ہمارے ترکش کے جوہری تیر!

  ہمارے ترکش کے جوہری تیر!
  ہمارے ترکش کے جوہری تیر!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری یہ دنیا عناصرِ اربعہ سے تشکیل پائی ہے۔ یہ آگ، ہوا، پانی اور مٹی کا کھیل ہے جس میں جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان روزِ اول سے اپنے اپنے مداروں (Orbits) میں گردش کر رہے ہیں۔ زندگی اور موت اور فنا اور بقاء کو دائمی حیثیت حاصل نہیں۔ یہ آتی جاتی رہتی ہیں۔ موت، اختتامِ زندگی کا نام نہیں، بقولِ اقبال یہ شامِ زندگی ایک ایسی شام ہے جس سے صبحِ دوامِ زندگی طلوع ہوتی ہے!

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

نجانے کتنے اربوں کھربوں سالوں سے یہ کائنات قائم ہے۔ انسان اپنی عقلی تقویم کے مطابق اسے قبل از مسیح اور بعد از مسیح کا نام دیتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح سے بھی قبل جانے کتنے مسیح پیدا ہوئے اور فنا ہو گئے۔ کائنات کی زندگی کا ایک سائیکل ہے۔ پہاڑی علاقوں میں ایک موسم میں برف گرتی ہے تو دوسرے موسم میں یہی برف پگھل کر پانی بن جاتی ہے جس سے دریا بنتے ہیں جو میدانوں کا رُخ کرکے سمندروں میں جاگرتے ہیں۔ ہمارے کرۂ ارض پر تین حصے پانی ہے اور ایک حصہ خشکی ہے۔ سمندروں  میں پانی سے ایک خاص موسم میں بھاپ اٹھتی ہے، سائیکلون تشکیل پاتے ہیں، ان بادلوں کو ہوائیں میدانوں میں اور پھرپہاڑوں پر لے جاتی ہیں۔ بھاپ کے یہ بادل پانی میں تبدیل ہو کر بارش بنتے اور خشکی سے ہوتے ہوئے سمندروں میں جا گرتے ہیں۔ خشکی اور تری کا یہ گردشی چکر (سائیکل) ازل سے قائم ہے۔ انسان اس کو تبدیل بھی کرتا رہتا ہے اور اس تبدیلی کا سب سے سرگرم عامل، جنگ ہے۔ جنگ سے ہزاروں لاکھوں انسان مر جاتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوتا کہ یہ کرۂ ارض انسانوں سے بالکل خالی ہو جائے۔

ہمارے کرۂ ارض کو قائم رکھنے کے لئے خالقِ ارض و سما نے سورج بنا دیا ہے اور اسے ایک مخصوص فاصلے پر رکھ کر ہماری زمین کی گرمی، سردی، بہار، خزاں اور برسات کا عارضی خالق بنا دیا ہے۔ یہ عارضی خالق، ایک دائمی خالق کا رہینِ احسان ہے۔

انسان بھی تو ایک عارضی خالق ہے جو دوسرے انسانوں کو پیدا کرتا ہے۔ ان عارضی انسانوں کاانجام موت ہے۔ یہ موت ہر انسان اور ہر ذی روح کا بظاہر خاتمہ کر دیتی ہے…… موسموں کے اس تغیر و تبدل کو ہم نے ”ایکوسسٹم“ (Eco System) کا نام دے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود اس ”ایکو سسٹم“ کا رکھوالا ہے جبکہ انسان اسے ختم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ جہاں اللہ کریم انسانوں کو بیماری اور کسی حادثے کا شکار کرکے مار دیتا ہے وہاں یہ عارضی خالق انسان کو اپنے ہاتھوں جنگوں میں جھونک کر موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو انسان بے اختیار بھی ہے اور بااختیار بھی ہے۔ جنگ کرنا، ایک انسان کو مارنا یا زخمی کرنا اس کے اختیار میں ہے جبکہ اسی جنگ میں کسی انسان کو بچا لینا عارضی خالق نہیں، دائمی خالق کے ہاتھ میں ہے۔ گھمسان کا رن پڑ رہا ہو تو بھی ایک نہ ایک انسان اس میں زندہ رہتا ہے جبکہ دوسرا انسان کسی گولی،تیر، کمان، خنجر، نیزے یا توپ کے گولے کا نشانہ بن جاتا ہے…… ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ کھیل کیوں کھیلا جاتا ہے، ہم حادثاتِ جنگ میں کس طرح بچ جاتے یا مر جاتے ہیں، ہماری تدبیریں کیوں الٹی ہو جاتی ہیں اور ہماری تقدیروں کا راز کیا ہے…… یہ سوال  ہر زمانے میں انسان کا دامن گیر رہا ہے لیکن اس کا وہ جواب کبھی سامنے نہیں آیا جو سببِ مرگ کہلاتا ہے یا وجہِ زندگی بنتا ہے…… یہ را زخدا نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے او رکسی کو اس کی ”ہوا تک“ بھی لگنے نہیں دیتا۔

ہمارے والدِ مرحوم ایک سادہ دیہاتی تھے لیکن لکھ پڑھ گئے تھے اور تعلیم یافتہ شہری بن گئے تھے۔ ان کے ارشادات بہت یاد آتے ہیں۔ کہا کرتے تھے کہ ایک وقت آئے گا کہ بارہ بارہ کوس پر صرف ایک دیا جلے گا اور تمام آبادیاں فنا ہو جائیں گی۔ وہ اسے قیامتِ صغریٰ کا نام دیتے تھے۔ ہم اس وقت نہیں سمجھتے تھے کہ قیامتِ صغریٰ کیا ہے اور قیامتِ کبریٰ کیا ہوتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی آیہء مبارکہ کا حوالہ دے کر ہمیں چپ کروا دیا کرتے تھے۔ ایک بار میرے چھوٹے بھائی نے پوچھا: ”ابّا جی! اگر 12،12کوس پر دِیا جلے گا تو اس کا تیل کہاں سے آئے گا؟…… اس کی بتّی کس دکان سے ملے گی؟…… اور دِیا کون کمہار بنائے گا؟

ہمارے بھائیوں کا یہ ’مشترکہ موقف‘ ہوتا تھا جس کو ابّا جی یہ کہہ کر رد کر دیا کرتے تھے: ”اس قسم کی ”فیلسوفیاں“ مجھے نہیں آتیں۔ یہ شیطانی وسوسے ہیں“…… پھر ایک پنجابی کے یہ شعر بھی سنایا کرتے تھے:

بُہتا علم شیطان نے پڑھیا

جُھگّا جائی اوسے دا سڑیا

علموں بس کریں او یار

اِکوّ الف ترے درکار

دوسرے لفظوں میں وہ ہمیں ایک طرح کا ”چھوٹا شیطان“ سمجھتے تھے۔ فرماتے تھے کہ اس طرح ’اِکوّ الف‘ یعنی اللہ کی حاکمیتِ کُل پر سوال نہ اٹھاؤ۔ اللہ کی تقدیر کیا ہے، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے!

پھر فرمایا کرتے کہ اگر اللہ تمہیں افریقہ میں پیدا کردیتا اور تمہارا رنگ حبشیوں جیسا ہوتا اور عقل و خرد کا نام و نشان بھی تمہاری کھوپڑی میں نہ ہوتا تو کیا کرتے؟…… لیکن میرا بھائی ہم سب کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا: ”اگر اللہ ہم کو لندن یا نیویارک میں پیدا کردیتا اور ہمارا رنگ سرخ و سفید ہوتا تو اس میں اللہ کا کیا بگڑتا؟“

تاریخ و جغرافیہ انہوں نے بھی پڑھا ہوا تھا اور ہم بھی پڑھ رہے تھے۔ لیکن انہوں نے انگریزی میں پڑھا تھا  جبکہ پاکستان بننے کے بعد وہ سب کچھ اردو میں منتقل ہو گیا تھا۔ اور وہ اساتذہ جو والدِ مرحوم کے دور میں ان کو پڑھاتے اور سمجھاتے تھے وہ ہمارے دور کے آتے آتے بہت کم رہ گئے تھے اور جوتھے بھی تو وہ مسلمان تھے، جبکہ والد کے دور میں زیادہ تر اساتذہ ہندو ہوا کرتے تھے۔ ہندو اساتذہ اور مسلمان اساتذہ میں پڑھانے کے طور طریقوں میں جو فرق تھا، وہ آج بھی انڈیا اور پاکستان کے اساتذہ میں کسی نہ کسی تناسب میں پایا جاتا ہے۔ والد صاحب کا ایک اعزاز یہ بھی تھا کہ انہوں نے قرآنِ کریم کا ذاتی حیثیت میں مطالعہ کر رکھا تھا اور ترجمہ و تفسیر اس پر مستزاد تھی لیکن ہم پر دوسری درسی کتابوں کا بوجھ چونکہ والد صاحب کے زمانے کے درسی نصاب کے بوجھ سے زیادہ تھا اس لئے بھی ہم ان کا استدلال اور قرآنی حوالوں کا جواب لانے سے قاصر تھے۔ مزید یہ کہ وہ ایک ایسے والد تھے کہ جو سوال اگر ہم نہ بھی پوچھتے تھے تو ہمیں سرزنش کرکے کہا کرتے تھے: ”کیا تم لوگوں نے اپنے آپ کو ارسطو اور افلاطون سمجھ رکھا ہے؟ کم بختو! ارسطو تو سکندراعظم کا بھی استاد تھا!“

دوسری طرف ہمارے علم و ادب کا ”سکیل“ یہ تھا کہ ہم نے سکندراعظم کو ایک مسلمان بادشاہ سمجھ رکھا تھا۔ ہماری کلاس میں سکندر خاں ایک لمبا چوڑا لڑکا تھا اور ہم خیال کرتے تھے کہ سکندراعظم بھی کوئی اتنا ہی ’لمبا چوڑا‘ بادشاہ ہوگا۔ لیکن ارسطو کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کون صاحب ہیں؟…… اور یہ سوال بھی کہ مسلمان بادشاہ کا استاد ’کافر‘ کیسے ہو سکتا ہے، ہماری ”عقل دانی“ سے باہر تھا!…… ہمارے نزدیک ارسطو ایک کافر فلسفہ دان تھا۔ یہ تو بعد میں جا کر معلوم ہوا کہ سکندرِاعظم،آنحضورؐ کی آمد سے بھی تقریباً  ایک ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا۔ وہ انڈیا ضرور آیا تھا لیکن پورس اور سکندر کے معرکے کو ہم کفر و اسلام کا جو معرکہ سمجھتے تھے، اس کی قلعی بہت دیر کے بعد جا کر کھلی۔

ہم ’ایکو سسٹم‘ کی بات کررہے تھے……  ہماری یہ آب و ہوا اور موسم اور فطرت کا نظام اب بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جنگ و جدل کے معرکوں نے جنگلات کا صفایا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایمازون اور انڈونیشیا کے جنگل اب خشک میدانوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں، دریا سوکھ رہے ہیں، سردیوں اور گرمیوں کا گردشی سائیکل اب وہ نہیں رہا جو ہمارے بچپن یا لڑکپن کے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ انسان نے انسانی بستیوں پر جوہری یلغاریں تو اگست 1945ء میں شروع کر دی تھیں لیکن آج بھی جب ان یلغاروں کی تاریخ سامنے آتی ہے تو ”ایکو سسٹم“ گویا "Ecocide" میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے اپنی نسل کی بربادی میں وقت کی رفتار کو تیز تر کر دیا ہے۔ آج دنیا ایک ایسے آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھی ہے کہ جس میں دھواں اٹھتا نظر آنے لگا ہے۔ اس کے بعد لاوا باہر نکلنے میں بہت دیر نہیں لگائے گا۔مستقبل کی تیسری جنگ عظیم کسی بھی وقت رونما ہو سکتی ہے اور اس میں جوہری جنگ کا وہی منظر ابھر کر سامنے آنے والا ہے جس کی تفصیل قرآنِ حکیم کی متعدد سورتوں میں بیان فرمائی گئی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -