ایک غلام قوم پر مسلط کیا تھا.فوجداری نظام وہی 1861 کا بنایا ہوا نظام ہے جو اسی انگریز نے برصغیر کے لوگوں کو اپنی مٹھی میں بند رکھنے کے لیے نافذ کیا تھا.
بیوروکریسی کی ٹھاٹھ باٹھ والا شاہانہ نظام جو برطانیہ نے مال مفت دل بے رحم کے مصداق اپنی بیوروکریسی کو مفت کے مزے کروانے اور برصغیر کے لوگوں پر راج کرنے کے لیے بنایا تھا آج تک وہی چل رہا ہے. مجال ہے کہ کوئی آئے اور آ کر پوچھ سکے کہ یہ بادشاہوں والی مراعات، یہ شاہانہ پروٹوکول، یہ ہزاروں لیٹر تیل، ہر سال نئی گاڑیاں جو بعد میں ان کے گھر کا کوڑا تک پھینکنے کے کام آتی ہیں، یہ بونسز، بھاری الاؤنس، درجنوں خدام، سینکڑوں کنال کے محلات اور مغلیہ شہنشاہوں کے طرز کی زندگی گزارنے والوں کی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کیا خدمات ہیں؟ کیا ان بابو صاحبان کے پاس جاکر کسی کو اپنی عزت نفس برقرار رکھتے ہوئے واپسی نصیب ہوئی ہے؟
اس نظام کا رونا سب روئیں گے لیکن تب تک کہ جب اقتدار سے باہر ہونگے جب اقتدار میں آجائیں پھر اسی کے مزے لوٹ کر واپسی اقتدار سے باہر پہنچ جائیں گے. پھر سے تبدیلی اور انقلاب کی بڑی بڑی باتیں کریں گے....اگر اس ملک کو بہتری کی طرف لے جانا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں اور مقتدر اداروں کو چاہئے کہ ایک نیا عمرانی معاہدہ کریں. کچھ تو ایسے اصول مقرر کرلیں کہ جن کے اندر رہ کر سیاست کرنے اور نظام چلانے کی اجازت ہو.جو اس سے باہر نکلے اسے اس کھیل سے ہی باہر کردیا جائے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔