باپ وزیر اعظم،بیٹا وزیر اعلیٰ
تجزیہ: محمد نوشاد علی
شاید ہی کسی جمہوری ملک میں ایسا ہوا ہو کہ باپ ملک کا وزیر اعظم ہو تو ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ اس کا بیٹا ہو۔ پاکستان میں آج یہ تاریخ بھی رقم کر دی گئی ہے اگرچہ ایسا ”سوچا“ نہیں گیا تھا لیکن اللہ کی قدرت اور سیاسی دنگل میں پہلوانوں کی قلا بازیوں سے ایسا ہو گیا۔ ایک وقت تھا جب چوہدری پرویز الٰہی حال ہی میں بننے والے اتحاد کے امیدوار تھے اور عثمان بزدار کو ان کے منصب سے ہٹانا مقصود تھا لیکن یکایک چوہدری پرویز الٰہی عثمان بزدار سے استعفیٰ دلوا کر خود تحریک انصاف کے امیدوار بن گئے،جسے دیکھ کر تجربے کار سیاستدانوں پر مشتمل اتحاد بھی ہکا بکا رہ گیا۔یہی وہ وقت تھا جب قدرت حمزہ شہباز پر مہربان ہو گئی کیونکہ ان کے علاوہ کوئی اور ایسا امیدوار نہیں تھا جس پر تمام اتحادیوں کا اتفاق ہو۔ حمزہ شہباز کو نامزد کر دیا گیا اور وہ 197 ووٹ لے کر وہ وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔ لگ بھگ ایک ماہ کے آئینی اور قانونی معاملات کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے حمزہ شہباز سے وزارت اعلیٰ کا حلف لے ہی لیا۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے، بڑا بھائی بھی والد کے برابر ہوتا ہے اسی لئے لگ بھگ 5 سال قبل بھی ایسا ہی تھا جب نوازشریف وزیر اعظم اور شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔بعض لوگوں کے خیال میں یہ جوڑی سیاست کے پردہ سکرین پر کچھ جچتی نہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے تھے کہ صوبے اور وفاق کے درمیان بہت سے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوتے رہنے کی اصل کنجی یہ خون کا رشتہ ہی تھی۔ یہ جوڑی ایک اور ایک ملکر 11 ہو چکے تھے۔حمزہ شہباز کی کارکردگی کیسی رہے گی یہ کوئی نہیں جانتا لیکن سب یہ ضرور جانتے ہیں کہ میاں شہباز شریف پنجاب کو چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں تو حمزہ شہباز نے اگر اپنے والد کے مشوروں اور ہدایات پر صحیح طرح عمل کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ صوبہ نہ صرف چلنے لگے بلکہ دوڑنے لگے۔ایسا نہیں کہ معاملات باآسانی حل ہو جائیں گے کیونکہ صوبے میں ایک طرف سپیکر صوبائی اسمبلی ہیں تو دوسری طرف گورنر پنجاب جبکہ تحریک انصاف اور اس کے پرانے اتحادی اس وقت سخت نالاں ہیں اس لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچتی رہے گی اور آئین کے ساتھ ساتھ قانون کی جنگ بھی عدالت میں چلتی رہے گی، آخری گیند تک …… لیکن نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے لئے سب سے بڑا چیلنج ٹاسک مہنگائی کا جن ہے جسے بوتل میں بند کرنا لازم ہے۔ تحریک انصاف کی بیڈ گورننس اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ سلوک کی وجہ سے تشکیل پانے والے اتحاد کے پاس ملک کے تین بڑے صوبے ہیں، اتحاد نے اگر اپنے وسیع تر تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اتنی محنت کرے جتنی عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے دوران کی گئی تو مہنگائی کا جن مکمل طور پر بوتل میں بند نہ بھی کیا جا سکے تو بھی اسے اس حد تک جکڑا ضرور جا سکتا ہے کہ عام آدمی اس کے شر سے کسی حد تک محفوظ ہو جائے۔
تجزیہ