جمعرات کو ہائیکورٹ میں جج فیصلے لکھانے کا کام کرتے یا اپنے اپنے چیمبر میں ہفتے کا باقی ماندہ کام نمٹاتے، اسے ”جج منٹ ڈے“ کہا جاتا تھا 

 جمعرات کو ہائیکورٹ میں جج فیصلے لکھانے کا کام کرتے یا اپنے اپنے چیمبر میں ...
 جمعرات کو ہائیکورٹ میں جج فیصلے لکھانے کا کام کرتے یا اپنے اپنے چیمبر میں ہفتے کا باقی ماندہ کام نمٹاتے، اسے ”جج منٹ ڈے“ کہا جاتا تھا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:40
میں نے بھی اپنی زندگی کو سنت رسول ﷺ کے نقوش پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ زندگی بھر میں نے انصاف اور انسانی حقوق کا ساتھ دیا ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ اس راستہ پر قائم رہنا چاہتا ہوں۔
ساہیوال سے لاہور آمد
1978ء کے اوائل میں میں مکمل طور پر لاہور شفٹ ہو گیا۔ بڑی تلاش اور تگ و دو کے بعد دفتر کے لئے ایک بہت اچھا سا فلیٹ بنک سکوائر میں مل گیا۔ بنک سکوائر لاہور شہر کا ایک انتہائی اہم علاقہ ہے جہاں چند وکلاء کے دفاتر بھی ہیں۔ تقریباً تمام بنکوں کے ہیڈآفس یہاں ہیں۔ ویسے بھی شہر کا مرکز ہے ایک طرف مال روڈ، دوسری طرف نیلا گنبداور انارکلی بازار۔ ساتھ ہی پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام نامی لے کر میں نے فلیٹ میں اپنا دفتر قائم کر لیا اور اس کا نام ’مجاہد لاء چیمبر‘ رکھ دیا۔ یہاں لاہور میں میرے ساتھیوں نے میرے ساتھ ڈیرے جما دیئے۔ اس زمانہ میں جمعۃ المبارک کی ہفتہ وار چھٹی ہوتی تھی۔ جمعرات کو ہائی کورٹ میں عدالتی کام کی بجائے جج صاحب اپنے فیصلے لکھانے کا کام کرتے تھے یا اپنے اپنے چیمبر میں ہفتہ کا باقی ماندہ کام نمٹاتے تھے۔ اسے ”جج منٹ ڈے“ کہا جاتا تھا جبکہ لوئر کورٹس میں باقاعدہ عدالتی کام ہوتا تھا۔
میں جمعرات کو صبح ہی ساہیوال روانہ ہو جاتا۔ دوستوں سے میل ملاقات ہوتی اور کئی کیسز بھی دوست وکلاء میرے حوالے کر دیتے۔ چونکہ ساہیوال بار میں چار پانچ برس گزار کے میں لاہور آیا تھا۔ یہاں میرا آبائی شہر ہونے کی وجہ سے بھی میرے تعلقات بڑے گہرے اور اچھے تھے۔ مقامی وکلاء کے تعاون اور اپنے گہرے مراسم کی وجہ سے ایک دو سال میں ہی میں لاہور کے مصروف وکلاء میں شمار ہونے لگا۔ اس دوران ایک قطعہ زمین میں نے علامہ اقبال ٹاؤن سے ملحقہ آبادی اتحاد کالونی میں دیکھا جو مجھے پسند آیا۔ میں نے اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ مشورہ کر کے اسے خرید لیا اور اس پر گھر کی تعمیر کا کام شروع کر دیا۔ ان ہی دنوں فروری 1981ء کے اوائل میں لاہور ہائی کورٹ کے 3 مستقل بنچ راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں قائم کر دیئے گئے۔ چونکہ ضلع ساہیوال ملتان ڈویژن میں شامل تھا اس لئے ساہیوال سے متعلق میرے 90 فیصد کیس ملتان منتقل ہو گئے(ساہیوال کو اب ایک علیٰحدہ ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا ہے)۔ جس کے لئے مجھے مسلسل ملتان پے در پے آنا جانا پڑتا۔ اس پر میں نے اپنی بیگم صاحبہ سے کہاکہ کیوں نہ ہم ملتان شفٹ کر جائیں مگر بیگم صاحبہ نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ لاہور میں میرا گھر بن رہا ہے میں لاہور ہی رہوں گی۔ آپ اپنا فیصلہ خود کریں۔ بیگم صاحبہ کا مؤقف مضبوط تھا۔ میں نے ملتان میں اپنا کام بڑی اچھی طرح نمٹایا۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور اور گرد و نواح کے اضلاع میں اپنے تعلقات کو وسیع کیا۔ ملتان میں کام کم ہو گیا۔ میرا ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی اور رسول اللہ ﷺ پر گہرا اعتقاد ہے اسی پر ہمیشہ بھروسہ کیا جو ہمیشہ میرا کارساز و مددگار رہا ہے اور میری اس بات پر یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ہمیشہ غیبی امداد ملتی رہتی ہے۔ میرا وکالت کا کام لاہور میں زیادہ ہو گیا اور میں لاہور میں زیادہ مصروف ہو گیا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -