جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔چودہویں قسط
میں نے آدابِ وظائف کے مطابق اسباق مکمل کئے اور کافی دیر تک کا ملانہ یکسوئی سے متوجہ رہا۔ اہل ذوق بخوبی جانتے ہیں کہ اسباق اوروظائف کے دوران اور خاص طور پر جب کسی بزرگ محترم کی توجہ درکار ہو تو ذہن و قلب میں طہارت پاکیزگی اور یکسوئی ہونی چاہئے۔ انتشار کی کیفیات اور شیطانی وساوس میں کوئی تمیز نہیں رہتی، اس دوران جو مکاشفات اور زیارات ہونے کا امکان ہوتا ہے وہ گڈ مڈ ہو جاتی ہیں۔ انسان کو برسوں کی ریاضت کے بعد یہ کیمیا گری ہاتھ لگتی ہے لہٰذا ورد و وظائف کی پڑھائی میں کوئی خلل یا شور سے اجتناب کرتا اور ایسے مقامات پر جاتا ہے جہاں خاموشی ہو،دور تک کوئی آواز سنائی نہ دیتی ہو، گھڑی کی ٹک ٹک بھی اس کی سماعت سے نہ ٹکراتی ہو، ان لمحات میں حجابات کھلنے ہوتے ہیں اس لیے ایک سالک اور عاشق کو تنہائی اور خاموشی کا اہتمام کرنا پڑتا ہے بصورت دیگر ذہنی انتشار کے باعث وہ روحانی ہلاکت سے دوچار ہو سکتا ہے۔
میرے اسابق دو گھنٹے تک مکمل ہوگئے اور الحمد اللہ مجھے پوری انہماک سے ذکر اور دعا کا بھی موقع مل گیا تھا،اس دوران اور بھی عشاق موج دریاؒ سلام و نیاز اور پڑھائی کے لیے آرہے تھے لیکن ادب سے آشنا یہ لوگ دوسروں کے لیے آہ زاری پیدا نہیں کر رہے تھے۔
دو گھنٹے گزر گئے، میں پورے تن من سے خود کو ایسے ماحول میں لے جا کر لطیف احساس میں ڈھال چکا تھاکہ اس کے بعد مجھے تن من کی کوئی ہوش تھی نہ نبض چلنے کا احساس ،نہ سینے میں سانس کے زیروبم محسوس ہو رہے تھے،ایسا لگ رہا تھا کہ میرا وجود ریشم کی طرح نرم اور لطیف ہو چکا ہے،کہیں دبیز بادلوں اور خنک ہواؤں میں تیرتا رہاتھا۔ میرے دل اور دماغ پر سرشاری اور ہلکا پن طاری تھا، یہ روحانی کیفیات اس وقت نصیب ہوتی ہیں جب ذکر اوروظیفہ مقبول ہو چکا ہوتا ہے اور ذاکر و سالک پر انوارات چھلک رہے ہوتے ہیں، خیر ان ساعتوں کو نوک قلم سے بیان کرنا مشکل ہوتا ہے یہ ایسا احساس ہے جو زبان اور الفاظ کا محتاج نہیں ہوتا۔
جناتی کی گذشتہ قسط پڑھنے کے لئے اس لنک کو کلک کریں
ان سعید لمحات میں میرے اندر سے ہر طرح کے وساوس ختم ہو چکے تھے اور میں اس روحانی ماحول کی لطافتوں سے لطف لے رہا تھا جب ایک دراز قامت نورانی بزرگ تشریف لائے اور فرمایا ’’میرے بچے زیادہ انتظار تونہیں کرنا پڑا۔‘‘
میں نے نفی میں سر ہلایا اور ان کا ہاتھ تھام کر اسے بوسہ دیا اور پھر اپنی آنکھیں ان کے دست مبارک پر دھیرے سے پھیریں تو انہوں نے میرے پشت پر تین بار ہاتھ پھیرا اور فرمایا ’’میرے بچے تو ایسی بات کی تمنا کیوں کرتا ہے جو پوری ہو بھی جائے تو اس کے حاصل ہونے سے دل کو قرار واقعی نہیں ملتا ۔ اُس لازوال طاقت کی تمنا کیوں نہیں کرتے جو ہر وقت تجھے اپنی فضل سے عطا کرنا چاہتی ہے۔ بے شک اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہوتا ہے اور وہ اپنے بندوں سے کبھی مایوس نہیں ہوتا، بس یہ بندہ ہے جو اپنے ربّ سے مایوس ہو جاتا ہے اور ناشکرا بن جاتا ہے۔‘‘
وہ نہایت نرمی اور شفقت آمیز انداز میں مجھے سمجھا رہے تھے اور مجھے لگا میرے دل میں گرمئی جذبات امڈ رہی ہے اور آنکھیں گرم گرم پانی چھلکنے کو بے تاب ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ہم انسان روحانی طاقتوں کے لیے بہت کمزور سہاروں کا سہارا لینے کی تمنا کرتے ہیں اور قادر مطلق کی بارگاہ سے مانگتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔
’’ میرے بچے ‘‘انہوں نے میرے سر پر دست شفقت پھیرا ’’ مجھے آقا نے حکم دیا ہے کہ تمہاری دل جوئی کروں اور تمہیں یہ بشارت سنا دوں کہ تمہارے لئے اس تمنا کے اندازے سے زیادہ ملے گا، بس روحانی شرک سے خود کو باز رکھ اور شیطان کی طلسماتی فریب کاریوں اور ان کی پھیلائی ہوئی ’’روحانیت‘‘ سے اپنا دامن بچا کر رکھ۔ اللہ ہی کار ساز ہے اور آج سے تم جو بھی ذکر کرو اور جو بھی وظیفہ پڑھو اسے بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرو اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد سبحان اللہ الحی القیوم ،گیارہ سو بار تسبیح کیا کرو، میرے پروردگار نے چاہا تو تمہاری جائز منشا پوری ہوگی اور ہاں اب جبکہ میں واپس جا رہا ہوں ، مجھے نماز ادا کرنی ہے، یہ بات تمہیں پھر سے یاد کرائے دیتا ہوں کہ نماز پنجگانہ لازمی اداکیا کرنا۔ظاہر و باطن کی پاکیزگی برقرار رکھو گے تو یہ وظیفہ تمہاری روحانی طاقت بن جائے گا،تم پر حجابات اٹھیں گے اور سوالوں کے جواب مل جایا کریں گے،نماز ادا نہ کرنے والے کے معاملات دوسرے ہوتے ہیں میرے بچے ۔اسی واسطے جو لوگ وظائف تو پورے کرلیتے ہیں لیکن بے نمازی اور گندے رہتے ہیں انکی دعاؤں اور روحانیت میں برکت نہیں ہوتی‘‘۔
وہ نورانی پیکر بزرگ چلے گئے اور میں کئی ثانئیے تک دم بخود انکے بدن سے آنے والی لازوال عودکی مہک محسوس کرتا رہا،جب ذرا ہوش آیا تو محسوس ہوا کہ مجھے ان سے جو پوچھنا تھا وہ پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکا ۔مجھے تو کہا گیا تھا کہ اس وظیفے کی بدولت مجھے بابا جی مل جائیں گے لیکن یہ بزرگ تو بابا جی نہیں تھے۔انکی آمد کا نورانی بانکپن باباجی سے ہزاروں گنا مختلف تھا۔یہ نور کا وجود تھے اور بابا جی آتشی وجود کی مخلوق۔۔۔خیر۔۔۔
میں نے سوچا کہ اس میں اللہ کی حکمت اور رضا ہوگی کہ میں بابا جی سے نہ ملوں اور انکی طلب کروں ،کیونکہ اس بزرگ ہستی نے مجھے واضح اشارے دے دئیے تھے کہ میری سوچوں کا محور اور طالب و مقصود کیا ہونا چاہئے۔اس سے پہلے بھی مجھے کئی بزرگ ایسی ہدایات دے چکے تھے لیکن چونکہ ایک دنیا دار انسان ہونے کے ناطے میں جذبات کی رو میں بہک جاتا اور لوگوں کی آہ زاریاں اور تکلیفیں مجھے انکی مدد پر اکساتی تھیں لہذا میں روحانیت میں شارٹ کٹ مارنے کی کوشش کرنے لگتا۔روحانیت میں شارٹ کٹ ہوتا ہی نہیں دوستو۔۔۔ اور یہ واضح ہوچکا تھا ،مجھے اللہ کے سوا بندوں اور جنات کو حاجت روائی کے لئے وسیلہ بنانے کا سوچنا بھی نہیں چاہئے تھا اور اس بات کا احساس کرنا چاہئے تھا کہ جب اللہ کسی وسیلے کے بغیر مل سکتا ہے تو کیوں اُن بندوں سے اسکا پتہ پوچھتا پھروں جو خود اندر سے خالی یا کاملیت سے محروم ہیں ۔
اس روز میں نے اپنے آپ کو بہت ملامت کی اور اپنے اندر لاغر کرنے والی بہکی سوچوں کو کھرچ نکالنے کی بہت کوشش کی۔میں کافی دیر تک نفی اثبات کیا،اس میں مجھے کافی حد تک کامیابی ملی اور سچی بات یہ ہے کہ اسکی وجہ بھی وہ نورانی بزرگ بنے تھے ،ان کی شخصیت کا مجھ پر کئی روز تک سحر رہا ۔میں بہر حال یہ نہیں جان سکا تھا کہ وہ بزرگ کون تھے لیکن وہ بھی کسی کے خادم تھے مگر کس کے ؟ حضرت باباجی سید موج دریاؒ کے؟۔۔۔اس کا جواب مجھے مل سکتا تھا بلکہ میرے ہر سوال کا جواب مل سکتا تھا جو من میں جواربھاٹا پیدا کرتا تھا ،اگر میں انکی ہدایت پر انکے عطا کردہ وظیفہ کو حرزجاں بنا لیتا،نماز پنجگانہ ادا کرتا اور مستقل پڑھائی کرتا۔پس میں نے یہ ٹھان لی کیونکہ۔۔۔ اسکے بغیر چارہ بھی نہیں تھا ۔کاملیت کے بحر بے کراں میں تیرنے اور دوسرے کنارے کی تلاش میں نماز پنجگانہ سے تزکیہ کرنا لازمی ہوگیا تھا،میں نے نماز فجر مزار شریف پر ادا کی اور نماز کے بعد اس مذکورہ وظیفہ کو رغبت قلبی سے ادا کیا تو لطف و اطمینان سے پورے بدن میں راحت سی گھل گئی ۔