گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 67
14 اگست کی تاریخ تھی۔ جب لارڈماؤنٹ بیٹن بذریعہ طیارہ کراچی پہنچے تاکہ پاکستان کی نئی ریاست کے گورنر جنرل کا عہدہ مسٹر محمد علی جناح کے سپرد کریں۔ وہی جناح جنہوں نے زندگی کا خاصا حصہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں گزارا تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ابھی بہت کچھ لکھا جائے گا لیکن بدقسمتی سے ان لوگوں نے جو ان کے بہت قریب تھے اور تقسیم کے راز ہائے درون پردہ تک رسائی رکھتے تھے ان کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ میں نے سردار نشتر پر زوردیا کہ وہ کچھ لکھیں کیونکہ ان کی یادداشت بہت قوی تھی، ادبی مذاق بھی رکھتے تھے اور قائداعظم کے بارے میں اپنی یادوں کا ایک وقیع سرمایہ اکٹھا کرسکتے تھے۔ وہ اس کام پر آمادہ بھی ہوگئے لیکن بدقسمتی سے اس واقعہ کے فوری بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ میں نے چوہدری محمد علی سے بھی بات کی تھی، لیکن انہوں نے بھی کچھ نہیں لکھا۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مسٹر جناح سے میری پہلی ملاقات مسلم لیگ کے اس اجلاس میں ہوئی جو ان کی زیر صدارت دہلی میں ہوا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس موقع پر کل پندرہ یا بیس ارکان حاضر تھے۔ ہم نے اس سے پہلے سرفضل حسین کی رہنمائی اور آغا خان کی صدارت میں مسلم ارکان شامل تھے۔ انگریز فطری طورپر اس تنظیم کو بڑی اہمیت دینے لگے تھے تقسیم ملک کا مسئلہ جس زمانہ میں سامنے آیا، اس وقت تک سرفضل حسین کا انتقال ہوچکا تھا۔ مسٹر جناح اس زمانہ میں تمام مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر تھے اور ان کی جماعت مسلم لیگ ہندوستان کے بعض اکثریت کے صوبوں میں برسرحکومت تھی۔ قائداعظم ایک نہایت بلند کردار اور دیانت و امانت کی بے بدل صفات کے مالک تھے۔ اعلیٰ عہدوں کا لالچ دے کر انہیں خرید لینا ناممکنات میں سے تھا اور یہ بات ہندوؤں اور انگریزوں کو بھی معلوم تھی۔
قائداعظم، اپنی ذاتی حیثیت میں، نہایت مہربان ار خلیق تھے۔ وہ اصول کے معاملہ میں سخت تھے۔ ان کے خیالات غیر معمولی حد تک واضح اور دوٹوک ہوتے تھے۔ لباس نہایت پاکیزہ اور بے داغ پہنتے تھے۔ گفتگو میں سنجیدگی، استدلال اور رواداری ہوتی تھی۔ جن دنوں آئینی بات چیت جاری تھی اور پانچ یا سات صوبوں کے وفاق کی تجویز پیش ہوئی تھی، انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا’’ میں نے غیر منقسم ہندوستان کا منصوبہ منظور کرلیا ہے۔ جس میں مرکز کے پاس صرف چار امور کے محکمے ہوں گے‘‘
میں نے برجستہ کہا ’’آپ پاکستان ہار گئے۔‘‘ اس کے بعد میں نے اس بیان کی وضاحت کی ’’ فوج جس فرقہ کے اختیار میں ہوگی وہی ملک پر حکومت کرے گا ،چونکہ دفاع کا محکمہ مرکز کے پاس ہوگا اور مرکزی پارلیمنٹ میں لامحالہ ہندوؤں کی بالادستی ہوگی لہٰذا یہ منصوبہ مسلمانوں کے لئے موت کا پروانہ ثابت ہوگا‘‘ قائداعظم یہ سن کر گہری سوچ میں مبتلا ہوگئے۔چند دنوں بعد انہوں نے مجھ سے کہ ہندو، اب مرکز کے لئے زائد امور کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جن میں صنعت اور تجارت کے محکمے خاص طور پر شامل ہیں۔ میں نے ان سے کہا ’’اب آپ کے لئے موقع ہے۔ خدا کے لئے اس بکھیڑے سے باہر نکلیں اور تقسیم کے مطالبہ پر ڈٹ جائیں‘‘ بالآخر ہمیں آزادی حاصل ہوگئی کیونکہ انہوں نے ہندوؤں کے آگے پسپائی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مسٹر جناح نے ایک موقع پر مجھ سے پوچھا کہ دارالحکومت کہاں بنایا جائے؟ میں نے راولپنڈی کا نام لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں دارالحکومت وہیں قائم کرتا لیکن یہ شہر کشمیر کے علاقے سے بہت قریب ہے۔ اس وقت نئے دارالحکومت کی تعمیر کے لئے مناسب سرمایہ بھی نہیں تھا۔ لہٰذا کراچی کا انتخاب کرنا پڑا۔
کانگریس پارٹی اور وائسرائے کے ساتھ مسلم لیگ کی جو بات چیت جاری تھی اس میں مَیں شریک نہیں تھا تاہم قائداعظم مجھے اکثر طلب کرتے تھے اور مشورہ فرماتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ بات درست ہوگی کہ ہندوستانیوں کو حیدر آباد پر اس شرط کے تحت قبضہ کا حق دے دیا جائے کہ کشمیر ہمارے تصرت میں آجائے۔ میرا خیال ہے کہ قائداعظم کو یہ پیشکش پٹیل نے کی تھی۔ میرا نظریہ یہ تھا کہ کابینہ کے منصوبہ کے تحت حیدر آباد ایک آزاد مملکت کے طور پر قائم رہ سکے گا جس کا فرمانروا مسلمان ہی ہوگا لیکن کشمیر ہر صورت ہمارے ساتھ شامل ہوگا کیونکہ وہ مسلمان آبادی کی بہت بڑی اکثریت کا علاقہ ہے۔ مسٹر جناح نے کہا کہ حیدر آباد کے عوام کی اطلاع یا اجازت کے بغیر ان کی آزادی کا یوں سودا کرلینا ہمارے لئے ایک غیر اخلاقی بات ہوگی۔ قانون کی پابندی ان کے طرز فکر کا لازمہ تھی۔ چنانچہ انہوں نے کبھی کوئی ایسی بات نہ کہی جو انہیں اصولی طور پر غلط نظر آئی۔ جیسا کہ بعد کے تاریخی واقعات سے ثابت ہوا، برطانیہ کی جانب سے حیدر آباد دکن کو مکمل آزادی کی پیشکش صریح غلطی تھی اور پھر اس صورت میں جبکہ برطانیہ حیدر آباد کو بچانے کے لئے ہندوستان سے لڑنے پر بھی تیار نہ تھا۔
ایک اور موقع پر انہوں نے مجھ سے پوچھا ’’نون! فلاں صاحب کے بارے میں اس دن آپ نے مجھ سے کیا کہا تھا؟‘‘ انہوں نے ایک بہت بڑے انگریز افسر کا نام لیا تھا اور اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ’’ آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ سچائی پر ہمیشہ کاربند رہتے؟‘‘ میں نے جوابد یا کہ میرے خیال میں فلاں صاحب سچائی کے راستے سے دانستہ انحراف نہیں کرتے۔ البتہ ان کا حافظہ غالباً کمزور ہے۔ مسٹر جناح نے پوچھا ’’پھر اس کا علاج کیا ہے؟‘‘ میں نے اس کے جواب میں کہا کہ ’’جب کسی شخص کے ساتھ آپ کی سیاسی بات چیت ختم ہوجائے تو آپ کو اس پارٹی کے نام اس مضمون کا ایک خط ضرور لکھنا چاہیے، جس میں بات چیت کے نتائج درج ہوں۔ا گر وہ تحریری طور پر اس کی تردید فوراً نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس بارے میں آپ کا بیان صحیح ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کے بعد قائداعظم ہمیشہ اس طریقہ پر کم سے کم اس شخص کی حد تک، کاربند رہے۔ نازک مسائل پر بات چیت کے دوران میں تمام معاملات کو جلد از جلد قلمبند کرلینا چاہیے تاکہ کسی غلط فہمی کا اندیشہ باقی نہ رہے۔(جاری ہے )