جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ بارہویں قسط
شاہدنذیرچودھری
مر گیا ہوتا تو پھر میں زندہ بھی نہ ہوتا لیکن آنکھ کُھلی تو لطیف سی دودھیا چادر کے مائعات میں تیرتا ہوا میں ہچکولے کھاتا ہوا لڑھکتا پھر رہا تھا۔
میرے انگ میں سرور اور کیف کی عجیب سی انمول سرشاری تھی۔ اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ میں دودھ میں تیر رہا ہوں اور پھر دودھ کسی ایک جانب سرکتا ہوا باہر نکلا۔ میں نے اپنے اردگرد بہت زیادہ بھنبنھاہٹ محسوس کی لیکن کچھ سمجھ نہیں آیاکہ کون اس طرح سے بھنک رہا ہے۔ اس بھنبھناہٹ میں تال تھی،سوز تھا ۔ میں نے بہت سوچا کہ یہ تال میں نے کہیں سنی ہے لیکن اس لمحے میں کچھ سمجھ نہیں آئی۔ کچھ دیر بعد یہ تال بھی مجھ سے دور ہوتی چلی گئی اور میں جیسے اس دودھیا نہر میں اکیلا رہ گیا۔پھر دودھ سارا کہیں بہہ گیا اور میں اس نہر کے ایک کونے میں یوں چپک کر بیٹھ گیا جیسے مجھے کسی کا انتظار ہو۔
مجھے یہ کامل احساس ہو چکا تھا میرے ساتھ جو ہو رہا ہے اس پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں کچھ بھی کرنے سے معذور تھا۔ خود چلنا چاہتا تو لڑھک جاتا لیکن مجھے احساس ہو رہا تھا کہ دودھ کی اس خالی نہر میں ایک کونے میں چپکا ہونے کے باوجود میری سماعتوں سے بہت سی آوازیں ٹکرارہی ہیں لیکن آنکھیں کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہیں تھیں۔آوازیں بھی گڈمڈ تھیں ،کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کون کیا بول رہا ہے۔
میں سوچ و بچار میں حیرت کے ہچکولے لے رہا تھا۔ پھر میں بری طرح لڑھکھڑیا اور قلابازیاں کھانے لگا۔اس دوران مجھے اپنے گرد حدت سی محسوس ہونے لگی جیسے کوئی چپکے سے دھیرے سے میرے قریب آرہا ہواور مجھے اپنی جانب کھینچ رہا ہو۔ میں نے بہت چاہا کہ اس کی کشش سے دور ہو جاﺅں مگر وہ جو بھی تھا اس کی گرمی جذبات نے مجھے اپنے ساتھ بھنچ لیا اور میں اس میں اور وہ میرے اندر جذب ہوگیا۔
یہ لطافت کے نہایت حسین لمحات تھا۔ جس میں سرور اور کیف کا خمر ملا ہوا تھا۔ ملاپ کے اس حسین مرحلے میں میرے وجود میں جیسے کاملانہ انگڑائی پیدا ہوئی اور پورا بدن جھنجھلا کر کھلتا ہوا محسوس ہوا۔ ایسے لگا جیسے میں پاتال سے اٹھ کر بسیط فضاﺅں میں تیر رہا ہوں۔ پہلے میری سماعت مکمل ہونے لگی اور بعد میں بصارت بھی کھلنے لگی ۔ مجھے بہت کچھ دکھائی اور سنائی دینے لگا۔ میں ایک تاریک غار میں تھا۔ جس کے درمیان سیال سا تیر رہا تھا اور میں اس میں یوں گیان لئے بیٹھا تھا جیسے وشال دیو نے حجلہ عروسی میں خوشی کو منانے کے بعد لیا تھا۔
گیان گیانی کو ملتا ہے۔ میں تو گیانی نہیں تھا پر مجھے لگ رہا تھا میرے بدن سے پھوٹنے والی حدت نے ذہن کے تاروپود میں حیات سوز روح پھونک دی ہو.... میں نے دیکھا میں آنکھیں جھپک رہا ہوں اور میری آنکھیں جب وا ہوئیں تو سامنے ایک خوبرو جوان آنکھیں بند کئے میرے پاس سو رہا تھا۔ میں ہڑبڑا گیا یہ کون ہے؟
میں نے اردگرد دیکھاتو مجھے سارے مناظر مانوس لگنے لگے۔ یہ وہی حجلہ عروسی تھی جہاں خوشی تشنہ خوشیوں کی تکمیل اورمہاویر کے خوابوں کو سچ کرنے کے جذبہ سے لبریز ہو کر لیٹی تھی۔
گیارہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
”یہ تو وشال دیو ہے۔“ میں نے اس رعنا نوجوان کو دیکھا جس کے وجود میں قید ہو کر میں بہت تڑپا تھا۔ مجھے حیرت کا شدید دھچکا لگا۔ وہ میں ہی تھا لیکن کئی صدیوں پہلے جنم لینے والے اس وجود کے نقوش مجھ سے مماثلت رکھنے کے باوجود کشادہ اور کھلے کھلے تھے۔ چوڑا چکلہ سینہ، فراخ پیشانی اور قلمی ناک، دبیز ہونٹ ور باریک مونچھیں اس کی مردانہ وجاہت کا عکس تھیں۔
اس لمحے مجھے محسوس ہوا ایک ریشمی ہاتھ وشال دیو کے سینے پر اپنی پوروں سے گدگدی کر رہا ہے۔ میں نے گیان سے نظریں گھمائیں تو اس ہاتھ کا سرا پہ مجھے خوشی تک لے گیا اور مجھے یہ جاننے میں زیادہ وقت نہیں لگا کہ یہ میں ہی ہوں مگر اب خوشی کے وجود میں....” کک کیا ہو رہا ہے یہ۔ میں کہاں آگیا ہوں۔ میرے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے ....“
خوشی ہلکے ہلکے انداز میں وشال دیو کے چہرے پر پھونکیں مارنے لگی تو وشال دیو نے اپنی سر مے سے بھری نیلی آنکھیں کھول دیں۔ یہ آنکھیں دیکھتے ہی میں چونکا۔
مجھے لگا ایسی آنکھیں میں نے کہاں دیکھی ہیں ....اوہ....پھر یاد آیا۔ میرے پڑدادا کے والد کی آنکھیں ایسی مخمور نیلگوں اور سرمگوں تھیں۔ ان کے بارے میں بہت سنا تھا کہ وہ جس کو نظر بھر کر دیکھتے وہ مسمریز ہو کر رہ جاتا۔
وشال دیو نے آنکھیں کھولتے ہی خوشی کودیکھا تو اس نے جھینپ کر اس کے سینے میں منہ چھپا لیا اور گرم گرم سانوں سے وشال دیو کو سینکنے لگی۔ وشال نے وفور جذبات سے اسے سینے میں بھینچ لیا اور بولا ”خوشی....میری خوشی“ دونوں کو فرط محبت سے یوں لیٹے دیکھ کر مجھے بے قرار کردینے والی خوشی ہوئی اور میرا گیان ٹوٹ گیا۔ میں ہنوز اس سیال میں تیر رہا تھا۔ اورہر طرح کی فکر سے آزاد تھا۔ میری نگاہیں بسیط آسمان تک سب کچھ دیکھ رہی تھیں ۔پاتال کی جانب نگاہ اٹھاتا تو کچھ دکھائی نہ دیتا۔ میں آسمانوں کا باشندہ تھا۔ معاً میرے کانوں میں کھٹکے کی آواز آئی ۔کسی نے زور سے دروازہ پیٹا تھا۔میں نے خوشی کی آنکھوں سے دیکھا ۔وشال اٹھااور اپنا لباس زیب تن کرکے دروازہ کھولنے گیا تھا۔دوسری جانب مندرکا سیوک گھبرایاہوا کھڑاتھا ۔وشال دیو کو دیکھتے ہی اس نے ہاتھ باندھ دئے ” مہاراج کہتے ہیں خوشی کو لیکر پائیں باغیچہ سے نکل جائیں ۔مندر پر ہندوبلواﺅیں نے حملہ کردیا ہے“
”حملہ کیوں کیا ہے“ ؟ وشال دیو نے پوچھا” ہم سے کسی کو کیا دشمنی ہوسکتی ہے “
سیوک نے جلدی سے کہا” بنتی کرتا ہوںیہ سمے پوچھ تاچھ کا نہیں ۔آپ چلے جائیں “
” نہیں ۔یہ نہیں ہوسکتا ۔میں مہاویروں کواکیلا چھوڑ کر نہیں جاسکتا “ وشال نے اسے کہااور پلٹ کر خوشی کی جانب دیکھا جو چادر میں اپنا وجود سنبھال رہی تھی۔ وہ قریب آیااوراسکی آواز گونجی۔ ”خوشی ہمارا ملاپ ہوگیا اور مہادیو کی اچِھا سے ہمارا سپوت اس دنیا میں آئے گا۔“ اس نے خوشی کے ماتھے پر بوسہ دیااور اسکے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے گویاہوا ” اسکی حفاظت کرنا ۔اگر جیون رہا تو پھر ملاقات ہوگی ورنہ اگلے جیون میں تو ملنا ہی ہوگا“
خوشی نے تڑپ کر وشال کا بازو تھام لیااور سسکی” وشال ....یہ کیسا قہر ہے ۔تم نہ جاو¿“
وشال نے اسے ساتھ لپٹالیا”خوشی ہمارے ملاپ کا اتنا ہی سمے تھا۔اب میں چلتا ہوں لیکن مجھے وچن دو کہ تم میری اس نشانی کو جو تمہارے وجود میں پلے گی اسکی حفاظت کروگی“
وشال کی بات سن کر نہ جانے اس وقت میں من ہی من میں کیوں اچھلا تھا۔میرا دل چاہا میں اس کنویں کی دیواروں سے نکل کر وشال کے سامنے جا کھڑا ہوں اور اس سے کہوں ” تمہیں خوشی کو اس طرح ادھورا چھوڑا کر نہیں جانا چاہئے اور یہ جو مجھے کبھی اپنے وجود میں اور کبھی خوشی کے وجود میں دھکیلا رہے ہو اسکا تو عقدہ کھولتے جاو¿“
لیکن وہ چلا گیا۔اس نے دروازے پر کھڑے سیوک کو اندر بھیجا اور کہا ” خوشی اب تمہاری حفاظت میں ہے۔تم اسکو محفوظ جگہ پر لے جاو¿۔“
سیوک اندر آیا تو اس دوران خوشی اپنا لباس درست کرچکی تھی۔وہ سیوک کی رہنمائی میں کمرے سے نکلی تو باہر خوب شور اور چیخیں اٹھ رہی تھیں۔مندر کی جناب سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے۔خونی تلواروں کی جھنکار صاف سنائی دے رہی تھی۔میں خوشی میں تھااور خوشی غم و کرب میں سیوک کے ساتھ باغیچہ میں پہنچی تو سارے پرندے اور ہرن اسے دیکھ کر اسکے قریب آگئے۔سفید کبوتروں کا جوڑا اسکے کاندھے پر آبیٹھا۔پرندوں پر سرشاری طاری ہوگئی لیکن خوشی کے چہرے پر تکلیف دیکھ کر وہ اپنی چہلیں کرنا بھول گئے اور اپنے پروں کو پھیلا کر مندر سے اٹھنے ولاے شعلوں کو دیکھنے لگے۔اس لمحہ ایک عجیب سی مخلوق آبشار کے کنارے آبیٹھی ۔اس کی گود میں کسی کا خون میں تر دل دھڑک رہا تھااور ہاتھوں میں بانسری لئے وہ اسے بجانے لگی۔
پھر تو قیامت ٹوٹ گئی۔پرندوں نے یکایک شور مچادیا ۔لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے غصہ کا اظہار کررہے ہوں۔اس دوران وہی نانگاسادھو ملنگ اس جانب آنکلا جو مجھے رکشہ کے سامنے ملاتھا۔ اس نے خوشی کو دیکھا تو اس کا ہاتھ پکڑکر باغیچے کی جھاڑیوں کی طرف لے گیا” چل ،چل “ وہ اسے دھکیلتا ہوا جھاڑیوں میں سے کھینچتا ہوا دیوار کے پاس پہنچااور دیوار پر ہاتھ مارا تو وہ شق ہوگئی۔اس میں سے گزراتو باہر کھیت میں راستہ دکھائی دیا۔نانگاسادھوہانپتا ہوا سے آگے ہی آگے لئے چلتا رہا اور پھر پیچھے پلٹ کر دیکھا تو مندر کہیں دور رہ گیا تھا ۔میں اس کی تیزی رفتاری پر حیران تھا ۔ایک جگہ پہنچ کر نانگا سادھو رکا اور بائیں جانب دیکھا تو چند گزدور ایک درگاہ دکھائی دی ۔میں نے غور کیا سادھو ذرا سا ہچکچایا ہے۔اس نے ایک بار پھر پلٹ کر دیکھا ،اسے بہت سی مشعلیں اپنی جانب بڑھتی ہوئی دکھائی دیں ۔اس نے خوشی کی نظروں میں دیکھا اور کہا” ادھر چلی جاو¿۔امان ملے گی“
یہ کہتے ہی اس نے خوشی کا ہاتھ چھوڑااور یکایک غائب ہوگیا۔مشعلیں بہت قریب آچکی تھیں ۔خوشی کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اگر مشعلوں والے بلوائی ہوئے تو ان سے بچنا مشکل ہوگا۔اس نے فوری طور پر درگاہ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا اور ابھی قدم اٹھایا ہی تھا کہ ایک جلتی ہوئی مشعل اسکے قدموں میں آگری۔خوشی ڈر کر پیچھے ہٹی مگر اسے بھاگنے کا موقع نہ ملا اور مشعل برداروں نے اس کے گرد گھیرا ڈال لیا۔وہ بلوائی ہی تھے۔” تو بھاگ کا کہاں جائے گی ۔تیرے وشال کو تو مکتی مل گئی ہے اب تجھے بھی تیرے شریر سے آزاد کرتے ہیں “
ان میں سے ایک بلوائی آگے بڑھا۔اس کے ہاتھ میں کھانڈا تھا۔اس نے کھانڈے والا ہاتھ لہرایا تو اچانک فضا شیر کی دھاڑ سے گھونج اٹھی۔کھانڈے والے کا ہاتھ فضا میں ہی معلق و جامد ہوکر رہ گیا۔خوشی نے مارے ڈر کے آواز کی جانب دیکھا تو تاحد نظر آسمان سے گہری نیلی اور سرخ دھند نے پورے آسمان لپیٹ رکھا تھا اور ایک دھاڑتا ہوا شیر اس میں سے نمودار ہوا۔
( جاری ہے،تیرہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں).
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔