گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 68
ایک اور موقع پر مسٹر جناح نے مجھ سے دریافت کیا کہ ماؤنٹ بیٹن کے تحت جو مسلم لیگ اور کانگریس پارٹی کی مشترکہ عبوری حکومت بنے گی، اس میں کس محکمہ کا مطالبہ کیا جائے۔ انہیں کسی نے مشورہ دیا تھا کہ دفاع کا محکمہ طلب کریں، جو ان دنوں میرے پاس تھا کیونکہ تقسیم ہند کے مرحلہ میں مسلح افواج پر قبضہ بہت مفید ثابت ہوسکتا تھا۔ میں نے اس کی سختی سے مخالفت کی کیونکہ پہلی بات تو یہ تھی کہ اس محکمہ کی اصل طاقت کمانڈر انچیف کے ہاتھ میں تھی، جو ایک انگریز تھا۔ دوسری بات یہ کہ باقی اقتدار اگر کہیں تھا تو وہ وزیر خزانہ کے پاس تھا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وزارت خزانہ حاصل کرنے کے بعد وہ تمام محکموں کو اپنے زیر اثر رکھ سکیں گے۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 67 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہندوستان میں وزیر خزانہ کی کارفرمائی تمام محکموں کو اپنے زیر اثر رکھ سکیں گے۔ ہندوستان میں وزیر خزانہ کی کارفرمائی تمام محکموں میں تھی۔ برطانیہ کے وزیراعظم نے شروع ہی سے ہندوستان کی پوری انتظامی مشینری پر اتنا زبردست اختیار و اقتدار قائم کیا تھا کہ یہاں کا کوئی وزیر، وزارت خزانہ کی پیشگی منظوری حاصل کئے بغیر اپنے بجٹ سے ایک روپیہ کی بچی ہوئی رقم بھی صرف کرنے کا مجاز نہ تھا۔ اس انتظام کی سخت گیری یہیں ختم نہیں ہوتی۔ بجٹ کی منظوری کے بعد بھی کوئی وزارت، محکمہ خزانہ کی مزید منظوری حاصل کئے بغیر کسی طرح کی رقم خرچ کرنے پر قادر نہ تھی۔ یہ کا راز رفتہ نظام جزوی طور پر آج بھی موجود ہے۔ خزانہ کا وزیر اگر اپنے کسی رفیق کارکو ناپسند کرتا ہے تو اس کی تجاویز کی راہ میں دانستہ رکاوٹیں کھڑی کرکے اس کا سیاسی مستقبل تباہ کرسکتا ہے۔ مسٹر جناح نے وزارت خزانہ کا مطالبہ کیا جو انہیں مل گئی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ان کے وزیر خزانہ لیاقت علی خاں نے اتنا زبردست احتساب قائم کیا کہ کانگریس پارٹی نے تنگ آکر مسلمانوں کو الگ کردینے میں ہی عافیت محسوس کی اور اس کے بعد پاکستان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوئے کیونکہ انہیں صاف نظر آتا تھا کہ مسلمان متحدہ ہندوستان میں دوسروں کا جینا دوبھر کردیں گے۔
ایک زمانہ میں، وائسرائے کی کونسل کے وزیر خزانہ سر جارج شسٹر تھے۔ انہی دنوں شملہ میں یہ افواہ گشت کررہی تھی کہ کونسل میں بجٹ کی پیشی سے پہلے کسی ہندوستانی تاجر نے ان سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں وزیر خزانہ کی زبان سے نادانستہ طور پر چند ایسے الفاظ نکل گئے جن سے تاجر کو بجٹ کے مندرجات کے متعلق قیاس کرنے کا موقع مل گیا۔ چنانچہ اس تاجر نے بمبئی میں لاکھوں روپے کی چاندی خرید لی اور اس سے کئی لاکھ روپے کمائے۔ وزیر خزانہ کے لئے لازم ہے کہ بجٹ میں پیش کرنے سے کچھ عرصہ پہلے عملاً خانہ نشینی اختیار کرلے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے ایک بار مجھے بتایا کہ جن دنوں وہ بمبئی میں کانگریس کے پارٹی کے ممبر تھے، ان کے پاس چند ہندو اور مسلمان احباب آئے اور انہیں بمبئی کانگریس پارٹی کی صدارت کے لئے کھڑے ہونے کا مشورہ دیا۔ قائداعظم کو جب یہ معلوم ہوا کہ باقاعدہ انتخابات ہوں گے تو انہوں نے کہا جب دوسرے امیدوار موجود ہیں تو انہیں منتخب ہونے دیجئے۔ چند ہی دنوں بعد پارٹی کے تمام دھڑے قائداعظم کے پاس پہنچے اور مکمل اتفاق رائے سے انہیں اپنا صدر منتخب کرلیا۔ ایسے مناصب لوگوں کو عوام کی خدمت گزاری کاموقع مہیا کرتے ہیں اور ان کی حیثیت ایک اعزاز کی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگ ان عہدوں کے انتخابات کو غیر ضروری طور پر اہمیت دیتے ہیں۔ لائق اور اہل لوگ عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ ان کو عہدوں کی پیشکش کی جاتی ہے۔ ایک بار میں نے قائداعظم سے کہا کہ مجھے کوئی عہدہ نہیں چاہیے۔ جواب میں انہوں نے فرمایا کہ عوام کی خدمت گزاری کے لئے عہدہ طلب کرنا ایک لائق احترام خواہش ہے اور اس میں کوئی عیب کی بات نہیں۔
1946ء میں جن دنوں لیبر حکومت کا کیبنٹ مشن یہاں آیا ہوا تھا، مسٹر اے دی الیگزنڈر (جو بعد میں لارڈالیگزنڈر بنے) دہلی میں قیام پذیر تھے اور ہندوستان کو اقتدار کی منتقلی کی بابت گفت و شنید کررہے تھے۔ میں اور میری اہلیہ دہلی کی امپیریل ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک دن شام کو لارڈ الیگزنڈر نے ہمارے یہاں کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد مجھے ایک اجلاس میں پہنچنا تھا جس کی صدارت مسٹر جناح نے مجھ سے بھی تقریر کرنے کے لئے کہا۔ میں انکار نہ کرسکا۔ میں نے حاضرین سے دریافت کیا کہ آپ اُردو میں تقریر سننا پسند کریں گے یا انگریزی میں؟ مجمع سے آواز آئی ’’اردو‘‘ لیکن قائداعظم نے کہا ’’نون! بہتر ہوگا کہ آپ انگریزی میں تقریر کریں‘‘ ان کی نگاہ غیر ممالک میں ہمارے جماعتی مقاصد کی تشہیر پر تھی جہاں قائداعظم کے بعد زیادہ معروف نام میرا ہی تھا۔ دوسرے لیڈر اگرچہ اپنے ملک میں ممتاز درجہ رکھتے تھے لیکن ملک سے باہر انہیں بمشکل کوئی جانتا ہوگا۔
میری تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’اگر برطانیہ نے ہمیں آزادی دی تو وہ ہمارے بہترین دوستوں میں شمار ہوگا لیکن اگر اس نے ہمیں آزاد نہیں کیا اور یہ آزادی ہمیں ہندوؤں سے ملی تو پھر ہمارے بہترین دوست ہندو ہوں گے اور اگر دونوں میں سے کسی نے بھی ہماری مدد نہ کی اور آزادی کے حصول میں روسیوں نے ہماری مدد کی تو فطری طور پر وہی ہمارے بہترین دوست ہوں گے۔ ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ ہم پاکستان چاہتے ہیں۔ اس سے بحث نہیں کہ اس مطالبہ کے حصول میں ہمیں کس طرف سے مدد ملتی ہے۔‘‘ جب میری زبان سے لفظ ’’روسیوں‘‘ ادا ہوا تو جوش کے مارے پورا مجمع اُچھل پڑا۔ لوگوں نے فرط مسرت سے اپنی ٹوپیاں اور پگڑیاں اچھالنی شروع کردیں اور نظم و ضبط بحال ہونے میں کئی منٹ لگ گئے۔ ظاہر بات تھی کہ میرے الفاظ نے عوامی افکار کے تاروں کو چھیڑ دیا تھا۔ میرے انگریز دوست اس تقریر سے بہت خفا ہوئے لیکن مجھے ان دو باتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا کہ یا تو اپنے دوستوں کی خفگی قبول کروں یا دنیا والوں کو اپنے اس موقف کا قائل کروں کہ ہم آزاد ہونے یا دوسرے لفظوں میں پاکستان حاصل کرنے پر تل گئے ہیں۔ ہندو اکثریت کی حکمرانی کا اندیشہ ہمارے لئے اتنا بڑا خطرہ تھا کہ ہم ہندو فرقہ پرستی کے بجائے اشتراک یت کے تسلط کو ترجیح دیتے تھے۔(جاری ہے )