بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔بارہویں قسط
مشروط رہائی کی پیشکش اور انکار:
ایک دفعہ آدھی رات کو تقریباً ایک بجے میرا نمبر پکار کر مجھے نیند سے جگایا گیا اور تحقیق کے لیے مجھے دوسری جگہ لے گئے۔ وہاں پر ایک تفتیش کار اور ترجمان پہلے سے موجود تھا ۔پھر دو اور مزید تفتیش کار آگئے۔ میز پر چائے پڑی ہوئی تھی اور انہوں نے بڑی خوش آمد کی اور پھر قید خانے کے متعلق کچھ پوچھا پھرگھر والوں کا پوچھا کہ آپ کو ان کا کوئی پتہ حال و احوال ہے کہ نہیں؟ میں بہت حیران ہوا کہ اتنی نرمی کیوں کر رہے ہیں ۔پھر مجھ سے انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت تحقیق کی ہے آپ کے خلاف ہمیں کوئی بھی ثبوت نہیں ملا اور امریکی قید میں ہمارے کوئی فائدہ نہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو رہا کر دیں لیکن آپ یہ ہمیں ضرور بتائیں کہ آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ کتنے پیسے چاہئیں؟ کتنے ٹیلی فون چاہئیں؟ اور یہ بتائیں کہ ہمارے ساتھ ملا عمر اور اسامہ کی گرفتاری میں آپ کتنی مدد کر سکتے ہیں؟ ہم ابھی سے آپ کی رہائی کا بندوبست کرتے ہیں۔
گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔ ۔ ۔گیارہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اس لمحے میرے لیے گرفتاری اس رہائی سے ہزار درجہ بہتر تھی کہ میں اپنے مسلمان بھائیوں کے سرکا سودا کافروں سے کروں۔
میں بات دوسری طرف لے گیا اور میں نے ان سے پوچھا کہ آخر آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ لوگوں نے مجھے کیوں گرفتار کیا؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ہمارا خیال یہ تھا کہ تم القاعدہ کے رکن ہوگے اور تمہیں القاعدہ کے مالی مراجع اور کارکنوں کا علم ہوگا اور 9/11کے بارے میں تمہیں مکمل معلومات ہوں گی لیکن تم ہماری تحقیقات کے مطابق بے گناہ نکلے اور تم صرف ایک محب وطن شہری ہو ۔
میں نے ان کے جواب میں کہا کہ آپ کے قول کے مطابق میں جب بے گناہ ہوں اور آپ نے امریکیوں اور آپ کے پاکستانی غلاموں نے مجھ پر ظلم کیا تو پھر میری رہائی کے لیے شرائط کیوں لگائی جا رہی ہیں اور بغیر کسی شرط و قید کے کیوں رہا نہیں کیا جا رہا؟ لیکن تفتیش کار برابر مالی و مادی لالچ دیتے رہے اور تین دن تک یہ سلسلہ جاری رہا میرے انکار پر ان کا لب و لہجہ ایک مرتبہ پھر سخت ہوا اور پھر(جبر و تشدد کا)پرانا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔
قندھار سے گوانتاناموبے منتقلی؛
ایک روز صبح کے وقت جب ہم خیمے کے اندر بیٹھے ہوئے تھے کہ بہت سے فوجی ہمارے خیموں میں آئے اور دس دس قیدیوں کو زنجیروں اور بیڑیوں سے باندھ کر باہر لے گئے ہم آپس میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں اور تبصرے کر رہے تھے کوئی کہہ رہا تھا کہ ہمیں رہا کیا جا رہا ہے اور کوئی کہتا تھا کہ نہیں کسی اور جگہ منتقل کیا جا رہا ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں۔ اس کے بعد باری باری قیدیوں کے سر ، ڈاڑھیاں، مونچھیں، اور بھنویں مونڈھ دی گئیں اس طرح میری باری بھی آئی تو میرے لیے یہ مرحلہ موت سے سخت تھا۔ میری ڈاڑھی، بھنویں اور سر کے بال مونڈھ دیئے گئے اور میں بے بس تھا۔ مزاحمت پر مجھے زور دار تھپڑ کھانا پڑا جس سے اس سے پہلے کے ایک ڈاکٹر کی مار بھی یاد آتی ہے کہ اس نے مجھے شدید تھپڑ آنکھوں پر اس وقت مارا تھا جب میں نے اس سے درد کی شکایت کی تھی اور ڈاکٹر کے دوبار استفسار پر میرے جواب پر اس شیطان ڈاکٹر نے مجھے اور مارا تھا۔
تم ہمارے غلام ہو:
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ امریکی فوج نے قرآن کریم کی بے حرمتی کا سلسلہ قندھار میں شروع کیا تھا اور یہاں کیوبا جیل میں تقریباً دس مرتبہ قرآن مجید کی انتہائی ذلت آمیز بے حرمتی کی گئی۔ پانچ مرتبہ تو خود امریکیوں نے بھی اسے تسلیم کیا اور اس پر میڈیا بھی گواہ ہے اور یہ ایک حقیقت تھی کہ امریکی قرآن کی بے حرمتی کرکے تمام مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ تم ہمارے غلام ہو اور تمہیں دین و قرآن کی کوئی عزت ہے اور نہ ہی قابل احترام و عزت ہیں۔ کیوبا میں ہمیں80فیصد قرآن مجید کی بے حرمتی کرکے دیتے تھے کیونکہ امریکیوں کو معلوم تھا کہ قرآن کریم مسلمانوں کا مذہبی صحیفہ ہے اور اس کی توہین سے ان کی زبردست دل آزاری ہوتی ہے اور باقی20فیصد تکالیف اور تھیں۔
(جاری ہے۔ تیرہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔