گداگری یا غنڈہ گردی
گئے زمانوں میں گداگر اللہ کے نام پر بھیک مانگا کرتے تھے اور جو ان کو دیا جائے اس پر راضی ہو جاتے تھے لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے اب اللہ کے نام پر ہی مانگنے والے پیشہ ورغنڈوں نے لے لی ہے جن سے تقریبا ہر باشعور شہری تنگ ہے۔ کبھی یہ زبردستی آپ کا راستہ روک لیتے ہیں،کبھی آپ کی گاڑی کے آگے آ جاتے ہیں کبھی کم پیسے ملنے پر بددعائیں تک دینے سے باز نہیں آتے، پہلے لوگ مجبوری میں مانگا کرتے تھے اب یہ ایک باقاعدہ پیشہ بن چکا ہے اور ان بھکاریوں نے آپس میں علاقے بانٹے ہوئے ہوتے ہیں کوئی ایک کسی دوسرے کے علاقے میں جا کر مانگنے کا تصور تک نہیں کر سکتا، باقاعدہ مافیا ہے جو ان بھکاریوں کو کنٹرول کرتا ہے۔بھکاری اپنے مقاصد کیلئے بچوں کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ٹریفک سگنلز ان کا خاص ہدف ہیں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ منسلک ہے، اس مقصد کیلئے یہ بھکاری مافیا بچوں کو اغوا کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے آئے روز بچوں کے اغوا کی کہانیاں میڈیا کی بھی زینت بنتی رہتی ہیں۔ گداگری قانوناً جرم ہے اور اس کی قانون میں باقاعدہ سزا تجویز ہے اوراس کی روک تھام کے لئے قانونی ایکٹ بھی موجود ہے مگر حکومت اور پولیس کی ناک کے نیچے کھلے عام بھیک کے نام پر غنڈہ گردی جاری ہے۔سڑکوں پر بچے، بوڑھے،خواتین غول در غول نہ صرف بھیک مانگ رہے ہیں بلکہ بھیک چھین رہے ہیں کیوں اب ان کا طریقہ کار چھیننے والا ہوتا ہے لوگ ترس کھا کر نہیں بلکہ ڈر کر ان بھکاریوں کو بھیک دے رہے ہوتے ہیں کہیں یہ ان پر حملہ آور ہی نہ ہو جائیں، اکثر جب گھر سے گاڑی میں نکلیں تو جگہ جگہ اشاروں پر ان کے جھتے مانگنے کیلئے آپ کی گاڑی پر چڑھ دوڑتے ہیں اور کبھی گاڑی کی فرنٹ سکرین کو دھونے کے نام پر بھتہ وصول کرتے ہیں چاہے
ان کے پانچ یا دس روپے کی خاطر کسی گاڑی کی ہزاروں روپے مالیت کی سکرین خراب ہو جائے لیکن انہیں اپنے دس روپے سے مطلب ہوتا ہے چاہے اگلا بندہ گھر سے گاڑی دھو کر صاف ستھری کر کے نکلا ہے لیکن انہوں نے اپنا حصہ لازمی وصول کرنا ہے۔ اب یوں لگتا ہے کہ روڈ ٹیکس کی بجائے بھکاری یا گداگری ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس صورتحال نے شہریوں کویرغمال بنا لیا ہے، ایک فقیر سے جان چھڑوائی تو دوسرا آن پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ بھکاری مختلف جعلی بہروپوں سے شہریوں کو جذباتی کرکے رقم نکلواتے میں مصروف نظر آتے ہیں۔خود کو اندھا، معذور، اپاہج یا پھر خود کو ادویات لگا کر جلا ہوا ظاہر کرکے لوگوں سے رقمیں بٹورتے ہیں،اس کے علاوہ جعلی کھسرے بن کر مانگنے والوں کی بھی بھرمار ہو گئی ہے۔شیر خوار بچوں کو نشہ آور اور محلول پلا کر بے سدھ کرکے گود میں اٹھائی خواتین بھی اشاروں پر نظر آتی ہیں۔ یہ پیشہ ور بھکاری اشاروں پر ٹریفک کے بہاؤ میں خلل ڈالنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھکاریوں کی یہ بھرمار شہر میں ڈکیتی، چوری، نوسر بازی کی وارداتوں میں بھی اضافے کا باعث ہے۔ شہریوں کو ان فقیروں کی وجہ سے بھی بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور گھروں سے باہر نکلتے وقت ان سے اپنی جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ یہ فقیر آپ سے رقم نکلوائے بغیر آپ کی جان نہیں چھوڑتے۔ یہ پیشہ ور ہٹے کٹے بھکاری بھیک نہ دینے پر شہریوں کو گھورتے اور فقرے کستے ہیں۔ جس سے انسان زچ ہو کر رہ جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہر کو ڈاکوؤں اور چوروں کو ٹھیکے پر دے دیا ہے اور خود چپ سادھ لی ہے۔اگر ہم اس حوالے سے دینی احکامات کا جائزہ لیں کہ بھیک مانگنے یا گدا گری کے حوالے سے ہمارا دین کیا کہتا ہے تو قران پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مستحق لوگ وہ ہیں جو اصرار کر کے نہیں مانگتے بلکہ وہ چہروں سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔
بخاری شریف میں مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ ایک اور حدیث جو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ابو داؤد میں مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو منبر پر صدقہ اور سوال سے بچنے کے لیے خطبہ دے رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔اسی طرح ایک انصاری کا پورا واقعہ نسائی شریف میں درج ہے کہ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے آپؐ کے پاس آ کر سوال کیا۔ آپؐ نے اسے پوچھا ”تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟وہ کہنے لگا۔ ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے۔آپؐ نے فرمایا یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔وہ لے آیا تو آپؐ نے ان کو ہاتھ میں لے کر فرمایا کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہامیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔آپؐ نے فرمایاایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟اور آپؐ نے یہ بات دو تین بار دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگامیں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔آپؐ نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کو دے دیں۔اب آپؐ نے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا اس کا گھر والوں کے لیے کھانا خرید اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ جب وہ کلہاڑی لے آیا تو آپؐ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا پھر اسے فرمایاجاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لا کر بیچا کرو اور پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا۔پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے۔ چند درہموں کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا اور آسودہ حال ہوگیا پندرہ دن بعد آپؐ نے فرمایایہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر برا نشان ہو۔یہ نہیں ہے کہ ہمارا دین خیرات دینے سے منع کرتا ہے لیکن دین ہمیں بھیک مانگنے سے بچانا چاہتا ہے۔
میں خود دس سے زیادہ ممالک کا سفر کر چکا ہوں لیکن مجال ہے کہ مجھے ان ممالک میں کوئی بھکاری یا گداگر نظر آیا ہو اس کے مقابلے میں پاکستان میں آپ کو جگہ جگہ بھکاریوں کے غول نظر آتے ہیں۔جو نہ صرف شہریوں کو دھمکا کر ان سے بھیک وصول کرتے ہیں بلکہ پاکستان کا تشخص بھی خراب کر رہے ہیں جس پر انتظامیہ کو ان کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ان کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔