نواب زادہ نصر اللہ خان!
نواب زادہ نصر اللہ خان نے زندگی بھر عوام کی بات کی، ان کے جمہوری حقوق کی بحالی کی بات کی، جبکہ بحالی جمہوریت کے لئے گرانقدر خدمات سر انجام دیں کہ ایک زمانہ ان کا معترف ہے،وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، اپوزیشن کیا ہوتی ہے اور بد تہذیبی اور بد تمیزی کے بغیر اپوزیشن کیسے کرنی چاہیے اور اپویشن میں ہوتے ہوئے بھی حکومتی اراکین کو کیسے ادب سے پکارنا ہے یہ انہوں نے بتلایا۔ نواب زادہ نصر اللہ کو ہم سے بچھڑے اٹھارہ سال بیت گئے ہیں۔مرحوم نواب زادہ نصر اللہ خان 26اور 27 ستمبر 2003 کی درمیانی شب اس دار فانی سے رخصت ہوئے اور اپنے ساتھ ایک جہان سمیٹ کر لے گئے۔ ان کی یادوں کا ایک ایسا سمندر ہے بیان کرنے پر آئیں تو کتابیں لکھی جا سکتی ہیں یہ ایک کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔لیکن ان کی برسی کی مناسبت سے چند باتوں کا ضرور ذکر کروں گا تا کہ آج کل کی دشنام طرازی والی سیاست کرنے والوں کو اندازہ ہو کہ سیاست شائستگی سے کیسے کرتے ہیں۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے قیام پاکستان سے قبل ہی اپنی سیاست کا آغاز کر دیا تھا اور مجلس احرارکے پلیٹ فارم سے انگریز سرکار کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور آل انڈیا مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائض رہے۔نواب صاحب اپنے خاندان کے برعکس انگریز سرکار کی مخالفت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوئے اور انگریز دور میں بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ قیام پاکستان سے لے کر مشرف دور تک بحالی جمہوریت کی جتنی تحریکیں رہیں نواب زادہ نصر اللہ خان اس میں پیش پیش رہے۔ ایوب دور میں این ڈی اے کی تحریک ہو یا جنرل ضیا ء_ الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی جدوجہد ہو، نواب صاحب ان سب میں صف اول کے رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور آخری عمر میں مشرف کیخلاف اے آر ڈی کی تحریک کی قیادت کرنے کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے۔وہ آمرانہ حکومتوں کے خلاف جمہوریت پسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔ یہ نواب زادہ نصر اللہ خان کی شخصیت کا ہی کرشمہ تھا کہ اس دور میں بے نظیر اور نوازشریف کو اکٹھا ایک میز پر بٹھانا اور پھر انہیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔نواب زادہ نصر اللہ خان نے یہ کام بھی کیا اور ان دونوں سیاسی حریفوں کو ایک پلیٹ فارم اے آر ڈی کی تحریک میں اکٹھا کیا۔اس میں بنیادی کردار ان کی تحمل مزاجی، تہذیب اور شائستگی کا تھا جس کا دامن انہوں نے کبھی نہ چھوڑا۔ وہ اپنے سے بڑے اور چھوٹے سب کو آپ جناب کے لقب سے پکارتے تھے آج کل کی طرح اوئے کی سیاست سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ راقم الحروف خود اس بات کا گواہ ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن نکلسن روڈ پر ان کی رہائش گاہ پر ہر وقت سیاسی کارکنوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور وہ کسی بڑے قومی رہنما کو بھی وہ ہی ادب و احترام دیتے تھے اور ادنی سیاسی کارکن کی بھی اتنی ہی عزت افزائی کرتے تھے۔انہوں نے کبھی کسی کو اوئے، یا تو کہہ کر نہیں پکارا۔اپنے تقریبا ستر سالہ سیاسی کیریئر میں نواب زادہ نصر اللہ خان نے بے نظیر کے دوسرے دور میں کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ قبول کی اور وہ بھی بے نظیر کی حکومت برطرف ہونے کے بعدچھوڑ دی۔ جتنے قد آور وہ سیاست دان تھے وہ چاہتے تووزیراعظم کی کرسی بآسانی سنبھال سکتے تھے لیکن انہوں نے ساری سیاسی جدوجہد جمہوریت کی بحالی اور جمہوری کلچر کو پروان چڑھانے کیلئے کی اور کبھی خود کیلئے عہدہ نہ مانگا۔ آمروں کیخلاف سیاسی جدوجہد کی وجہ سے انہیں تکالیف بھی اٹھانا پڑیں، جیلیں بھی کاٹیں۔ مشرف دور میں اے آر ڈی کی تحریک کے دوران انہوں نے موچی دروازے میں جلسے کا اعلان کیا تو اس وقت کی ضلعی حکومت نے انہیں ضلع بدر کرنے کا آرڈر جاری کر دیا۔ راقم الحروف اس وقت نکلسن روڈ پر نواب زادہ نصر اللہ خان کے ہجرے میں ہی موجود تھا جب پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر انہیں اپنی گاڑی میں بٹھایا اور لاہور کے باہر مانگا منڈی جا کر اتار دیا۔ اس دور میں ابھی موبائل اتنا عام نہیں ہوا تھا تو نواب زادہ نصر اللہ خان نے قریبی پی سی او پر جا کر دکاندار سے کہا مجھے کال کرنے دو میرا ملازم تمہیں آ کر پیسے ادا کر دے گا۔ تو دکاندار نے کال نہ کرنے دی جس پر انہوں نے تعارف کرایا کہ میں نواب زادہ نصر اللہ خان ہوں تو اس وقت موقع پر موجود لوگوں نے کہا آپ کیسے نواب ہیں نہ کوئی ملازم، نہ جیب میں پیسے نہ گاڑی نہ گن مین تو نواب زادہ نصر اللہ خان ان کی بات پر مسکرا دیے۔ الغرض انہوں نے پی سی او سے اپنے سیکرٹری جمشید کو کال کر کے بلایا اور ان کے ساتھ وہاں سے مظفرگڑھ کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کا روز کا معمول تھا کہ وہ تمام اخبارات جو لاہور سے شائع ہوتے تھے ان کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے اور اس کے علاوہ کوشش کرتے تھے کہ چیدہ چیدہ کالم بھی ضرور پڑھیں۔ اخبارت کے علاوہ ان کی لائبریری بہت وسیع تھی اور ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب ان کے سرہانے دھری رہتی تھی۔ شاعرانہ مزاج رکھتے تھے اور شعرو شاعری بھی کرتے تھے اگر وہ سیاست دان نہ ہوتے تو اعلی پائے کے شاعروں میں ان کا شمارضرور ہوتا۔ زندگی کے آخری ایام میں بھی مشرف کیخلاف بحالی جمہوریت کی جدوجہد کے دوران دل کی تکلیف کے باعث وہ دار فانی سے کوچ کر گئے۔ علامہ ابتسام الہی ظہیر اورسیالکوٹ کی معروف شخصیت برادرعزیز عدنان سرور کے ہمراہ مرحوم کا جنازہ پڑھنے کا شرف بھی ہوا،جس میں مولانا فضل الرحمن کی امامت میں ہزاروں لوگوں نے ان کو الوداع کیا۔ دعا ہے اللہ انہیں جنت میں جگہ دے اور موجودہ سیاست دانوں کو ان جیسی سیاست اور سیاست میں شائستگی اور تہذیب وآداب اپنانے کا شرف بھی بخشے۔آمین۔