الیکشن کمیشن فیصلہ، قانونی و سیاسی اثرات کیاہوں گے؟
تجزیہ:سعید چودھری
الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کیس کا فیصلہ جاری کردیاہے جس میں کہا گیاہے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ اور فارن فنڈ لئے،کمشن نے یہ بھی قراردیاکہ عمران خان نے پارٹی فنڈنگ کے حوالے سے جوفارم ون جمع کرایا وہ غلط بیانی اور جھوٹ پر مبنی ہے،الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا ہے کہ کیوں نہ یہ فنڈز بحق سرکار ضبط کرلئے جائیں،کمشن نے اپنے دفتر کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ قانون کے مطابق باقی کارروائی بھی شروع کرے، الیکشن کمشن نے اپنے فیصلہ کی نقل وفاقی حکومت کو بھی بھجوائی ہے،اس فیصلے کی روشنی میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا غلط بیانی پر عمران خان آئین کے آرٹیکل62(1)ایف کے تحت تاحیات نااہل ہوجائیں گے؟کیا پارٹی کالعدم ہوجائے گی اور اس سلسلے میں کارروائی کااختیارکس کے پاس ہے؟کمشن کے فیصلے میں کہا گیاہے کہ پی ٹی آئی فنڈنگ کیس میں 13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے،امریکا، آسٹریلیا اور یو اے ای سے عطیات لئے گئے،پی ٹی آئی ان اکاؤنٹس کے بارے میں بتانے میں ناکام رہی، آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیر قانونی ہے، پی ٹی آئی نے 34 غیر ملکیوں، 351 کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے فنڈز لئے،پی ٹی آئی نے عارف نقوی کی کمپنی ووٹن کرکٹ سے ممنوعہ فنڈنگ لی،عارف نقوی کی کمپنی سے 21 لاکھ 21 ہزار 500 امریکی ڈالرز ممنوعہ فنڈنگ لی گئی،یو اے ای کی کمپنی برسٹل انجنیئرنگ سروسز سے 49 ہزار 965 ڈالرز ممنوعہ فنڈنگ لی،سیا سی جماعتوں کے ایکٹ کے آرٹیکل 6 کے تحت یہ ممنوعہ فنڈنگ ہے،الیکشن کمشن نے قراردیاہے کہ عمران خان نے جھوٹا فارم ون جمع کروایا،پولیٹیکل پارٹیز آرڈر مجریہ2002ء کے تحت ہر سیاسی جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر سال اپنے پارٹی فنڈز،آمدنی اور اخراجات کی بابت چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم کی رپورٹ الیکشن کمشن میں داخل کرے گی اور اس رپورٹ کی درستی کے بارے میں پارٹی کے سربراہ سرٹیفکیٹ جمع کرائیں گے،یہ سرٹیفکیٹ فارم ون پر جمع کروایاجاتاہے اور یہ بیان حلفی کی بنیاد پر نہیں ہوتا، دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ حنیف عباسی بنام عمران نیازی کیس میں قراردے چکی ہے کہ الیکشن کمشن عدالت یا ٹربیونل نہیں ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل62(1)ایف کے تحت وہ شخص تاحیات نااہل ہوتا ہے جسے کسی عدالت نے جھوٹا قراردیاہوتاہم اس کیس میں سپریم کورٹ نے قراردیا تھا کہ الیکشن کمشن کو آئین کے آرٹیکل 17(3)کے تحت پارٹی فنڈز کی تحقیقات کا اختیارحاصل ہے،سردست عمران خان پر 62(1)ایف کااطلاق نہیں ہوتاتاہم مستقبل میں کمشن کے اس فیصلے کی بنیاد پر اگر کوئی شخص یا جماعت عمران خان کی اہلیت کو چیلنج کردیتی ہے تو عمران خان کے لئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں،اسی طرح پولیٹیکل پارٹی آرڈرمجریہ2002ء کے باب سوم میں کہا گیاہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کا بیرونی مدد لیناثابت ہوجائے تو اسے تحلیل کرنے کی کارروائی کی جاسکتی ہے تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت آئین کے آرٹیکل17(2)کے تحت ریفرنس تیارکرکے سپریم کورٹ کو بھیجے اور پھر اس بابت سپریم کورٹ جو فیصلہ کرتی ہے وہ آئین کے تحت حتمی ہوتاہے،الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی کو آئین کے آرٹیکل17(3)سے انحراف کا مرتکب قراردیاہے جبکہ عمران خان کے سرٹیفکیٹس کو بھی جھوٹ ٹھہرایاہے،یہ سرٹیفکیٹس انہوں نے 2008-09ء سے 2012-13ء تک جاری کئے اور5سال تک الیکشن کمشن سے جھوٹ بولا،آئین کے آرٹیکل17(2)کے تحت کسی جماعت پر اسی وقت پابندی کا ریفرنس بھجوایا جاسکتاہے جب یہ ثابت ہوجائے کہ وہ جماعت ملک کی حاکمیت اعلیٰ اور سالمیت کے خلاف کام کررہی ہے،فوری طور پر پی ٹی آئی اور عمران خان کو قانونی طور پر بڑا خطرہ درپیش نہیں ہے تاہم مستقبل میں اس فیصلے کے نتائج عمران خان کی نااہلی اور پی ٹی آئی کے تحلیل کی شکل میں نکل سکتے ہیں،مخالف جماعتی اس فیصلے کا بھرپور سیاسی استعمال کرسکتی ہیں اور عمران خان کے صادق اورامین ہونے کے بیانیے کو بری طرح نقصان پہنچا سکتی ہیں،بہرحال یہ فیصلہ مستقبل میں پی ٹی آئی اور عمران خان دونوں کی سیاست کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتاہے۔
تجزیہ:سعید چودھری