ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 53
فطرت کا جی پی ایس
اس سفر سے واپسی پر ہمیں سلیمان صاحب کے ہاں ڈنر پر جانا تھا۔ ان کا گھر مقامی قبرستان کے قریب واقع تھا۔ فرخ صاحب کے والد یہیں مدفون تھے ۔ فرخ صاحب سلیمان صاحب کے ہاں جاتے ہوئے مجھے قبرستان دکھانے لے گئے ۔ان کا خیال تھا کہ ہم دوسرے گیٹ سے سلیمان صاحب کے گھر کے بالکل قریب نکل جائیں گے ، مگر وہ راستہ بند تھا۔ اس لیے ہم یہاں کچھ دیر بھٹکتے بھی رہے ۔ اسی دوران میں ہم نے گاڑ ی میں چلتے ہوئے کم و بیش پورا قبرستان دیکھ لیا۔
یہ ایک مشترکہ قبرستان تھا جس میں مسیحیوں کے مختلف فرقوں کے علاوہ مسلمانوں اور بدھوں وغیرہ کی بھی قبریں تھیں ۔ ہمارے قبرستانوں کے برعکس صاف ستھرا قبرستان تھا۔ایسے قبرستان صرف یورپی مغربی ملکوں میں ہی ہوسکتے ہیں۔مرنے کے بعد سب مٹی ہوجاتے ہیں۔زندہ ہوں تو ایک دوجے کو برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔قبرستان میں بھٹکتے ہوئے مجھے گاڑ یوں میں موجود جی پی ایس اورنقشے کی رہنمائی یاد آئی۔اس رہنمائی میں گاڑ ی چلانے والا اگر غلط موڑ مڑ تا ہے تو کمپیوٹر اسے توجہ دلاتا ہے لیکن حتمی فیصلہ ڈرائیور ہی کا ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جب انسان کو بھیجا ہے تو اس کی فطرت میں خیر و شر کے شعور کا ایک جی پی ایس سسٹم رکھ دیا ہے جو ہر غلط قدم پر خاموش آوازمیں اسے متنبہ کرتا ہے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ قبریں بھی ایک خاموش نوعیت کی ایسی ہی آواز تھی۔ یہ آواز اپنی خاموش زبان میں انسان کو یہ بتا رہی تھی کہ وہ اِس دنیا، اس کی رنگینیوں ، اس کی حسین وجمیل گاڑ یوں ، دلربا چہروں ، شاندار گھروں اور دیگر تفریحات کے پیچھے کبھی یہ حقیقت نہ بھولے کہ اس کی آخری منزل یہ قبرستان ہی ہے ۔ انسان اس دنیا میں ایک عارضی مدت کے لیے امتحان دینے کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ اس لیے نہیں کہ دنیا کو اپنا مقصد بنالے ۔ انسان کو لوٹ کر اپنے رب کے حضور جانا ہے ۔ اس روز وہی کامیاب ہو گا جس نے فطرت کے جی پی ایس سسٹم کی رہنمائی قبول کی۔ جنت کی منزل تک وہی لوگ پہنچیں گے ۔ باقی لوگ ابدی طور پر جہنم کے قبرستان میں بھٹکتے رہیں گے ۔
و ولون گونگ کا حسین نظارہ
معاف کیجیے گا کہ میں عادت سے مجبور ہوکر آپ کو کہیں سے کہیں لے گیا۔ہم و ولون گونگ جا رہے تھے ۔ یہ شہرایک پورٹ سٹی تھا جو سڈنی سے 50میل دور ساحل کے ساتھ ساتھ آبادتھا۔ مرکز شہر پہنچنے سے قبل سڈنی سے آنے والا راستہ پہاڑ کے ساتھ ساتھ گزرتا تھا۔ پہاڑ کے دامن میں شہر آباد تھا اور پھر تاحد نظرتک پھیلا ہوا سمندر۔ اصل شہر میں داخلے سے قبل فرخ صاحب نے ایک دو مقامات پر گاڑ ی روکی۔یہاں سڑ ک کے کنارے باقاعدہ جگہیں بنی ہوئی تھیں جن سے کھڑ ے ہوکر یہ پورا منظر دیکھا جا سکتا تھا۔ہم نے دو تین جگہ پر رک کر یہ منظر دیکھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک انتہائی حسین اور خوبصورت منظر تھا۔اوپر نیلا آسمان، اس کے نیچے نیلا سمندر۔ پہاڑ پرکافی بلندی پر کھڑ ا ہونے کی وجہ سے دائیں بائیں دور تک ساحلی کٹاؤ نظر آ رہا تھا۔ساحل کہیں نصف دائرے کی شکل میں کٹا ہوا تھا کہیں ایک پگڈنڈی کی شکل میں آگے جا رہا تھا۔ کہیں بالکل ہموار تھا کہیں غیر ہموار طریقے سے سمندر سے مل رہا تھا اور کہیں سفید ریت کی خوبصورت بیچ بنی ہوئی تھی۔ساحل کے پیچھے دور تک پھیلا شہر آباد تھا۔اس کے پیچھے پہاڑ کی ڈھلوان پر ایک جنگل آباد تھا۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
بلاشبہ اس شہر کی اصل خوبصورتی یہی نظارہ تھا۔ یہی منظر حاصل سفر تھا۔ فرخ صاحب نے بتایا کہ یہاں سے لوگ پیراگلائڈنگ بھی کرتے ہیں ۔یقینا یہ اس کے لیے بھی بہترین جگہ تھی۔ میں نے سوچا کہ پرندے کی طرح اڑ تے ہوئے یہاں کا نظارہ کتنا عجیب لگتا ہو گا۔ خوش قسمتی سے میں ترکی میں ہاٹ ائیر بلون میں بیٹھ چکا تھا اس لیے بڑ ی حد تک اب سمجھ سکتا ہوں کہ پرندے اوپر سے نیچے اترتے ہوئے چیزوں کو کیسے دیکھتے ہیں ۔ بڑ ی حد تک یہ منظر یہاں بھی موجود تھا۔ اسی دوران میں فرخ صاحب نے مجھے آگے کی سمت نیچے پہاڑ کے دامن میں بنے ایک پل کی طرف متوجہ کر کے بتایا کہ اسی سے گزر کر ہم اصل شہر جائیں گے ۔
کچھ دیر میں ہم اس پل سے گزرے ۔ فرخ صاحب نے بتایا کہ پہلے یہ سڑ ک پہاڑ کے ساتھ بنی ہوئی تھی، مگر اکثر لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے راستہ بند ہوتا رہتا تھا۔ جس کے بعد پہاڑ سے ہٹ کر یہ پل پانی کے اوپر بنایا گیا ہے ۔ یہ کافی طویل اور خوبصورت پل تھا۔ اس سے گزر کے ہم شہر میں داخل ہوئے ۔ یہ ایک چھوٹا اور صاف ستھرا شہر تھا۔ ایک جگہ ہم نے ویجیٹیبل برگر کا لنچ کیا۔ پھر بندرگاہ کے پاس موجود ساحل پر گئے ۔ کچھ دیر وہاں گزار کر ہم واپس سڈنی کی طرف روانہ ہوگئے ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں