” ڈرونز اصل مسئلہ نہیں ہیں حضور “

نئی حکومت کے قائم ہونے سے پہلے ہی امریکہ نے ایک اور ڈرون دے مارا اور طالبان کے نائب امیر ولی الرحمن کو ہلاک کر دیا گیا ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وفاق میں قائم ہونے والی حکومت سے کہا کہ وہ ڈرونزرکوائیں یا مار گرائیں، تحریک انصاف حکمرانوں کامکمل ساتھ دے گی تاہم نامزد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے امریکی سفارت خانے کے چارج ڈی افیئرز رچرڈ ہوگلینڈ کو پہنچائے گئے اپنے احتجاج میں اِن حملوں پر گہری تشویش اور مایوسی کااظہار کرتے انہیں گرانے کی بات تو نہیں کی، مگر روکنے کا مطالبہ ضرور کر دیا۔ انہوں نے اصولی بات کی کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، یہ بات بالکل درست ہے کہ ڈرون حملوں میں مطلوب افراد کے ساتھ ساتھ بے گناہ بھی مارے جا رہے ہیں۔
مَیں ایک پاکستانی کے طور پراپنے ہم وطنوں پر برسنے والی اس موت کا کبھی بھی حامی نہیں ہو سکتا، مگر مجھے کہنے دیجئے کہ میں کوئی سیاست دان بھی نہیں،جس نے معروضی حالات سے نظریں چراتے ہوئے ،عوام کو جذباتی نعروں اور تقریروں سے بے وقوف بنا کے ووٹ حاصل کرنے ہیں،مجھے امید بھی یہی ہے کہ میرے جذباتی قارئین میرے اس موقف سے اتفاق نہیںکریں گے کہ قبائلی علاقوں کے حوالے سے پاکستان کے سامنے اصل مسئلہ ڈرونز نہیں، بلکہ یہ تو اصل مسئلے کی ایک ” بائی پراڈکٹ“ ہے، مگر منطق اور توازن سے بات کرنے والے اتفاق کریں گے کہ اگر ہم بنیادی اور حقیقی مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ،تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایشو بھی حل ہونے کی امید پیدا ہو جائے گی۔ مَیں نے میاں نواز شریف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے دانستہ طور پر ایک فقرہ روک لیا تھا ،جس میں انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرو ن حملوں کو پاکستان کی خود مختاری کے منافی قرار دیا ۔ آپ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا واقعی یونیورسٹی روڈ پر باڑہ کراس کرنے کے بعد آپ کو کسی بھی جگہ پاکستان کے آئین اور قانون کی بالادستی نظر آتی ہے اور میری نظر میں یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جسے حل کرکے ہم نہ صرف ڈرون حملوں بلکہ پاکستان میں امن و امان کی بدترین صورت حال کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔
مَیں نے ایک صحافی کے طور پربندوبستی علاقوں سے وفاق اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کا سفر کیا، خیبر ایجنسی سے واپسی کے بعد جب پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں داخل ہوا تو موصوف کی حیرانی اور برہمی دیکھنے والی تھی، فرمانے لگے کہ آپ ہمیں بتائے بغیر وہاں گئے، زندہ واپس آ گئے ہیں، یہی کافی ہے، اب آپ چائے پئیں اور جان بچنے کی خیر مناتے ہوئے رخصت ہوجائیں۔ وہ اتنا غلط بھی نہیں تھاکہ خیبر ایجنسی میں ہر شخص کے پاس اسلحہ تھا، وہاں کے مرکزی علاقے میں جس مارکیٹ میں مختلف قبائل کے سربراہوں یا ان کے نمائندوں سے میری ملاقات ہوئی، اس مارکیٹ کانام ہی چرسی مارکیٹ تھا۔ آپ خیبر ایجنسی کو چھوڑئیے، مہمند ایجنسی کے میرے اور آپ جیسے پڑھے لکھے اور مہذب دکھائی دینے والے لوگوں کے بازار دیکھ لیجئے کہ وہاں اسی طرح چرسی خانے قائم ہیں جیسے میرے ٹمپل روڈ اور لاری اڈے پر چائے خانے ہیں۔ میں بندوبستی ایریا کے بالکل کنارے پر آباد انگریزی زبان کے ایک پروفیسر کے ڈیرے پر گیا، تو ان کے کھیتوں میں افیون کے پودے لہرا رہے تھے۔ وہاں سے منشیات ملک بھر میں اتنی آسانی سے آجاتی ہیں کہ اتنی آسانی سے آپ علاقہ غیر میں گندم بھی نہیں بھیج سکتے۔ شہرت اتنی خراب ہے کہ میں اپنی میڈیا ٹیم کے ساتھ قبائلی علاقوں سے واپس آیا تو میرے چینل کا میرا کولیگ، دو چار کلوچرس نہ لانے پر مجھ پر اور میں اس کی فرمائش پر حیران ہو گیا ،مگر اسی حیرانی میں یہ راز آشکار ہوا کہ میرے شہر کے ہر شیشہ کیفے میںمنشیات اتنی آسانی سے کیسے دستیاب ہوجاتی ہےں۔
یہ تو میرے ذاتی مشاہدات ہیں، مگر کیا آپ نہیں جانتے کہ آپ کی بیس پچیس لاکھ مالیت کی گاڑی ہی چوری ہوجائے تو وہ پاکستان ہی نہیں ، دُنیا کی کوئی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی قبائلی علاقوں سے پانچ، دس لاکھ روپے تاوان دئیے بغیر واپس نہیں لا سکتی ، عام شہریوں اور تاجروں کو چھوڑیئے ، سابق وزیراعظم کا بیٹا ہو یا پنجاب کے سابق گورنرکا، اگر وہ اغوا ہو کر بندوبستی علاقے سے باہر نکل جائے تو آپ اغوا کنندگان کو کروڑوںادا کئے بغیر اس کی صورت نہیں دیکھ سکتے۔ میرے شہروں میں دہشت گردی کی جتنی وارادتیں ہوتی ہیں اُن کے کھرے انہی علاقوں میں جا ملتے ہیں، جہاں سے آپ بجلی کے بل نہیں وصول کر سکتے تو اس علاقے بارے کیا میں نامزد وزیراعظم میاں نواز شریف کے بیان کے اس حصے پر حیرت کا اظہار کر سکتا ہوں، جس میں وہ پاکستان کی خودمختاری کی بات کر رہے ہیں؟
مَیں پھر کہوں گا کہ ڈرونز ایک سنگین مسئلہ ہیں ، مگراصل اور بنیادی نہیں، مجھے انتخابی مہم کے دوران اپنے سینئر صحافیوں کے ساتھ مولانا فضل الرحمن سے ہونے والی ملاقات یاد آ رہی ہے، انہوں نے بجا طو ر پر خبردار کیا کہ افغانستان میں امن قائم ہوتے ہی جو سب سے بڑا مسئلہ پیدا ہو گا وہ پاک افغان سرحد کا ہو گا، ڈیورنڈ لائن کا سو سال کے لئے ہونے والا معاہدہ نومبر1993ءکو ختم ہو چکا، ہمارے قبائلیوں کی موجودہ سرحد کے دونوں اطراف رشتے داریاں اور کاروبار ہیں، لہٰذا افغانستان کے رہنے والوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی ڈیورنڈ لائن کو سرحد کو تسلیم نہیں کرتے۔ مولانا نے ایک سوال کے جواب میں ہنستے ہوئے، جو سب سے خوفناک بات کی تھی وہ اب بھی میرے رونگٹے کھڑے کر رہی ہے کہ افغانستان کا دعویٰ پنجاب کی سرحد اٹک تک ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کے پاس ان علاقوں کے حوالے سے کوئی آئینی، سیاسی، جغرافیائی ، ثقافتی ، لسانی اور تاریخی دعویٰ نہیں، ہم صرف اور صرف موجودہ زمینی حقیقتوں کو برقرار رکھنے کی ضد کرتے ہوئے ان علاقوں کو اپنے وجود کے ساتھ برقرار رکھ سکتے ہیں۔
آپ ڈرونز حملوں کوروکنے کا نعرہ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں، مگر قبائلی علاقوں میں حاکمیت اعلیٰ کے حقیقی خوفناک مسئلے کا سامنا اور حل کرنے پر تیار نہیں کہ جس نے پورے ملک کے عوام اور معیشت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ قبائلی علاقوں میں کس ریاست کا حکم چلتا ہے، اس سوال کا جواب دیجئے،اس کے بعد امریکہ کو ڈرون حملوں سے روک دیجئے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ پاک فوج وہاں جا کے جرائم پیشہ لوگوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرے تاکہ پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے ۔ یا آپ وہاں سٹیٹس کو رکھنا چاہتے ہیں۔ مان لیجئے کہ دُنیا بھر میں جہاد ایکسپورٹ کرنے کی پالیسی ناکام ہو چکی، لہٰذا ڈرونز کو گرانے سے پہلے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو قبائلی علاقوں میں آئین اور قانون کی حاکمیت کا بنیادی مسئلہ حل کرنا ہے، وہاں کے عوام کی اکثریت بہت زیادہ تنگ ہونے کے باوجود ایف سی آر کو ایف آئی آر کے نظام سے تبدیل نہیں کرنا چاہتی، مگر پاکستان کا مفاد بہرحال وہاں سیاسی ڈھانچے اور ادارے قائم کرنا ہے اور یہ کہ وہ علاقہ جرائم پیشہ لوگوں کی محفوظ جنت نہ رہے، وہاں سے منشیات اور دہشت گردی کی پیداوار اور برآمد روک دی جائے۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے عہدہ سنبھالتے ہی کہا کہ اگر وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہوتی توامریکہ ڈرون حملوں کی جرا¿ت نہ کرتا، تین پارٹیاں بدلنے اور تین بار وزارت کا مزہ چکھنے والے سیاست دان سے مجھے عوام کو بے وقوف سمجھنے اور بنانے کی اِسی اہلیت کی امید رکھنی چاہئے۔ اب تو مان لیجئے کہ دنیا آپ کی عینک سے معاملات کو نہیں دیکھتی، اس ایشو کا حل مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تحریک انصاف کی بھی ذمہ داری ہے۔ دنیا کے ممالک کی اکثریت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایشو پر متحد ہے ورنہ وہاں کے شہری کبھی بھی اپنے ٹیکسوں کی کمائی اور فوجیوں کی زندگیاں افغانستان میں ضائع کرنے کی اجازت نہ دیتے،کہنے دیجئے کہ ٹرائبل ایریاز کی نارملائزیشن لوڈ شیڈنگ سے بھی بڑا اور اہم مسئلہ ہے، جو سول ملٹری ریلشن شپ کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہوں تو کہہ دیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ، آپ کی جنگ نہیں، مگر جب میںطارق روڈکراچی سے مون مارکیٹ لاہور اور قصہ خوانی بازار پشاورتک اپنے معصوم شہریوں ہی نہیں ان فوجیوںکو بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں مرتے دیکھتا ہوں، جو ہمارے ہی باپ، بھائی اور بیٹے ہوتے ہیں تو میں آپ کی ہم نوائی نہیں کر سکتا ۔