ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 55
رب کے بندے اور انسانوں کے بندے
سلیمان صاحب کے ہاں کچھ گفتگو بھی ہوئی اور سوال و جواب بھی ہوئے ۔ یہ سڈنی میں دعوت کا آخری موقع تھا۔ اگلے دن سے نئے سفر کا آغاز ہورہا تھا۔ برسبین، وہاں سے کینبرا اور مختصر وقت کے لیے واپس سڈنی آ کر پھر ایڈیلیڈ جانا تھا۔ برسبین کے لیے صبح سویرے کی فلائٹ تھی۔ اس سفر میں میرے ساتھ ذوالفقار صاحب بھی تھے ۔
میں پچھلے کئی دنوں سے ذوالفقار صاحب کے ہاں مقیم تھا۔ صبح وشام انھی کا ساتھ تھا۔ ان کے ساتھ ہروقت کچھ نہ کچھ علمی اور فکری چیزیں زیر بحث آتی رہتی تھیں ۔اس دوران میں انھوں نے میرے فکری سفر کا حال بھی پوچھا اپنے فکری سفر کا بھی تفصیلی ذکر کیا۔ مگر یہ تفصیل کافی زیادہ تھی اس لیے انھیں کئی اقساط میں سنانی پڑ ی۔ اس سفر کے دوران میں اس سفر کی آخری قسطیں بھی پوری ہوگئیں ۔ اِس وقت تو وہ جاوید احمد صاحب غامدی کے ادارے المورد آسٹریلیا کے کرتا دھرتا تھے ، مگر ان کے فکری سفر کا آغاز وہی تھا جو جاوید صاحب سے وابستہ کئی اور اہم لوگوں کا تھایعنی ڈاکٹر اسرار صاحب ۔ذوالفقار صاحب ابتداء میں ڈاکٹر اسرار کے ساتھ فکری طور پر اورکسی حد تک عملی طور پر بھی وابستہ تھے ۔تاہم جب انھوں نے جاوید صاحب کو سننا اور پڑ ھنا شروع کیا تو آہستہ آہستہ وہ جاوید صاحب کے خیالات سے متاثر ہوتے چلے گئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک طویل داستان تھی جس کے آخری نتیجے کو میں نے بیان کر دیا ہے ۔تاہم اس کا سبق یہ ہے کہ زندہ لوگ کبھی کسی عالم کی اندھی تقلید نہیں کرتے ۔ وہ اپنے قائم تصورات پر ہونے والی ہر تنقید کو کھلے دل ودماغ سے پڑ ھتے ہیں ۔ پھر جو چیز قرآن و سنت کے مطابق لگتی ہے ، اس کو اختیار کرتے ہیں ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 54
یہی وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن اللہ کے وفاداروں کی حیثیت میں اٹھائے جائیں گے ۔ باقی لوگ جو زندگی بھر اپنے تعصبات کے پیرو رہے ، اپنے قائم کردہ تصورات کے خلاف ہر بات کو سننے سمجھنے سے انکار کر دیا، ان کو ایک سخت اور کڑ ے احتساب کا سامنا کرنا ہو گا۔ کیونکہ وہ رب کے بندے نہیں بلکہ اپنے تعصبات اور دیگر انسانوں کے بندے بن کر دنیا میں زندہ رہے ۔
برسبین اور ڈے لائٹ سیونگ
برسبین میں ہم جمعہ کی صبح پہنچے ۔ یکم اکتوبر کو چار پانچ دن پہلے سردیوں کے جانے پر سڈنی میں گھڑ یاں ایک گھنٹے پیچھے کر دی گئی تھیں تاکہ سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ ہمارے ملک میں بھی دو دفعہ یہ کام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک دفعہ بے نظیر صاحبہ کے دور میں جب اس فیصلے پر عملدرآمد سے قبل ہی روک دیا گیا۔ جبکہ مشرف صاحب کے دور میں ایک برس اس پر عمل ہوا۔ جس کے بعد ہمارے جیسے لوگوں کا اکثر وقت اس احمقانہ سوال کا جواب دینے میں ضائع ہوتا تھا کہ کون سا ٹائم ، نیا یا پرانا؟ یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ قوموں کو تعلیم یافتہ بنائے بغیر قانون کی سطح پر کیے گئے فیصلے نافذ کرنے کتنے مشکل ہوتے ہیں ۔
برسبین میں البتہ اس کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ وہ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل پر سڈنی سے کافی اوپر خط استوا یعنی ایکویٹر کی سمت واقع ہے اور وہاں دن پہلے ہی بڑ ا ہوتا ہے ۔یہاں موسم بھی نسبتاً گرم ہوتا ہے ۔ ہم یہاں پہنچے تو دوسروں کا پتہ نہیں میرے حساب سے موسم نسبتاًبہتر تھا۔ یعنی تیس ڈگری کے قریب۔
سولر پینل اور شفاف فضا
یہاں ہمارے میزبان مدثر صاحب تھے ۔ائیرپورٹ سے وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے ۔ان کے گھر والے موجود نہیں تھے ۔چنانچہ ذوالفقار صاحب کے گھر کی طرح یہاں بھی مہمانوں ہی کا راج رہا۔مدثر صاحب کا گھر ایک بہت خوبصورت وادی میں تھا اور گھر کے پچھلے حصے سے ایک جنگل کا سماں محسوس ہوتا تھا۔دھوپ کی زیادتی کی وجہ سے یہاں لوگوں نے اپنے گھرو ں کی چھت پر سولر انرجی کے پینل لگارکھے تھے اور لوگ پیدا ہونے والی بجلی حکومت کو بیچتے تھے ۔
میں نے ذوالفقار صاحب سے کہا کہ ان سولر پینل کی ہر ماہ صفائی مشکل ہوتی ہو گی۔ کیونکہ پاکستان میں مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ ان پینل کو ہر ماہ صفائی کی ایسے ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے گاڑ ی یا اے سی کے فلٹر کو ہوتی ہے ۔ مگر انھوں نے یہ توجہ دلائی کہ یہاں فضا ہر طرح کی آلودگی سے پاک ہے اس لیے صفائی کی ضرورت نہیں پڑ تی۔ ان کے کہنے سے میں نے غور کیاتو اندازہ ہوا کہ آسٹریلیا میں ہر جگہ فضا بالکل شفاف ملی ہے ۔آسمان کے رنگ پر ہر جگہ ہماری طرح سرمئی رنگ کے بجائے نیلا رنگ غالب رہتا تھا۔ کراچی میں کچھ عرصہ پہلے بارشیں ہوئیں تو نجانے کتنے عرصے بعد آسمان نیلانظر آیا تھا۔ ورنہ تو سرمئی ہی لگتا ہے ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں