کسان سراپا احتجاج کیوں؟

 کسان سراپا احتجاج کیوں؟
 کسان سراپا احتجاج کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 بحران پہ بحران، ملک عزیز مسلسل بحرانوں کی لپیٹ میں، حالیہ دنوں میں گند م بحران نے کسانوں کو شدید پریشان کر رکھا ہے، اور یہ ہر گز نئی بات نہیں ہے، ملک میں ہر سال چینی او رگندم بحران نمودار ہو تا ہے، ہر حکومت چینی اور گندم بحران کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آ تی ہے، اس وقت کسان کی حالت یہ ہے کہ وہ گندم کو ہاتھ میں لے کر بیٹھا حکومت کی طرف دیکھ رہا ہے کہ حکومت کسان سے گندم خریدے مگر حکومت مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے،اب ملک میں درآمدی گندم مقررہ ضرورت سے زائد منگوانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع وزارت پیداوار نے بتایا ہے کہ پہلے مرحلے میں بیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، درآمد کی گئی گندم فروری میں پاکستان پہنچنا تھی تاہم تاخیر کی گئی۔پھرمزید دس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری لی گئی اور مجموعی طور پر تیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرلی گئی۔ دوسری جانب پنجاب حکومت گندم کی خریداری پر اب تک کوئی فیصلہ نہ کر سکی جب کہ کسانوں نے حکومت کے فیصلے کیخلاف احتجاجی تحریک بھی شروع کر رکھی ہے۔ گندم بحران کیوں نمودار ہوا، کسان نے اپنی گندم حکومت کو بیچنی ہوتی ہے، سرکاری گوداموں میں پہلے سے گندم موجود ہے؟ اور یہی بحران کی وجہ ہے؟ وزیر اعظم نے پاسکو کو تو ہدف بڑھانے کا کہہ دیا مگر پنجاب حکومت فیصلہ کرنے میں قاصر کیوں نظر آ رہی ہے، اس بحران کی ذمہ دار تو بیوروکریسی نظر آ رہی ہے، بیورو کریسی نے ہی اعداد شمار پیش کرنے ہوتے ہیںاگر حکومت خریداری کا فیصلہ نہیں کرتی تو کیا کسان احتجاجی تحریک چلائیں گے؟ باردانہ ہمیشہ کی طرح بااثر افراد کو تو مل جا تا ہے مگر چھوٹا کسان اس معاملے میں ہمیشہ محروم رہتا ہے اور اسے بہت مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے بلاوجہ وافر مقدار میں درآمد شدہ گندم حالیہ بحران کی وجہ بنی، کسانوں سے مزید گندم خریدی تو حکومت کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ بہت سے سوالات ہیںجو عام آدمی کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں کیونکہ اس وقت کسان سراپا احتجاج ہیںاور حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3900 مقرر کی ہے لیکن کسانوں کو وہ بھی نہیں مل رہی اور کسانوں کا موقف ہے کہ حکومت باہر سے مہنگی گندم درآمد کر رہی ہے لیکن اپنے کسانوںکو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے اور کسانوںکا موقف ہے کہ حکومت نے جو امدادی قیمت مقرر کی ہے وہ بھی کسانوں کو نہیں مل رہی اور اوپن مارکیٹ میں اس وقت گندم حکومت کی مقرر کردہ قیمت سے بھی ایک ہزار روپے کم پر بک رہی ہے اور کسان چونکہ گندم سٹور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو اس لئے مجبوراً انہیں اپنی کاشت کردہ گندم سستے داموں بیچنی پڑ رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ کسانوں کو باردانہ بھی نہیں مل رہا کیونکہ ماضی میں یہی فی ایکڑ 10 بوری باردانہ دیا جاتاتھا، جسے اس مرتبہ کم کرکے محض 6 بوری کر دیا گیا ہے، گزشتہ سال کسانوں کو فی بوری 60 روپے ٹرانسپوٹیشن چارجز دئے گئے تھے، جنہیں اس مرتبہ کم کرکے 30 روپے فی بوری کر دیا گیا ہے جبکہ ایک سال کے دوران مہنگائی کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن چارجز دگنے ہو چکے ہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ بار دانہ بھی اطلاعات کے مطابق نہیں مل رہا اور سرکاری اہلکار رشوت لے کر کسانوں کو یہ بار دانہ مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔گزشتہ برس پنجاب حکومت نے کسانوں سے 45 لاکھ ٹن گندم خریدی تھی،2023 کے لئے گندم کی سرکاری خریداری کا مجموعی ہدف 78 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا تھا،تاہم اس مرتبہ پاسکو 14 لاکھ، سندھ 10 لاکھ جبکہ بلوچستان 50 ہزار ٹن گندم کسانوں سے خریدے گا،یعنی مجموعی طورپر ساڑھے 24 لاکھ ٹن گندم خریدی جائے گی۔جبکہ کسانوں کے پاس اس وقت چالیس لاکھ ٹن سے زائد گندم موجود ہے۔ اس حوالے سے جتنے بھی کاشت کاروں سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ یہ حکومت میں بیٹھی بیورو کریسی کے اہلکاروں کی وجہ سے کسان سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں اور وہ پنجاب حکومت کو غلط گائیڈ کر رہے ہیں او ر حکومت کو یہ صلاح دی جا رہی ہے کہ باہر سے گندم امپورٹ کر لیتے ہیں جو سستی پڑے گی لیکن یہ بابو جو سرکار چلا رہے ہیں اگر اپنے کسانوں کو ہی سستی بجلی دیں،کھاد سستی دیں، ڈیزل کا ریٹ کم کر دیں تو یہی کسان آپ کو یہ گندم دو ہزار روپے فی من بیچنے کو بھی تیار ہو ں گے لیکن اس کے لئے انہیں سہولتیں تو مہیا کریں۔جو کسان دھرتی کا سینہ چیر کر موسموں کی سختیوں کو برداشت کر کے گندم کاشت کر رہا ہے اسے سڑکوں پر احتجاج کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے اور اگر کسان اگلے برس فصل نہیں اگائے گا احتجاج میں ہی لگا رہے گا تو یقینا ملک ایک غذائی بحران میں مبتلا ہو جائے گا اور اسی موقع کیلئے باہر سے مہنگی گندم منگوائی جا ررہی ہے تا کہ بیوروکریسی میں بیٹھے یہ لوگ اپنی کمیشن کھری کریں۔ میری اس کالم کے ذریعے وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ سے گزارش ہے کہ وہ کسانوں کے مطالبات کو سنیں اور ان کی گزارشات پر غور کریں اور بیوروکریسی کو ملک کو غذائی بحران میںدھکیلنا چاہتی ہے ان کیخلاف کارروائی کریں تا کہ ہماراملک آنے والے دنوں میں غذائی بحران کا شکار ہونے سے بچ سکے۔

مزید :

رائے -کالم -