پی ٹی وی کو تماشا بنا دیا گیا

پی ٹی وی کو تماشا بنا دیا گیا
پی ٹی وی کو تماشا بنا دیا گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پی ٹی وی اور پی آئی اے کسی زمانے میں پاکستان کی پہچان تھے لیکن اب ہماری نااہلی کے ترجمان ہیں ہم نے قومی تعمیر سے متعلق تقریباً تمام ضروری ادارے تو وقت پر بنا لئے تھے اور ان کی اٹھان بھی قابل فخر تھی لیکن پھر پتہ نہیں کیا بدقسمتی ہوئی کہ ہم ہمہ جہتی زوال کا شکار ہوگئے۔

1964ء میں پاکستان ٹیلی وژن شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے قومی منظر پر چھا گیا۔ پی ٹی وی نے پاکستان کے عوام میں قومی یکجہتی پیدا کی، اعلیٰ معیار کی تفریح فراہم کی ادب اور کلچر کو فروغ دیا، قابلِ فخر زمانہ تھا کہ بھارت میں ہماری نشریات کا انتظار رہتا تھا مجھے بہت پہلے روم کے ہوائی اڈے پر ایک بھارتی ملا، تعارف ہوا تو کہنے لگا کہ ہم تو پاکستان سے آنے والے کسی دوست یارشتہ دار سے فرمائش کرتے ہیں کہ ہمارے لئے پی ٹی وی کے کچھ ڈرامے لیتے آئیں۔

ہاں یہ ماننا چاہئے کہ خبروں اور حالات حاضرہ کے شعبوں میں ہم ریاست اور قوم نہیں حکومت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں لگے رہے، اس جرم میں، میں بھی شامل رہا۔ اس صورتحال کی اصلاح کیلئے خواہشیں تو کئی ذہنوں میں پلتی رہیں کئی دفعہ آزادی اظہار کے لئے نعرہ مستانہ بھی سننے کو ملا لیکن خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے دور میں چند ماہ کیلئے عملی کوشش ہوئی۔

اطلاعات کے وزیر مملکت جاوید جبار صاحب نے واقعی ایڈیٹوریل آزادی دے دی، لیکن انقلابی پارٹی محترمہ بینظیربھٹو جیسی روشن خیال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیراعظم کی قیادت کے باوجود سچ کا بوجھ نہ سہار سکی اور یوں جاوید جبار صاحب ٹی وی کو آزادی تو کیا دیتے اپنے قلمدان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔
وزیراعظم عمران خان چونکہ بہت عرصہ اقتدار سے دور رہے اس لئے وہ اقتدار کے بارے میں ایک رومانس کا شکار رہے اور بڑے بلند بانگ دعوے کرتے رہے لیکن اب جب انہیں اقتدار میں آکر تلخ حقائق سے واسطہ پڑا تو انہیں کچھ کچھ اندازہ اور قوم خصوصاً ان کے حامیوں کو بھی ہو رہا ہے کہ حکمرانی کتنا مشکل کام ہے۔ میرے سمیت سب لوگ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو لتاڑتے رہے کہ وہ گڈگورننس کے مقابلے میں بری طرح فیل ہوئی، حالانکہ قوم کو اس سے بڑی امیدیں تھیں کیونکہ اس کے پاس تجربہ کار اور پڑھے لکھے لوگوں کا وسیع پول تھا پھر عمران خان آگئے وہ دعوی کیا کرتے تھے کہ وہ 100قابل اور ایماندار آدمی لے آئیں گے جو قومی اداروں کو پلک جھپکنے میں اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں گے، لیکن پتہ یہ چلا کہ سو تو کیا پی ٹی وی کی قیادت کیلئے ایک بھی نیا بندہ دستیاب نہ ہوسکا۔ بلکہ پی ٹی وی کی تین تین بار قیادت کرنے والے لوگوں سے ہی کام چلانا پڑا۔ یوسف بیگ مرزا تین دفعہ پی ٹی وی کے ایم ڈی رہے اور اب جناب ارشد خان نے تیسری دفعہ پی ٹی وی کی قیادت سنبھالی ہے۔ مرزا صاحب وزیراعظم کے مشیر کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، اگر دونوں کا موازنہ کریں اگرچہ یہ مشکل کام ہے تو پہلی بات تو یہ کہ دونوں کا میڈیا کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن دونوں بڑے کامیاب رہے لیکن آج جس طرح پی ٹی وی زوال کا شکار ہے اس کی ذمہ داری سے بھی وہ مکمل طور پر بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان دونوں کی قیادت کے درمیان میں تین سال محمد مالک ایم ڈی رہے۔اگرچہ ارشد خان نے مجھے دانستہ یا نادانستہ کافی نقصان پہنچایا۔ تاہم میں ان کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میری معلومات کے مطابق مالی اور اخلاقی بدعنوانیوں سے ان کا دامن صاف ہے اور ایک مضبوط شخصیت کے مالک ہیں۔
اب پی ٹی وی کو ایک آزاد اور قومی امنگوں کا آئینہ دار چینل بنانے کا چیلنج تو نئی حکومت کو درپیش تھا ہی وفاقی وزیر اطلاعات جناب فواد چوہدری نے کئی دفعہ اعلان کیا ہے کہ پی ٹی وی آزاد ہوگیا ہے لیکن عملی طور پر صورت حال جوں کی توں ہے۔ کرنٹ افیئرز کے پروگراموں میں اپوزیشن کے نمائندوں کو بلانے کا عمل تو پچھلی معتوب حکومت میں شروع ہو چکا تھا مگر خبروں کے معاملے میں آزادی اب تک ایک خواب ہے۔ بیجنگ کا لفظ بیگنگ بولنے پر ڈائریکٹر نیوز کو فارغ کردیا گیا، ایک آزاد ادارہ بنانے کا خواب تو پتہ نہیں کب حقیقت کا روپ دھارے گا لیکن اب تو ادارے کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔

پچھلی حکومت نے محمد مالک کے بعد کئی سال ہمہ وقتی ایم ڈی کا تقرر نہیں کیا، موجودہ حکومت بھی اب تک یہ کام نہیں کرسکی، فی الحال ایم ڈی کا چارج چیئرمین جناب ارشد خان کے پاس ہے پچھلے دنوں کسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پی ٹی وی میں فل ٹائم ایم ڈی مقرر نہیں کیا جارہا۔ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ 7مارچ تک ایم ڈی کا تقرر کیا جائے، اس پر انتظامیہ نے تقرری کا پروسیجر شروع کردیا اور ایک اشتہار دے دیا، سلیکشن کے لئے اب کمیٹی کی تشکیل کے سوال پر پی ٹی وی انتظامیہ اور وزیراطلاعات کے درمیان ٹھن گئی ہے۔

ہوتا یہ آیا ہے کہ ایم ڈی کی سلیکشن کیلئے کمیٹی وزارت کی سطح پر بنتی تھی یا وزیراعظم نے روف چوہدری کی قیادت میں ایک سرچ کمیٹی بنائی ہوئی تھی لیکن اس دفعہ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اپنے ہی پانچ ارکان کی ایک کمیٹی اس کام کیلئے تشکیل دے دی ہے۔ جس میں ڈی جی آئی ایس پی آر اور سیکرٹری اطلاعات بھی شامل ہیں جو کمپنیز آرڈی ننس کے مطابق ہے لیکن وزیراطلاعات کو یہ پروسیجر منظور نہیں۔ لہٰذا اب ان معاملات پر چیئرمین ارشد خان وزیراعظم کے مشیر نعیم الحق اور فواد چودھری کے درمیان کھلی جنگ ہو رہی ہے۔

اس سلسلے میں الیکٹرانک چینلز پر پروگرام اور اخبارات میں خبریں چھپ چکی ہیں، حتی کہ وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں بھی ایک طویل اور یکطرفہ رپورٹ چل چکی ہے۔ ادارے کی یونین نے دھرنا دیا ہوا ہے اور اس دھرنے میں وہ ملازمین بھی شامل ہیں جنہیں دو سال سے ریٹائرمنٹ کے بعد واجبات ادا نہیں کئے گئے اور وزیراطلاعات فواد چودھری نے اس دھرنے کو خطاب کیا ہے اور بڑی سخت باتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے اردگرد کچھ غیر منتخب مشیر معاملات کو خراب کر رہے ہیں۔ ان کا اشارہ نعیم الحق اور بعض دوسروں کی طرف ہے جو وزیراعظم ہاؤس کی آنکھیں اور کان ہیں۔ دھرنے والے چیئرمین/ ایم ڈی کو دفتر نہیں جانے دے رہے۔
ادارے کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں، فیصلے کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے ادارے میں اوور سٹافنگ ہے تین چار شعبوں میں کوئی مستقل سربراہ نہیں۔ اکثر بڑے عہدوں پر ایسے لوگ قابض ہیں جو ’’وایا بٹھنڈا‘‘ ان عہدوں تک پہنچے ہیں۔

ان میں اکثر کی تعلیمی قابلیت ان عہدوں سے لگا نہیں کھاتی۔ اقربا پروری عروج پر ہے۔ لوگوں کے پورے کے پورے خاندان یہاں کام کر رہے ہیں۔ میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ اب موجودہ حکومت جو انقلابی تبدیلیوں اور میرٹ کی بالادستی کی علم بردار ہے، اس کے اعلیٰ عہدیداروں نے ان معاملات کو ایک ایسا تماشہ بنا دیا ہے جس کی پی ٹی وی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ وزیراعظم نے جیسے تیسے ایک ٹیم تو بنالی، لیکن ٹیم ورک نام کی کوئی چیز نہیں۔ وزیراعظم صاحب کو پی ٹی وی کے معاملے میں بہت جلد کوئی فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ ناقابل تلافی نقصان کا خدشہ ہے۔

مزید :

رائے -کالم -