جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔سولہویں قسط

جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔سولہویں قسط
جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔سولہویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر:شاہدنذیرچودھری

میں واقعتاً سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر بیٹھا رہ گیا۔” واہ بھئی واہ بڑا آیا ایدھی تیرے دل میں دوسروں کا درد بہت جاگتا ہے ۔اب بھگت لے“
دوستو!دنیا رنگ رنگیلی ہے۔صاف ستھرے کے چہرے والوں کے دلوں پر بڑی بڑی جھریاں اور تہیں جمی ہوتی ہیں ۔ان کا اندر اور باہر دو مختلف چیزیں ہوتی ہیں ۔بابر حسین کی بابت سن کر مجھے شدید دکھ ہوا کہ ایک ایسا انسان جو درد کا کٹورہ اٹھائے دوسروں کو اپنا درد پلا رہا ہے خود بہروپیا ہے ۔کافی دیر تک میں اس دکھ کو برداشت کرتا رہا لیکن پھر آہستہ آہستہ ایک سوال ذہن میں کلبلانے لگا کہ میں صرف ایک ہی بات کیوں سوچ رہا ہوں ،ممکن ہے اس نے توبہ کرلی ہو اور اب صاف ستھری زندگی گزارنا چاہتا ہو لیکن اسکو ماضی کے دشمن تنگ کرنے لگے ہوں ۔ایسا اکثر ہوتا ہے۔معافی تو مل جاتی ہے لیکن اس کا اُپائے کرنا پڑتا ہے۔آزمائشوں میں سے گزر کر بندگی ثابت کرنا پڑتی ہے۔ہم انسانوں کو آزمائشوں کے پل صراط سے گزر کر ہی آگے جانا ہوتاہے۔در در سے درد لیکر آخرت کا جام لینا ہوتاہے۔
میں نے جناتی سے پوچھا ” کیا تمہیں یقین ہے کہ بابر حسین ماضی کا ببر کالیا ہے اور یہ وہی ببر کالیا ہے جس کے اخباروں میں اشتہار چھپا کرتے تھے۔کئی شہروں میں بیٹھتا تھااور شہروں اور قصبوں کی دیواروں پر بھی اسکے نام کی چاکنگ ہوا کرتی تھی“
” میرا خیال ہے وہی ہوگا “ جناتی نے بغیر سوچے کہا۔
” کیا مطلب ۔میں سمجھا نہیں ۔پہلے تم کہہ رہے تھے کہ یہ ببر کالیا ہے “ میں حیرت سے سوال کیا ۔
” مجھے تو چندرا نے اسکے بارے میں بتایا ہے۔اس نے جو بولا میں نے آکر آپ کو بتادیا بھاجی....“
” یار یہ کنفرم بات تو نہیں ہے ناں۔چندرا جھوٹ بھی تو بول سکتی ہے “ میں نے کہا تو جناتی ذرا سا غرایا ۔
” بھا جی ایسا نہ بولیں ،میری چندرا ایسی نہیں ہوسکتی “
” کیا بات ہے جناتی ۔ابھی ملی اور ابھی کی ابھی وہ دل میں بس گئی ۔چلو وہ سچ ہی بولتی ہوگی لیکن تم خود بتاو¿ کہ اس بات پر یقین کرلیا جائے تو ہمیں کیا کرنا ہوگا “ خود میری بھی جناتی سے تازہ تازہ دوستی تھی اس لئے میں نے مزید پوچھنے میں احتیاط برتی۔یہ تو میں آپ کو بتا ہی چکا ہوں کہ جنات انسانوں سے زیادہ غصیلے ہوتے ہیں ،لیکن بقول جناتی وہ جنات سے بھی آگے کی مخلوق تھا، غازی کا ہمزاد تھا اس لئے کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ اسکا مزاج ہے کیسا۔دوسری جانب میں کوئی سکہ بند عامل تو تھا نہیں کہ علم کے زور پر اس سے کام لیتا پھرتا۔یہ پیار محبت کا سودا تھا جو بہر حال ایک علم سے ہی جڑا ہواتھا اور اسکے کنکشن ابھی نرم تھے۔
” یہ بات تو کنفرم ہی سمجھو کہ وہ ببر کالیا ہے۔اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ اسکی مددکرنی ہے تو کیسے کی جائے ۔میں نے چندرا سے اس بارے میں مزید کچھ نہیں پوچھا ۔ابھی تو ہم دونوں ملے ہیں ۔ہوش کہاں دوسروں کے بارے میں باتیں کرنے کا۔ایک دوسرے سے انجوائے کریں گے ابھی ہم ۔جوانی میں کوئی پہلی بارملاہے اس لئے دل کے ارمان پورے کرنا چاہتا ہوں ۔“ جناتی مدہوش سا ہوکر خواب ناک انداز میں بولا” میری چندرا چاند جیسی ہے ۔میں نے جب اسکو اپنی بانہوں میں لیا تو اسکے بدن سے آنے والی مہک نے مجھے دیوانہ بنادیا ۔ہم دونوں بستیوں سے دورجھیل سیف الملوک پر چلے گئے تھے۔رات بھی چاندنی تھی ۔اور میری گود میں لیٹی میری جان چندرا کا حسن چاند کو شرما رہا تھا ۔وہ مجھ سے لپٹ لپٹ جاتی۔اور کہتی جناتی تم اس سے پہلے کہاں تھے۔تم نے یہ عورتوں کا دل موہ لینے کا گر گیان کس سے پایا ہے۔وہ جمال آتش کی تعریف کرتی اور ساری رات میرے رگوں میں اپنا سرور انڈیلتی رہی۔وہ باربار کہتی کہ جناتی میں تم سے دور نہیں رہنا چاہتی ۔بھا جی ۔میں بھی چندرا سے دور نہیں رہ سکتا ۔لیکن غازی سرکار کو سحری کے وقت کام پڑگیا اور مجھے اسکا بلاوہ آگیا تو میں ننگا ان کے سامنے پیش ہوگیا ۔شکر ہے انہوں نے مجھے کچھ کہا نہیں ۔بلکہ میری حالت دیکھ کر وہ بہت ہنسے تھے ۔ان کی وجہ سے میرا دل اور بڑھ گیا ہے ۔اب میں روزانہ اپنی چندرا سے مل سکوں گا“
” یار جناتی ۔تم لوگ بھی زنا اور بدکاریاں کرتے ہو؟“ میرے منہ سے اچانک سوال نکلا لیکن میں نے اپنے لہجہ کو ہلکا سا خوشگوار بنا لیا مبادا وہ ناراض ہوجائے۔

جناتی ۔۔۔جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔پندرہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
اس نے قہقہہ لگایا” ہم بھی تم جیسے ہیں ۔“ یہ کہہ کر وہ پھر ہنسا ” جوانی اور طاقت میں جو نشہ ہوتا ہے اسکو عورت کی کشش بڑا کھینچتی اور اسکا طالب بنا دیتی ہے۔جنس مخالف کے بغیر کچھ نہیں ہے اس جہاں میں ۔اس سے زیادہ سکون کسی اور شے میں آتا ہی نہیں۔تم جانتے ہو کہ جنات بیک وقت کتنی کتنی شادیاں کرتے ہیں ۔اور جو جنات جنسی خواہشوں سے بہت زیادہ مغلوب ہوجاتے ہیں وہ انسانوں کی عورتوں کو پکڑ لیتے ہیں ۔ایک جن جب انسانی عورت کے ساتھ جنسی تعلق جوڑتا ہے تو اس عورت کو پھر کوئی انسان مطمئین نہیں کرسکتا جبکہ کسی جن زادی کو کوئی انسان جنسی طور پر مطمئن نہیں کرسکتا .... یہ آگ اور مٹی کا کھیل ہے ۔آگ مٹی کو جلا کر رکھ دیتی ہے۔باقی سب کہانیاں ہیں بھاجی ....اگر چاہو تو آزما کر دیکھ لو“ یہ کہہ کر اس نے میرے پہلو میں گدگدی کرتے ہوئے چھیڑا” کہو تو چندرا سے کہہ کر تمہارے لئے بھی ایک خوبصورت جن زادی منگوا دوں“
” لاحول ولا قوة.... کیا بکواس ہے یار“ میں نے شرما کر اس کا ہاتھ جھٹکا” مجھے اس عذا ب سے نکالواب.... اور کوئی حل بتاو¿“ میں نے اسکو سنجیدہ کرنے کے لئے سوال کیا” کیا خیال ہے ہم اسلام آباد نہ چلیں ۔یا کہو توبابر حسین کو ادھر بلا لیں۔“
جناتی نے ہنکارا بھرا” اونہہ“پھر بولا” سچی بات ہے بھاجی ۔آپ عامل کامل تو ہیں نہیں ۔اس لئے جنات کی پکھی میں جانے کا رسک نہیں لینا چاہئے۔اسکو ادھر ہی بلالیتے ہیں ۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر وہ لاہور آپ کے پاس آگیا تو کیا اکیلا ہوگا ؟ اسکی بیوی ساتھ آئی تو اسکے ساتھ پکھی کے پہرے دار بھی آئیں گے ۔اگر وہ ساتھ آئے تو انکو قابو کرنا کم ازکم آپ کے بس میں نہیں ہوگا “
” پھر“اسکی بات میں وزن تھا۔
” میرا خیال ہے اسکو اکیلے میں بلا لیں ۔آپ نے دیکھ لیا اس روز فون کرتے ہوئے بھی اس پر حاضری ہوگئی تھی۔یہ کام آپ غازی سرکار یا بابا جی سرکار کی مدد سے اچھے طریقے سے کرلیں گے اور ظاہر ہے ابھی آپ کی ان سے ملاقات نہیں ہوپارہی۔“
جناتی سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے بابر حسین کو فون کیا اور اسے لاہور آنے کی دعوت دی ۔وہ بڑا خو ش ہوااورپھر اگلے ہی روز آگیا ۔اس نے اپنی بیوی کو گھر ہی چھوڑ دیا تھا اور میری ہدایت پر اکیلا ہی آیا تھا ۔مجھ سے مل کر وہ بہت خوش ہوا،میرے گھٹنوں کو چھو کر اس نے ہاتھ باندھے ” شاہد بھائی میں زندگی بھر آپ کا احسان یاد رکھوں گا“ کالی کالی موٹی آنکھیں،بھنویں گہری اور اٹھی ہوئیں ،رنگت سانولی،میانہ قد اور چوڑے سینے والا بابر حسین خوش جمال مردانہ وجاہت رکھتا تھا ۔
” ہاں تو ببر کالیا ....“ جب میں نے اسے چائے اور لوازمات سے تواضع کردی تو اسے مخاطب کیا۔
اس نے چونک کر میری جانب دیکھا ،اسکے لب حیرت سے کھلے۔ٹکٹکی باندھے حیرانی سے مجھے دیکھتا رہا ۔پھر دلگیرانداز میں بولا ” ببر تو کب کا مرچکا ہے بھائی جان ۔اب تو یہ کمزور سا بابر حسین آپ کے سامنے بیٹھا ہے۔“ اسکی سیاہ آنکھوں کی پتلیوں پر پانی سا تیر آیا ۔
اس سے قبل کہ میں مزید کوئی سوال کرتا۔جناتی نے میرے کانوں میں سرگوشی کی ” بھاجی ۔ایک منٹ....خوشخبری یہ ہے کہ اسکے ساتھ چندرا آئی ہے رکھوالی کرنے ۔اب آپ اسکے ساتھ بات چیت کرو اور میں اپنی چندرا رانی کو ساتھ لیکر لاہور کی سیر کرانے لے جارہا ہوں ۔فکر نہ کرنا ....“ اسکی چہکتی آواز سن کر میں نے ہنس کر سر ہلایا اورذرا پہلو میں جھک کر کہا” کیا مجھے درشن نہیں کراو¿ گے اپنی چندرا کے ۔۔“
اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ مارا” نیت تو ٹھیک ہے ناں ۔رات والی آفر نے تنگ تو نہیں کرنا شروع کردیا“ جناتی بڑا نٹ کھٹ تھا،اپنی چندرا سے ملنے کی خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
” اچھا بھئی تیری مرضی ....“ میں نے کہا” یار ہوں تیرا ۔اگر درشن کرادیتے تو کیا جاتا “
” اچھا واپس آکر درشن کراتا ہوں ۔ابھی تو آپ کالئے سے نمبٹیں “ جناتی نے فٹا فٹ جواب دیا اور چلا گیا۔میں سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔بابر حسین ابھی تک مجھے دیکھے جارہا تھا ۔
” ہا ں تو بابر حسین ۔تمہارا مسئلہ کوئی عام مسئلہ تو ہے نہیں ۔اب جبکہ مجھ پر تمہاری حقیقت کھل چکی ہے تو مجھے ذرا تفصیل سے اپنے بارے میں بتاو کہ تم دراصل کون ہو اور تم نے ایسا کیا کیا کچھ کیا ہے جس کے نتیجے میں اب تمہیں اتنی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہوں کہ کیس ہسٹری جانے بغیر علاج کرنا مشکل ہوتا ہے“
بابر حسین کو جیسے یقین نہیں تھا کہ اسکا ماضی کریدا جاسکتا ہے۔وہ ذہنی طور پر تیار ہی نہیں تھا لیکن اب جب بات کھل چکی تھی تو اپنے بارے میں بتائے بغیرچارہ بھی نہیں تھا ۔

(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)

مزید :

جناتی -