شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 20
کراریہ سے آکر یہ راستہ جس جگہ نالے کے کنارے پہنچتا ہے، اس مقام سے ٹھیک چار سو گز شمال مغرب میں کسی قدر بلندی پر پتھروں سے بنے ہوئے پانچ گھروں کی ایک آبادی ’’مڑھی‘‘ ہے، جس کے لوگ نالے کے شمالی کنارے پر پھیلے ہوئے وسیع میدان میں جوار، باجرہ، گیہوں او رمکئی کاشت کرتے ہیں اور نالے سے چار پانچ فرلانگ پر واقع ایک پہاڑی چشمے سے اپنے کھیتوں کی آبپاشی کرتے ہیں۔
گاڑی نالے کے کنارے پہنچی تو سامنے سے گاؤں کے لوگوں نے آوازیں دیں اور ہمیں گاڑی ٹھہرانے کا شارہ کیا۔ ہم لوگ ٹھہر گئے۔ چند ہی منٹ میں گاؤں سے دو آدمی بھاگتے ہوئے آگئے۔ یہ لوگ جھولابن جانا چاہتے تھے۔ میں نے ان سے گاڑی کے آگے آگے چلنے کو کہا اور ہم پھر جھولاپن کی طرف چل پڑے۔
میں نے ان دونوں کو تاکید کردی تھی کہ خاموشی سے چلیں۔ ان میں سے ایک کا نام رام سروپ اور دوسرے کا جوگندرتھا۔ جوگندر قطعی ناسمجھ اور خالص جنگلی تھا، لیکن رام سروپ خاصا سمجھدار اور چالاک تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک نالی مزل لوڈر بندوق بھی تھی۔ اس کے بار بار میری طرف دیکھنے سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ مجھے کچھ بتانا چاہتا ہے لیکن میں نے جھولابن پہنچنے تک گفتگو کو ملتوی رکھا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 19 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم لوگ مزید دو میل چلے تھے کہ اچانک نالے کے اندر سے بڑے سانبھر کی ’’دھانک‘‘ کی آواز آئی۔ یہ آواز سانبھر صرف خوف کے وقت کرتا ہے اور سانبھر کو یکبارگی خوف صرف شیر کا ہی ہوسکتاہے۔ بہرحال ہم اسی طرح چلتے رہے۔ اگرچہ میرے کان اس آواز پر لگے ہوئے تھے ،کیونکہ آواز سے اندازہ ہوا تھا کہ پرانا اور بڑا سانبھر ہوگا۔ اس کے سینگوں کا لالچ بار بار گاڑی سے اتر کر نالے میں جھانکنے پر اکساتا، لیکن میں دل پر جبر کءئے بیٹھا رہا۔ گاڑی چلتی رہی۔
بیس پچیس سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ ’’دھانک‘‘ کی خوفز دہ آواز آئی۔۔ اور اس کے بعد تو آوازوں کا تار بندھ گیا۔۔ مجھے اور بھی یقین ہوگیا کہ سانبھر نالے کے اندر ہی ہے اور اتنے بلند اور عمودی کنارے کی وجہ سے وہ باہر نہیں نکل سکتا۔ نالے کے اندر ضرور کوئی خطرہ درپیش ہے۔
تعجب کی بات یہ تھی کہ سانبھر مسلسل دھانک رہا تھا، حالانکہ عام طور سے دھانکنے کے بعد سانبھر رکتا نہیں بلکہ بھاگ کھڑا ہوتاہے۔ اس وقت کئی باتیں ذہن میں آرہی تھین۔ اول یہ کہ سانبھر معمولی ہے جو خوف کی آوازیں کرنے کے باوجود بھاگتا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ممکن ہے، اس کو دو شیروں نے نالے کے دونوں جانب سے گھیر رکھا ہو، جس سے وہ آگے بھاگتا ہے نہ پیچھے۔ شیروں کا خیال آتے ہی ذہن آدم خوروں کی طرف گیا او رمیں اس موقعے سے فائدہ اٹھانے اور ان سے نمٹنے کے لئے تیار ہوگیا۔
اب گاڑی سانبھر کی آواز کے مقام سے کوئی دو تین سو گز آگے آچکی تھی۔ میں یہاں گاڑی سے اترگیا۔ اپنے ساتھیوں کو تاکید کردی کہ گاڑی کے اندر ہی بیٹھے رہیں اور مزید دو تین سو گز جاکر گاڑی روک لیں۔ میرا ملازم نہ صرف رائفل کا استعمال ہی جانتا تھا بلکہ خاصا نشانچی بھی تھا۔ اس کو میں نے اپنی زائد تھرٹی سپرنگ فیلڈ اور شاٹ گن دے دی کہ وہ اپنی حفاظت کرسکے۔ چاروں طرف سرسبز و شاداب جنگل اور چمکتے ہوئے گہرے دھاتی رنگ کے اونچے اونچے پہاڑ پھیلے ہوئے تھے۔ میں ایک لمحہ دلکش ماحول سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اس عرصے میں دو مرتبہ سانبھر کی’’دھانک‘‘ سنائی دی اور آواز کا مرکز دہی پہلی جگہ تھی۔ میں اب یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ سانبھر کو دوسری جانب جانے میں خطردہ درپیش ہے اور میری طرف کا راستہ اگرچہ کھلا ہے لیکن یہ جانتے ہوئے کہ ادھر ہم لوگ موجود ہیں، وہ ادھر بھی نہیں آتا۔
مَیں نالے کے جس کنارے پر پہنچا، وہاں نالہ کوئی دس گز چوڑا تھا اور کنارے بلند تھے۔میں نالے کے اندر اْتر نہیں سکتا تھا۔۔۔گہرائی کسی طرح بارہ فْٹ سے کم نہیں تھی۔اتنی بلندی سے اندر کودجانا کوئی مشکل تو نہ تھا ،لیکن نکلنے میں ضرور مشکل پیش آتی۔اور پھر نالے میں اتر نا خلافِ مصلحت بھی تھا۔اس لیے وہیں کنارے کی ایک چٹان کی آڑ میں کھڑے ہوکر میں نے رائفل کے گھوڑے چڑھائے اور نالے کا نشانہ لے کر انتظار کرنے لگا۔میرے سامنے تقریباًبیس گز کھلی ہوئی نالے کی سطح تھی ، اس کے بعد نالہ شمال کی طرف گھوم گیا تھا۔مجھے یقین تھا کہ اگر سانبھرآیا تو اس کے پیچھے جو درندہ بھی ہوگا وہ بھی آئے گا۔
چند منٹ اسی حالت میں گزرے۔اس کے بعد نالے کی نرم ریت پر کسی کھردار جانور کے دوڑنے کی آواز آئی۔اور دوسرے ہی لمحے ایک نہایت شان دار سانبھر نالے کے موڑسے نکل کر سیدھا میری طرف آتا نظر آیا۔اس کے سینگ غیر معمولی خوبصورت اور بڑے تھے اور اگر میں شیر کی فکر میں نہ ہوتا تو اس سا نبھر کا مارنا یقینی بات تھی۔
جس چٹان کی آڑ لیے میں کھڑا تھا ،اس کے چا روں طرف جھاڑیاں تھیں۔میں چپ چاپ دم سارھے کھڑا تھا کہ ایک سانپ کسی جھاڑی کی شاخ پر سے ہوکر میری پشت پر چڑھا اور رائفل کے کندھے پر آگیا۔میری جان نکل گئی۔سارا جسم ٹھنڈے پسینے میں شر ابور ہوگیا۔
دل کی دھڑکن وحشت ناک حد تک بڑھ گئی اور ایسا معلوم ہونے لگا ،جیسے دونوں ٹانگوں کا دم نکل گیا ہے اور اب میں گرنے والا ہوں۔ایسے موقعے پر ذرا سی حرکت بھی سانپ کو کاٹنے پر آمادہ کرنے کے لیے کافی تھی۔میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ خدایا!اس خوف ناک سانپ سے نجات دے کہ وہ آہستہ آہستہ رینگتا ہوا ،رائفل کی نالی پر آگیا۔نال چٹان پر ٹکی ہوئی تھی۔اب تک میں نے جس صبر اور قوت ارادی سے اپنے جسم کو حرکت کرنے سے روک رکھا تھا ،اس کا اب قائم رکھنا نا ممکن ہوگیا۔۔۔سانپ کوئی دو فٹ لمبا تھا اور چٹان پر آ جانے کے بعد اب میری رائفل کی نال کی زد میں تھا۔میں نے اچانک نالی کو ایک زور دار جنبش دی۔سانپ ایک جھٹکے کے ساتھ ہوا میں اڑا اور سیدھا نالے کے اندر چلا گیا۔بہر حال ان تمام حرکات سے کچھ نہ کچھ آواز ہوئی۔سانبھر نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔خوف کی آواز کی اور الٹے قدموں جدھر سے آیا تھا ،اسی طرف پلٹ کر موڑ کے پیچھے غائب ہوگیا۔میں پسینہ پونچھتا ہوا اٹھا اور تیز قدموں سے چل کر اس موڑ تک آگیا ،جس کے پیچھے سانبھر غائب ہوا تھا۔(جاری ہے )