جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ تیرہویں قسط

جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ تیرہویں قسط
جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ تیرہویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شاہدنذیرچودھری

شیر کی آنکھوں سے شعلے سے پھوٹ رہے تھے۔بلوائی اسے دیکھتے ہی الٹے قدموں پیچھے کو پلٹے،کسی کا بالا گر گیا اور کسی کا کھانڈا۔تیر کمانوں پرچڑھانے والوں کے ہاتھوں میں کمانیں کھچی رہ گئیں اور چہروں سے خوف لپٹ گیا۔

شیر غرایا تو خوشی کا دل بھی زور سے دھڑکا اور پورے بدن میں سنسناہٹ سی تیر گئی۔میں نے بھی خود کو سکڑتے اور لرزتے ہوئے پایا۔”گھبراﺅ نہیں میری بیٹی۔یہ مورکھ تیرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے“خوشی جو شیر کو اپنے بہت قریب آتے دیکھ کر لرز رہی تھی اسے بولتا دیکھ کر چونک اٹھی اور سنبھلی لیکن اسکا نازک بدن شاخ بید کی طرح لہراتا رہا۔جانوروں اور پرندوں سے بے تحاشا پیار کرنے والی خوشی کو کبھی بھی ان سے ڈر نہیں لگا تھا لیکن آج سمے مختلف تھا۔اسکی ڈھا رس بندھی اور اس نے ایک نظر بلوائیوں کی طرف دیکھا تو شیر زور سے غرایا پھر اسکی آواز ان تک بھی پہنچ گئی۔

بارہویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
”مورکھو....حیاتی چاہتے ہو تو انہیقدموں پر لوٹ جاﺅ۔ورنہ تمہارے ماس اور ہڈیوں کو بھونے بغیر کھا جاﺅں گا“۔بلوائی پہلے تو بھاگنے پر تُلے لیکن پھر وہ اپنے ہتھیار پھینک کر سجدے میں گرگئے اور لگے دہائیاں دینے لگے۔
”اے دیوتاﺅں کے دیوتا شماکردو۔ہم سے غلطی ہو گئی“
شیر چنگھاڑتے ہوئے ان کی طرف ”کم بختو یہ کیا کرتے ہو۔اٹھو اور سیدھے ہو جاﺅ مجھے دیوتا کہہ کر گناہ گارنہ کرو،اٹھو،جلدی کرو....“
وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھے۔
”تم نے میری سرکارکے مہمانوں کو تنگ کیا ہے ان کی راہ میں آگ برسائی ہے ۔ اب مجھے گناہ گار کرتے ہو۔مجھے سجدہ کرنے کی بجائے اس خدا ئے واحد لاشریک کو سجدہ کرو جس نے اپنے بندوں کو اشرف بنایا اور انہیں علم کی فضیلتوں سے نوازا“۔شیر کی چنگھاڑتی آواز سن کر وہ دم بخود تھے۔ان کا مذہب انہی حیرت المعقول عقائید پر کھڑا تھا ۔وہ سمجھتے تھے جو انسان اور جانور ماورائی طاقت رکھتا ہے وہ بھگوان کا پرتو ہوتا ہے۔شیر کی آمد اور اسکے انسانوں کی طرح بولنے سے انہیں یقین ہوچلا تھا کہ بھگوان خود ان کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے۔
چند لمحے ہی گزرے ہوں گے۔شیر کے گرد نور کا ہالہ سا بڑھنے لگا اور پھراس میں سے اونچا لانبا سیاہ داڑھی والا نوجوان ظاہر ہو گیا۔
”میں قبلہ وآقا حضرت میراں محمد شاہ موج دریا بخاری کا غلام اور خادم ہوں۔میرے آقا اس نگری کے تاجدار روحانیت ہیں اور آپ کی اجازت سے یہاں کا پتہ بھی نہیں ہلتا۔اللہ ربّ العزت اپنے اولیاءکو اپنافضل دیتا ہے تو انہیں لازوال قوتیں بھی عطا فرماتا ہے۔لیکن تم لوگوں کی عقل میں یہ بات نہیں آئے گی۔تم ہمیں بھگوان سمجھ بیٹھتے ہو حالانکہ ہم بھی انسان ہیں ۔پس تم نے دیکھ لیا کہ میں بھی ایک عام انسان ہوں۔اب تم جاﺅ اور سرکار کے مہمانوں کو تنگ نہ کرنا....اورسنو....“
اور پھر اچانک میری سماعت اور بصارت بند ہو گئی۔البتہ مجھے یہ محسوس ہو گیا تھا کہ خوشی پہلے لڑکھڑائی اور پھر نیچے گر گئی تھی۔غالباً اسے چکر آیا تھا اور بے ہوش ہو گئی تھی۔نرم ونازک اور ریشم و محبت سے گوندھی خوشی کو زندگی میں پہلی بار جنگ اور آگ کا دریا عبور کرنا پڑا تھا۔اس کے نازنین پیر پھٹ گئے اور جھاڑیوں سے گزرنے کے باعث بدن کا ریشم جگہ جگہ سے لہو لہو ہو گیا تھا۔وہ بے ہوش نہ ہوتی تو لازماً میں یہ بھی دیکھ لیتا کہ انسانی روپ اختیار کرنے والا شیر کون تھا اور وہ بلوائیوں سے مزید کیا کہنے والا تھا۔البتہ یہ راز بھی بہت جلد کھل گیا لیکن سارے مناظر اور ہیئتیں بدلنے کے بعد....
میری آنکھ گاڑیوں کے ہارن سے کھلی اور سماعت سے رکشوں کا شور ٹکرایا۔
”صاحب جی دربار آگیا ہے“
میں ہڑبڑا گیا۔کئی ثانیے یوں ہی گزر گئے،ذہن پر کُہرا چڑھا ہوا تھا۔لطیف فضاﺅں کے ہچکولے لیتا سوچ رہا تھا یہ گاڑیاں کہاں سے آگئیں۔شیر کہاں گیا اور خوشی۔خوشی کہاں ہے؟ میں تو اسکی کوکھ میں ایک نطفہ کی صورت میں گیان اورحیات لازوال سے گزر رہا تھا۔اس دنیا میں پھر کیسے آگیا۔ میں کسمایا اور لمبی سی سانس لیکر رکشہ ڈرائیور کو دیکھا۔
”صاحب جی سو گئے تھے آپ ۔میں تو کافی دیر سے آپ کو اٹھا رہاہوں۔آپ جواب ہی نہیں دے رہے تھے۔لگتا ہے آپ کئی راتوں سے سوئے نہیں“۔
میں نے رکشہ سے اتر کر اسے کرایہ ادا کیا اور سر ہلایا۔
”ہاں یار....میں سو گیا تھا“ اس نے مجھے دربار کے سامنے گھنے درخت کے پاس لااتارا ۔دربار انور سبز قمقموں کی روشنی میں نہا رہا تھا۔اگر بتیوں کی خوشبو نمدار فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔کہیں آس پاس ہی کوئی افیون کے مرغولے بھی رہا تھااور افیون کی تلخ خوشبو سے ذہن کو چستی ملنے لگی۔
”تو کیا وہ سب خواب تھا۔ واہ یار اب تم جاگتے ہوئے خواب بھی دیکھنے لگے“ میں نے خود پر ہنستے ہوئے کہالیکن من کے اندر کوئی اور قہقہے لگا کر میرا تمسخر اڑاتا ہوا محسوس ہوا”ہونہہ خواب تھا۔یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم نے اپنے ماضی کے جنم کو دیکھ لیا ہے“
”لاحول ولا قوة“۔میں نے سختی سے من میں کلبلاتے نفس کے کیڑے کو ایمان کی قوت سے لتاڑا”میں مسلمان ہوں اورمسلمان جنم ونم کی خرافات تسلیم نہیں کرتا“
”ہو نہہ،بڑا آیا مسلمان“اس نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا اور میں انہی سوچوں میں غلطاں مزار شریف میں چلا گیا اور حضرت میراں ؒ کے قدموں کو بوسہ دیکر آپ کے قلب کی سمت میں عقیدت و احترام سے بیٹھ گیا۔ مجھے آپ سے روحانی شفقت پانے کے واسطے آپ کے نورانی قلب پر توجہ دے کر وظیفہ پڑھنا تھا۔ہدیہ درود پاکﷺ اکیالیس بار پڑھنے کے بعد اکیالیس بار الحمد شریف اور پھر گیارہ ہزار بار یا حیی یاقیوم کی تسبیح مکمل کرنی تھی۔اسکے بعد نوافل ادا کرکے دعا مانگنی تھی کہ رب الکریم میری اس عبادت و ریاضت کو اپنی بارگاہ میں مقبول کرکے میری حاجت روائی فرمائے۔

( جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں).

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

جناتی -