محنت کشوں کا عالمی دن اور قومی تقاضے

محنت کشوں کا عالمی دن اور قومی تقاضے
 محنت کشوں کا عالمی دن اور قومی تقاضے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 یکم مئی محنت کشوں کا عالمی دن ہے اس دن پاکستان اور دُنیا بھر کے محنت کش متحد ہوکر شکاگو (امریکہ) میں 1886ء محنت کشوں کی آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر کرانے کے لئے قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے سماج میں محنت کی عظمت اور محنت کشوں کو باوقار و محفوظ حالات کار، بنیادی حقوق انجمن سازی واجتماعی سوداکاری کے احترام، کمسن بچوں کی مشقت ، جبری محنت اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمہ کے لئے متحد ہوکر آواز بلند کرتے ہیں تاکہ سماج میں سرمایہ داری وجاگیرداری سے محنت کشوں کا استحصال ختم ہو اور ایک منصفانہ معاشرہ معرض وجود میں آئے۔ *۔۔۔ پاکستان میں اس روز تمام شہروں میں محنت کش یکجا ہوکر شکاگو کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مطالبات کے حق میں منظم جلسے،جلوس منعقد کریں گے۔ اس وقت موجودہ عالمی معیشت اور آزادانہ تجارت کے دور میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے اور عوامی جمہوریہ چین میں بھی سرمایہ کاری کا نظام قائم ہونے ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں میں محنت کشوں کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ محنت کشوں کو لیبر قوانین کے تحفظات سے محروم کرکے فری لیبر مارکیٹ کے قیام کے لئے کوشاں ہیں، جس سے سماج میں سرمایہ داری کو روز بہ روز فروغ مل رہا ہے اور محنت کشوں کے حقوق کے قوانین پر عمل نہیں کیا جارہا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وباء اور قومی، صوبائی اسمبلیوں ، سینٹ آف پاکستان اور پالیسی ساز اداروں میں محنت کشوں کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نہ تو آئی ایل او کے توثیق شدہ کنونشنوں کے مطابق موثر طور پر قانون سازی اور نہ ہی موجودہ لیبر قوانین پر عمل کررہی ہے، جس کی وجہ سے کارکن غیر محفوظ حالات کار کی وجہ سے المناک حادثات کا شکار ہورہے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن گارمنٹس فیکٹری کراچی میں 259 کارکن موت کا لقمہ بن گئے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں بجلی، کانوں، ٹرانسپورٹ، ٹیکسٹائل اور انجینئرنگ میں اسی وجہ سے آئے دن کارکن المناک حادثات و پیشہ وارانہ بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ حکومت نے توثیق شدہ آئی ایل او کنونشن نمبر 81 کے مطابق نہایت کمزور لیبر انسپکشن مشینری ہونے کی وجہ سے محنت کشوں کے مروجہ لیبر قوانین پر عمل بھی نہیں ہورہا۔  مثال کے طور پر حکومت آجروں سے اْن کی تنخواہ میں دو فیصد رقم ورکرز ویلفیئر فنڈ سے ہر ماہ کاٹتی ہے، لیکن یہ 70 ارب سے زائد رقم وفاقی وزارت خزانہ میں جمع ہے جبکہ کارکنوں کے بچوں کی تعلیم و رہائش کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ نہیں کئے جارہے ۔ کمپنی کارکنوں کے منافع کا قانون 1968ء سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مطابق مناسب قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے عمل نہیں ہورہا اور کارکن اپنے بنیادی حق سے محروم ہیں۔اولڈ ایج سکیم انسٹیٹیوٹ ایکٹ 1976 کے تحت آجران و کارکنوں سے جمع شدہ رقم کے کھربوں روپے ماضی کے بورڈ آف گورننگ باڈی نے دھوکہ دہی سے استعمال کر کے ضائع کر دیئے ہیں، لیکن اس مہنگائی کے دور میں ریٹائر ڈملازمین کو صرف 3600 روپے ماہوار بڑھاپے کی پنشن ادا کی جارہی ہے۔ صنعتی و کمرشل اداروں میں تعینات کارکن تمام عمر محنت و خدمت میں صرف کردیتا ہے، لیکن سوشل سیکیورٹی سکیم کے تحت اسے بیماری کی صورت میں بڑھا پے میں علاج معالجہ سے محروم رکھا جاتا ہے۔  بان�ئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ مفاد عامہ کے ادارے قومی مفاد میں سرکاری شعبے میں ہوں گے، لیکن حکومت ورلڈ بینک کے دباؤ پر اہم قومی اداروں بجلی، آئل اینڈگیس، ریلوے، پی آئی اے، سول ایویشن، نیشنل بینک آف پاکستان میں انتظامی اصلاحات کے نفاذ سے کارکردگی میں اضافہ کرنے کی بجائے انہیں نجکاری کے حوالے کر رہی ہے۔ ان حالات میں محنت کشوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے اپنی ٹریڈیونینوں کو صنعتی و قومی سطح پر منظم کر کے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے فرمان کے مطابق ملک میں قومی اقتصادی خود کفالت اپنا نے کی جدوجہد کو کامیاب کریں، جس سے پاکستان میں غربت، جہالت، بیروزگاری، جاگیر داری، نا انصافی اور سماج میں امیر و غریب کے مابین فرق ختم کرکے ایک مثالی ریاست قائم ہو اور ملک میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ عام آدمی کو اقتصادی و سماجی انصاف مہیا ہو۔

مزید :

کالم -