چڑھتے سورج کی سرزمین نارووال
اپنے علاقے اور وطن سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔چند ہفتے قبل محترم سید عارف نوناری صاحب نے اپنی اور نسیم درمانوی کی نئی کتاب ”چڑھتے سورج کی سرزمین“ نارووال کا احوال، گورداسپور سے کرتارپور تک، عنایت کی۔ کتاب کیا ہے معلومات کا ایک خزینہ ہے اور مصنفین نے اپنی کئی سالوں کی محنت کی بدولت اسے ایک نادر نسخہ بنا دیا ہے۔ 1990 کے اوائل میں اسلامیہ کالج نارووال میں تعلیم کے دوران" سرزمین نارووال " نامی کتاب پڑھنے کا موقع ملا تو نارووال کی تاریخ، جغرافیہ اور مشاہیر سے آگاہی ہوئی اور ہمیں پتہ چلا کہ پاکستان کا معیاری وقت تحصیل شکرگڑھ سے لیا جاتا ہے۔اس کے بعد تقریباً 28 سال کا عرصہ پاکستان آرمی میں گزارا، اس دوران کبھی کبھار گاؤں جانے کا اتفاق ہوا لیکن علاقائی حالات سے خاطر خواہ آگاہی نہ رہی۔چند ماہ پہلے نارووال کے احوال کے بارے میں جناب سید عارف نوناری اور نسیم درمانوی کی کاوش کا سنا اور دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔650
سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب نارووال کے بارے میں ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کتاب میں علاقے کی تاریخ، شہروں کے حالات،کھیلوں، رسم ورواج، ندی نالوں، تاریخی واقعات، نقشہ جات، اہم شخصیات کی تصاویر، بزرگان دین، مشاہیر، ثقافت، علاقائی اور ملکی سیاست میں نارووال کے اہم افراد کا کردار، 1965 اور 1971 کی جنگ کے اہم واقعات، تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے بارے میں بھی معلومات شامل ہیں۔ دوران سروس ملٹری ہسٹری میں جسڑ،شکرگڑھ اور ظفروال کے علاقوں میں ہونے والی لڑائی کی تفصیلات پڑھنے کا موقع ملا اور 2001 میں گوجرانوالہ میں تعیناتی کے دوران علاقے سے مزید آگاہی حاصل ہوئی، میں نے جسڑ کے پاس وہ تباہ شدہ پل بھی دیکھا جس پر ابھی تک شہداء کے قیمتی خون کے آثار باقی ہیں۔ 1991سے پہلے نارووال ضلع سیالکوٹ کی ایک تحصیل ہوا کرتا تھا اور انتظامی اورعدالتی امور کے لئے لوگوں کو لمبی مسافت طے کر کے سیالکوٹ جانا پڑتا تھا۔ سڑکوں کی خراب حالت کی وجہ سے کسی چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی عام آدمی کا پورا دن ضائع ہو جاتاتھا۔
اسی ضرورت کے پیش نظر اور عوام کی سہولت کی خاطر ضلعی ہیڈکوراٹر یہاں شفٹ کیا گیا۔ اور اس میں شکرگڑھ اور ظفروال کی تحصیلیں شامل کی گئیں۔پائلٹ آفیسر راشد منہاس نشان حیدر کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی نارووال سے تھا اور سوار محمد حسین شہید نشان حید ر نے ظفروال-شکرگڑھ کے محاظ پر اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور ملکی دفاع کے لئے ایک انمٹ داستان رقم کی۔ مجھے سروس کے دوران ظفروال کے اس محاذ کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ اس کتاب میں دوسرے اہم قصبوں کے ساتھ "سنکھترہ " کا ذکر ملتا ہے جہاں سے ہم نے 1990 میں نمایاں پوزیشن کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا ان دنوں سکول آنے جانے کے لئے سائیکل استعمال کرتے تھے اور کئی دفعہ اخبار پڑھنے کے لئے قریبی قصبے میں جانا پڑتا تھا۔2019 میں سکھوں کے اہم رہنما بابا گورونانک کی یاد میں گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور تعمیر کیا گیا جس کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سراہا گیا اور اس کے افتتاح کے لئے وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف بھی آئے تھے۔ اس کتاب میں بہت زیادہ تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔کتاب اپنی ضخامت کے باعث ایک سے زائد جلد پر مشتمل ہونی چاہیے۔اس کتاب میں جن اہم شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں پیر جماعت علی شاہ، فیض احمد فیض،زیڈ اے سلہری،فخر کشمیر کرنل شیر علی خان، ایس ایم ظفر، ائر چیف مارشل مجاہد انور خان، جسٹس اعجاز احمد چودھری، احسن اقبال، ابرار الحق،۔چوہدری انور عزیز (مرحوم)،پیر سعیدالحسن شاہ، یوسف عالمگیرین، صولت رضا،مظہر برلاس، احمد نوید الحسن اور پیر ضیاء الحق نقشبندی بھی شامل ہیں۔ امیر ملت پیر جماعت علی شاہ نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اور وہ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔
علامہ اقبال کو امیر ملت سے گہری عقیدت تھی۔ ایک بار امیر ملت کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہو رہا تھا۔ جلسہ گاہ میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ علامہ اقبال ذرا دیر سے آئے اور امیر ملت کے قدموں میں بیٹھ کر کہا اولیا ء اللہ کے قدموں میں جگہ پانا بڑے فخر کی بات ہے۔ یہ سن کر امیر ملت نے فرمایا: ”جس کے قدموں میں اقبال آ جائے اس کے فخر کا کیا کہنا"۔فیض احمد فیض اردو کے ایک عظیم شاعر تھے اور وہ کالا قادر ضلع نارووال میں پیدا ہوئے۔غالب اور اقبال کے بعد فیض احمد فیض کا شمار اردو کے چوٹی کے شعرا میں ہوتا ہے۔ نقش فریادی کے علاوہ بھی انہوں نے شاعری کے کئی مجموعے لکھے۔زیڈ اے سلہری 1913ء میں ظفروال کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے وہ اپنے دور کے ممتاز صحافی اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ان کااصل نام ضیاء الدین احمد سلہری تھا۔ زمانہ طالب علمی سے مطالعے اور لکھنے کا شوق رہا۔انہوں نے تحریک پاکستان کے لئے اپنے قلمی جہاد کے ذریعے زبردست کردار اداکیا۔انگریز ی اخبار ''ڈان'' میں کام کیا۔1965ء کی جنگ کے موقع پر ان کی قومی خدمات اور صحافتی قابلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں ڈائریکٹر آئی ایس پی آر مقرر کیا گیا۔
پاکستان کے نامور قانون دان ایس ایم ظفر کا تعلق بھی نارووال سے ہے وہ ایوب خاں کے دور میں وزیر قانون بھی رہے اور انہوں نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کا مشہور مقدمہ ہالینڈ کی عدالت سے جیتا تھا۔ مجھے ایس ایم ظفر سے کئی دفعہ ملاقات کا اعزاز بھی حاصل رہاہے۔جسٹس اعجاز احمد چودھری لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بھی رہے۔انہوں نے اپنے علاقہ میں رفاع عامہ کے کئی کام کروائے ہیں۔چوہدری انور عزیز بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔وہ کسی بھی شخص کی لمحوں میں مزاج آشنائی کا ہنر رکھتے تھے۔ انہیں نہ صرف سیاست بلکہ ادب،تعلیم،کھیل معیشت،موسیقی، معاشرت غرض کسی بھی موضوع پر کلام کرنے کی مہارت حاصل تھی۔اس کتاب کی اشاعت کے بعد سوشل میڈیا اور دوسرے فورمز پر مصنفین کی کاوش کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے۔