ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 54
رزق ربانی اور عجز انسانی
مجھے ذاتی طور پر روٹین کی زندگی پسند ہے ۔وقت پر کھانا، وقت پر سونا جاگنا، معمولات کے مطابق صبح وشام کرنا۔ سفر میں یہ سب چیزیں الٹ جاتی ہیں ۔ اس سفر میں صورتحال کچھ زیادہ ہی خراب رہی۔سفرمیں کھانے پینے کے اوقات اور کھانے کی نوعیت گھر سے مختلف بھی تھی اور ہر روز بدل بھی رہی تھی۔ ایک اورمسئلہ سردی تھی۔ سرد موسم کا اثرگھر میں رہ کر ہیٹر وغیرہ کے ذریعے ختم کیا جا سکتا تھا ، مگر مجھے ٹورازم کی وجہ سے مسلسل باہر سرد ہوا میں رہنا پڑ رہا تھا۔سڈنی کے اوپرا ہاؤس، بلو ماؤنٹین اور و ولون گونگ ہر جگہ سرد تیز ہوا کا سامنا تھا۔ اسے میں برداشت کر لیتا مگر ایک ہفتہ بعد بھی جیٹ لیگ سے نہیں نکل سکا تھا۔کبھی دیر تک آنکھ نہ کھلتی اور کبھی نیند نہ آتی۔ اور اس پر مستزاد یہ ستم کہ اس عاجز کو نہ جہاز میں نیند آتی ہے نہ آرام دہ گاڑ یوں میں ۔
تاہم میں ہر سفر میں یہ قیمت دینے کو تیار رہتا ہوں خاص کر اس سفر کے لیے جس کی نوعیت دعوتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کی ’’سیاحت‘‘ قرآن مجید کی مطلوبہ خصوصیات میں سے ایک ہے ، (التوبہ 111:9)۔ اس سیاحت میں ایک طرف انسان نصرت دین کی وہ خدمت سرانجام دیتا ہے جس کا اجر غیر معمولی ہے ، مگر اس کا ایک ذاتی فائدہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ تخیل کی وہ آنکھ جسے معمولات بندکیے رکھتے ہیں ، سفر کے غیر معمولی واقعات اور مشاہدات کھول دیتے ہیں ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کے بعد انسان وہ دیکھتا ہے جو سب دیکھتے ہیں ، مگر وہ محسوس کر لیتا ہے جو بہت کم لوگ کرسکتے ہیں ۔یہ وہ رزق ربانی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ راہ چلتے فقیروں کو دیتے رہتے ہیں ۔ اگر اس کی عطا سے وصف بیان سے بھی کوئی حصہ مل جائے تو یہ رزق بہت سے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔
یہ رزق ربانی اپنی جگہ مگر میرا عجز انسانی اب میری راہ میں حائل ہورہا تھا۔ مگر اس کے لیے بھی پروردگار نے محبت کرنے والے احباب دے رکھے تھے ۔ فرخ صاحب کو مسئلہ بتایا۔ انھوں نے سلیمان صاحب کو فون کیا کہ یہ عاجز وقت سے پہلے ان کے گھر آ کر کچھ آرام کرنا چاہ رہا ہے ۔ انھوں نے ازراہ عنایت اس کی اجازت دے دی۔ چنانچہ پانچ بجے ان کے گھر پہنچ کر میں گھنٹہ بھر سو گیا جس کے بعد کچھ تازہ دم ہوکران کے گھر ہونے والی نشست میں شریک ہونے کے قابل ہو گیا۔
خواتین کی طاقت
سلیمان صاحب کا پوسٹ آفس کا بزنس تھا۔ان کے گھر دعوت میں کئی احباب شریک تھے ۔جن میں ذوالفقار صاحب اور فرخ صاحب کے علاوہ کئی اوراحباب شامل تھے ۔ان کی اہلیہ محترمہ نے بھی جو ایک ڈاکٹر تھیں ، کھانے کا ویسا ہی بھرپور اہتمام کیا تھا جیسا کہ دوسری خواتین نے کیا تھا۔باقی خواتین کی طرح ان کے سوالات بھی ان کے دینی ذوق کا اظہار تھے ۔
خواتین سے متعلق میری ایک آبزرویشن ہے جسے میں قارئین اور خاص کر خواتین قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔ میں مرد و خواتین کی اس مغربی مساوات کا قائل تو نہیں ہوں جس نے عورتوں کو مشقت میں ڈال دیا ہے ، مگر یہ سمجھتا ہوں کہ انسانی سماج جیسے جیسے آگے بڑ ھ رہا ہے خواتین طاقتور ہوتی جا رہی ہیں اور ان کا کردار بڑ ھتا جا رہا ہے ۔عہدشکاراور عہدزراعت میں جب زندگی کے میدان میں جسمانی طاقت ہی فیصلہ کن قوت کی حامل ہوا کرتی تھی، خواتین کا سماجی رول بہت کم تھا۔خاص کر مختلف خطرات اور بیماریوں کی بنا پر جب انسانوں کو موت کا مسلسل سامنا رہتا تھاتو خواتین کا یہ رول زیادہ اہم تھا کہ وہ اپنی طاقت اور توانائی کے بہترین ایام میں بچے جنتی رہیں تاکہ کسی قبیلے اور گروہ کو افرادی قوت میں کمی کا سامنا نہ ہو۔ظاہر ہے کہ بچے جننے کے بعد ان کی نگرانی اور پرورش خود ایک بڑ ا کام بن جاتا ہے ۔
تاہم صنعتی دور میں صورتحال بدلنا شروع ہوئی۔مشین کی طاقت نے جسمانی طاقت کو غیر اہم کر دیا۔مختلف بیماریوں کے علاج دریافت ہونے کے بعد آبادی میں کمی کا مسئلہ حل ہو گیا۔اب دو تین بچوں کے بعد خواتین فارغ ہوجاتی ہیں ۔ انفارمیشن ایج میں صورتحال مزیدبدلی۔ اب انگلیوں کے لمس سے بڑ ے بڑ ے کام ہوجاتے ہیں ۔ ایسے میں دنیا بھر میں خواتین کا رول بڑ ھ رہا ہے اور بڑ ھتاچلا جائے گا۔ایسے میں ہماری خواتین کے لیے ایک راستہ یہ ہے کہ اپنے صدیوں کے سماجی کردار کی بنا پر گھر میں بیٹھ کر لایعنی گفتگو، غیبت و ظن و گمان پر مبنی باتوں ، شاپنگ، دوسری خواتین سے لباس، گھر اور دیگر مادی چیزوں کے باہمی مقابلے میں اپنی زندگی کو ضائع کریں ۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ انسان بنائیں اور دوسری طرف خود اعلیٰ انسان بننے اور سماج میں اپنا کردار ڈھونڈنے کی کوشش کریں ۔ اس معاملے میں ہماری ماؤں خدیجہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما جیسی عظیم خواتین کا غیر معمولی ماڈل ہمارے سامنے ہے ۔یہ دونوں ایک طرف اپنے عظیم المرتبت شوہر کی زبردست مددگار تھیں ، اپنے بچوں کے ساتھ امت کی بھی بہترین مائیں تھیں اور دوسری طرف اپنی ذاتی حیثیت میں ایک قبائلی معاشرے میں بھی کاروباری اور علمی طور پر بہت فعال رہیں ۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ خواتین سطحی چیزوں سے بلند ہوجائیں ۔خاندانی سیاست، فیشن اور مادیت میں مقابلہ بازی، اپنی طاقتور زبان کاغلط استعمال اور اپنے اتنے ہی طاقتور نسوانی جمال کا بے موقع اظہار کا جذبہ وہ پست چیزیں ہیں جو خواتین کی فیصلہ کن کمزوریاں ہیں ۔ان کے ساتھ وہ کبھی اعلیٰ انسان نہیں بن سکتیں نہ اپنے بچوں کو اعلیٰ انسان بنا سکتی ہیں ۔
خواتین کو جنت میں اگر اعلیٰ مقام پانا ہے تو ان کو اپنی تربیت کرنا ہو گی۔علم حاصل کرنا ہو گا۔ اپنی شخصیت کو پروقار بنانا ہو گا۔اپنے وقت کے بہتر استعمال کو سیکھنا ہو گا۔انھیں یہ سمجھنا ہو گا کہ جنت میں جو مقام ایک مرد بہت سخت جدوجہد کے بعد پاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے وہ مقام حاصل کرنا بہت آسان کر رکھا ہے ۔خواتین کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ جنت میں جو خصوصیات انسان کو لے جانے والی ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ نے ان میں فطرتاً زیادہ رکھی ہیں ۔نرمی، رحم اور ہمدردی جیسی جنتی صفات ہر خاتون میں وافر ہوتی ہیں ۔بچوں کی تربیت اور دوسروں کی خدمت جیسے کام ان کی فطرت ہیں ۔ ان چیزوں کی موجودگی میں جنت میں جانا اور بلند درجات پانا کون سا مشکل کام ہے ۔ بس وہ اپنی کچھ کمزوریوں پر قابو پالیں جو اوپر بیان ہوئیں تو وہ کم کوشش سے خدا کا زیادہ قرب حاصل کرسکتی ہیں اور زیادہ بہتر انسان بن سکتی ہیں ۔اورجنت بہتر انسانوں کے ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے ۔
(جاری ہے)