آئین اور سیاسی رویے
8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بھاری اکثریت سے جیتے کیوں کہ عام انتخابات سے قبل ان کا پارٹی نشان چھن چکا تھا اور الیکشن کمیشن کے بعد سپریم کورٹ سے بھی ان کو ریلیف نہ مل سکا اس لئے اب قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی تقسیم پر ایک ابہام ہے اور اسی ابہام کی وجہ سے صدر مملکت عارف علوی نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی سے انکار کیا۔صدر عارف علوی نے سمری مسترد کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو مکمل کیا جائے اور ہمارا آئین کہتا ہے کہ جب تک اسمبلی کی تکمیل نہ ہو جائے قائد ایوان کا انتخاب اس وقت تک نہیں ہو سکتا اور نا مکمل اسمبلی کیسے پاکستان کے عوام کی نمائندہ اسمبلی ہونے کا دعوی کر سکتی ہے۔
قارئین کو بتاتا چلوں کہ نگران وزیراعظم نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کیلئے سمری صدر کو بھجوائی تھی اور 26 فروری کو اجلاس طلب کرنے کی تجویز کی تھی تاہم صدر کی جانب سے اس پر کوئی رد عمل جاری نہیں کیا گیا لیکن اب صدر نے اسے مسترد کرتے ہوئے واپس بھجوا دیا گیاہے۔دوسری جانب مسلم لیگ ن اور پی پی کا موقف ہے کہ 21 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا لازم ہے اور اگر صدر مملکت سمری منظور نہیں کرتے تو مدت پوری ہونے کے بعد سپیکر اسمبلی کو اجلاس بلانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا اور اب سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے 29 فروری کو اسمبلی کا اجلاس طلب کر کے ایک نیا ابہام پیدا کر دیا ہے۔
مسلم لیگ ن اور پی پی کا موقف ہے کہ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ الیکشن ہونے کے 22 دن بعد اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا آئین کے تحت ہے اور یہ صدر مملکت کی آئینی ذمہ داری ہے۔دوسری جانب اگر ہم ذرا ماضی میں جھانکیں تو یہی سیاسی جماعتیں تھیں جنہوں نے اپنی من پسندانہ آئین کی تشریح ماضی میں کی۔جب گزشتہ برس تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کیا تو اس کے بعد آئین کی رو سے نگرانوں کی مدت 90 روز جو کہ آئین میں درج ہے ہونا طے تھی اور 90 روز کے بعد اگر نگران حکومت الیکشن نہیں بھی کراتی تو صدر کو اختیار حاصل تھا کہ وہ آئینی مدت گزرے کے بعد الیکشن کی تاریخ دے سکتے تھے اور انہوں نے 14 مئی 2023 کی تاریخ اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے دی بھی تو اس وقت مسلم لیگ ن اور پی پی نے واویلا کیا کہ صدر کو اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ دے جبکہ آئین اس وقت کہہ رہا تھا کہ 90 روز کے اندر الیکشن کرانا ضروری ہیں تب یہی سیاسی جماعتیں الیکشن سے بھاگ رہی تھیں اور تاخیری حربے استعمال کر رہی تھیں۔پھر پاکستان کے عوام نے دیکھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نگرانوں کو ایک سال دیا گیا اور ان سیاسی جماعتوں کا خیال تھا کہ وہ اتنا وقت گزار جائیں گی کہ جیل میں قید کچھ سیاسی قیدیوں کی اہمیت عوام کی نظر میں کم ہو جائے گی لیکن یہ سیاسی جماعتیں بھول چکی تھیں کہ پاکستان کے عوام تو یوں بھی مظلوم کا ہمیشہ ساتھ دیتے آئے ہیں۔
تب ان سیاسی جماعتوں کو تاخیر پسند تھی اور چاہے اس پر آئین ہی کو کیوں نہ روندا جا رہا ہو لیکن اب ان سیاسی جماعتوں کو حکومت بنانے کی جلدی ہے اور صدر پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہی ہیں۔تب ان سیاسی جماعتوں کا موقف تھا کہ اگر الیکشن چند دن کیلئے آگے پیچھے بھی ہوجائے تو کوئی قیامت نہیں برپا ہو جائے گی اور اب یہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جلد سے جلد بلایا جائے تاکہ یہ مخصوص سیٹوں کا فیصلہ ہویئے بغیر ہی اقتدار پر قبضہ جما سکیں۔چاہے اس کیلئے اسمبلی مکمل ہوتی ہے یا نہیں ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے،دوسری جانب تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور اب الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ ان کو ان کا حق دیا جائے کیونکہ کہ الیکشن میں بے ضابطگیوں کی وجہ سے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر پہلے ہی ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
سندھ میں دھاندلی کیخلاف ایک تحریک چل چکی ہے جس کو مولانا فضل الرحمن کی پارٹی لیڈ کر رہی ہے اور اگر یہ تحریک پورے پاکستان میں شروع ہو گئی تو پھر جو بھی نئی حکومت بنائے گا اس کیلئے حکومت کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا اس لئے ملک کو مزید انتشار میں دھکیلنے کی بجائے الیکشن کمیشن دھاندلی کی تحقیقات کرے،اور سیاسی جماعتیں بھی جلد بازی نہ کریں اور آئین پر عمل کریں جب اسمبلی کی تکمیل ہو تب ہی قائد ایوان کا انتخاب کیا جائے کیونکہ نا مکمل اسمبلی سے منتخب ہونے والا قائد ایوان پورے پاکستان کا نمائندہ ہونے کا دعویدار نہیں ہو سکے گا جس سے ملک مزید سیاسی افراتفری کا شکار ہو گا۔