اے لیول، او لیول کے امتحانات؟
گورننس کا تقاضہ ہے کہ کسی بھی فیصلے سے پہلے اچھی طرح غور کر لیا جائے، ضرورت ہو تو مشاورت بھی ہو جاتی ہے،چنانچہ جو بھی فیصلہ ہو اس کے مطابق اگر حکم جاری کر دیا جائے تو پھر اس پر عمل کرانا حکومت کے لئے لازم ہو جاتا ہے۔دوسری صورت میں ناکامی ہو تو بدنامی ہوتی ہے۔ حال ہی میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے واضح طور پر اعلان کیا کہ کورونا کی وجہ سے تمام امتحانات ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔ اے لیو ل اور او لیول کے امتحانات ستمبر اکتوبر میں ہوں گے، آج ان کا ایک بیان چھپا ہے۔اس میں انہوں نے ایک اہم بات یہ کہی کہ کسی طالب علم کو امتحان کے بغیر پاس نہیں کیا جائے گا۔گزشتہ برس کورونا کی پہلی لہر کے وقت ایسا ہو چکا ہے اور طلباء و طالبات کو سابقہ امتحانی ریکارڈ کے مطابق درجہ بندی کر کے پاس کر دیا گیا،اب تیسری لہر کے حوالے سے تعلیمی ادارے بند ہیں، اور باقاعدہ طور پر شفقت محمود اور ڈاکٹر فیصل نے مشترکہ پریس کانفرنس میں این سی او سی کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سب امتحانات ملتوی کر دیئے گئے ہیں، ان میں او لیول اور اے لیول بھی شامل تھے، تاہم آج کے بیان میں طلباء کے پاس ہونے کے لئے امتحان کی شرط کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بعض طلباء کو جن کے لئے امتحان مجبوری تھا، اجازت دی گئی ہے اور ہدایت کی گئی کہ50،50 طلبا امتحان دیں اور ان کے درمیان فاصلہ ہونا چاہئے۔ یہ اجازت مبینہ طور پر کیمبرج کے او لیول اور اے لیول کے لئے ہے کہ امتحان کا اہتمام کرنے والی اتھارٹی نے یہ احکام تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اے لیول،او لیول کے امتحان جاری رکھے، حالانکہ جن ایس او پیز کا ذکر اور پابندی شفقت محمود کی طرف سے کہی گئی اس پر عمل نہیں ہوا۔ طلباء کی تعداد پچاس سے کہیں زیادہ ہے اور پرچہ ختم ہو جائے تو طلباء میں سماجی فاصلہ بھی برقرار نہیں رہتا۔سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ریاست کے اندر کوئی اور ریاست بھی ہے؟