تکبر،غرور کا علاج تقویٰ ہے
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اچھے اور برے اعمال میں خود نمائی، غرور، گھمنڈ،تکبر کاشکار ہوتاہے۔ تکبر تو ہر طرح کا بُرا ہے لیکن نیکی کی بنیاد پر تکبر تو انسان کو برباد کردیتاہے، انسان زمین پر اکڑ کر چلتاہے اللہ کا حکم ہے کہ زمین پر اکڑ کر چلنے سے تو زمین کو پھاڑ نہیں سکتااور نہ تن کر چلنے سے پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتا ہے، جوانی انسان کو دھوکہ دیتی ہے، اس کا دھوکہ تو سراسر خسارہ ہے حالانکہ اسے تو بہت قلیل وقت میں رخصت ہوجانا ہے۔ حالانکہ انسان تکبر سے بڑا نہیں ہوتا اس کے نیک اعمال پر ہی لوگ از خود اسے بڑامانتے ہیں۔ انسان گناہ کرتاہے لیکن گناہوں پر نادم ہونے سے گناہ مٹ جاتے ہیں اور نیکیوں پر مغرور ہونا اُن کو برباد کردیتاہے۔
لباس پہننا انسانی خواہش اور فطرت ہے لیکن جو شخص کسی لباس کی شہرت حاصل کرنے یا امارت ظاہر کرنے کی غرض سے پہنے گا اللہ تعالیٰ اُس کو ذلت کا لباس پہنائے گا۔ داناؤں کا قول ہے کہ جوانی میں مست ہو کر چلنے والے کیا کبھی بدمست بھی راہ راست تک پہنچاتا ہے۔اسے کامیابی کی منزل نہیں ملتی جو انکساری سے نہیں چلتا وہ ٹھوکر ضرور کھاتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتاہے کہ لوگ فرد کی تعریف کرتے ہیں، اکثر اوقات وہ باتیں کی جاتی ہیں جو فرد میں نہیں ہوتیں۔ حکیم لقمان نے کہاکہ اگر لوگ تجھے اُس صفت کے ساتھ موصوف بتلائیں جوکہ تیری ذات میں نہ ہو تو اُن کی تعریف سے مغرور مت ہوجا کیونکہ جاہلوں کے کہنے سے ٹھیکری سونانہیں بن سکتی۔
غرور عقل کے لیے بڑی آفت ہے۔ کوئی بھی اس حقیقت پر مت اُتر ائے کہ وہ بڑے آدمی کابیٹا ہے کیا خبر کل کیاہوجائے، متکبروں کی صحبت میں ہی تو انسانیت کا خون ہوتاہے اس سے اجتناب ہی کیاجائے۔ اصل بڑائی وہی ہے جو تمہاری اپنی ذات میں ہو بڑے اپنی بڑائی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے کہ جس شخص میں ذرابھر بھی تکبر ہوگا۔ جنت میں داخل نہ ہوسکے گا تکبر کے معنی ہیں اللہ کے حق میں بندگی کو ادانہ کرنا اور اس کے بندوں کو حقیرگرداننا۔ یہ بھی اہم رہنمائی ہے کہ جو چاہو پہنو بشرطیکہ اندر گھمنڈ، تکبر اور اسراف نہ ہو۔ انسان کا فخر اسی میں ہے کہ فخر نہ کرے، باوجود بڑاہونے کے اپنے آپ کو کمتر خیال کرے۔ تکبر خوش پوشی اور اچھی حالت رکھنے کا نام نہیں بلکہ لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ خوشامدی لو گ انسان میں تکبر کا تخم ہیں، جواپنے آپ کو دوسروں پر فضیلت دے وہی تو متکبر ہوتاہے۔ مغرور شخص کا کوئی دوست نہیں ہوتا اس لیے کہ دوستی میں مساوات ہوتی ہے۔
نیک بخت وہ ہے جو نیکی کرے اور ڈرے اور بدبخت وہ ہے جو بدی کرے اور اکڑے نیک عمل یہ ہے کہ غریب، درویشوں کی تواضع کرے اور سرکش امیروں سے تکبر کرے۔ غرور اور تکبر کوئی علم نہیں، اگر یہ علم ہوتے تو اس کے سند یافتہ بہت ہوتے ہیں۔تکبر،غرور،گھمنڈ کاتوڑ تقویٰ ہے،اللہ کا خوف ہے، جو علم کا چرچا کرے اور تقویٰ کاخیال نہ کرے وہ دین سے دور ہو کر بدنام ہوجاتا ہے۔ عاقل انسان وہی ہے جو اللہ کے لیے تقویٰ کرے اور اپنے نفس کا حساب لیتارہے۔تقویٰ کا ظاہر اور باطن ہے۔ ظاہر اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کی پیروی اور ان کی حدود سے نہ گزرنا اور باطن نیت نیک رکھنا اور اخلاص کو دل سے دور نہ کرنا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کیا خوب کہا ہے کہ بڑائی تقویٰ میں، دولت توکل میں اور عظمت تواضع میں ہے۔ داناکہتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی دانائی تقویٰ ہے اور کمزوریوں میں سب سے بڑی کمزوری بد اخلاقی اور بد اعمالی ہے۔