ڈاکٹر منظور اعجاز کی آپ بیتی: چند معروضات
شعبہ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی کے ایک سابق طالبعلم اور استاد ڈاکٹر منظور اعجاز کی آپ بیتی بعنوان: ’’ جندڑیے، تن دیساں تیرا تانا‘‘ پنجابی میں شائع ہوئی ہے۔ عنوان کا مفہوم کچھ اس طرح ہے: اے زندگی! میں تجھ سے ہار نہیں مانوں گا۔ اس کے صفحات 208 اور اشاعتی ادارہ ہے، و چار پبلشرز ساہی وال۔ پنجابی اتنی سادہ اور رواں برتی ہے کہ اسے اردو قاری بھی آسانی کے ساتھ پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔
آپ بیتی کا آغاز موضع بُرج والا (ضلع ساہیوال) سے ہوتا ہے، جہاں وہ تقسیم کے ایام میں پیدا ہوئے اور اختتام واشنگٹن پر ہوتا ہے جہاں نہوں نے اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کے مراحل طے کئے۔ قیام پاکستان کے وقت ان کا خاندان ضلع گورداسپور (بھارت) سے ہجرت کر کے برج والا میں آباد ہوا جہاں اسے بھارت میں چھوڑی ہوئی زمینوں کے بدلے میں زمینیں الاٹ ہوئیں۔
ڈاکٹر منظور اعجاز کو بچپن میں پولیو کا صدمہ سہنا پڑا، والدین نے بہت جتن کئے لیکن صحت واپس نہ آئی۔ پون صدی پہلے کے پنجابی سماج کی معاشی، تعلیمی اور رسوم و رواج کی بہت سی دلچسپ جھلکیاں پیش کرنے کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 1968ء میں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہ وہ دن تھے جب پورے ملک کی طرح یونیورسٹی کا ماحول بھی اسلام اور سوشلزم کی بحث سے گرم تھا۔
اس حوالے سے اساتذہ اور طلبہ میں دھڑے بندی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ دائیں بازو کے لوگ اسلامی نظام لانے کے آرزو مند تھے اور بائیں بازو والے پاکستان کو سوشلسٹ ریاست بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے خود مصنف اپنا تعلق بائیں بازو سے بتاتے ہیں۔
بالآخر دونوں نظریاتی گروہوں کے خواب بے تعبیر رہ گئے۔ آج کوئی بھی پاکستانی ایسی نظریاتی بحث میں الجھنا پسند نہیں کرتا۔ خود آپ بیتی کے مصنف جنرل ضیاء الحق کے دور میں امریکہ جا بسے اور وہاں چالیس برس گزار دیئے۔ وہی نہیں، دائیں اور بائیں بازو کے خیالات رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو بالآخر امریکہ ہی راس آیا۔
ڈاکٹر صاحب کی آپ بیتی اس حوالے سے ایک اہم دستاویز ہے کہ اس میں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کی نظریاتی کشمکش کا منظر نامہ پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (Nso) کو پروفیسر عزیز الدین احمد اور ان کے چند ہم خیال دوستوں کی تخلیق قرار دیا اور ساتھ ہی یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اسی تنظیم نے لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ کو پھینٹی لگا کر طلبا برادری میں تشدد کا سلسلہ شروع کروایا تھا۔ (ص: 55)
میرے نزدیک پاکستان میں طلبہ سیاست پر تحقیق کرنے والوں کے لئے یہ آپ بیتی ایک اہم ذریعہ معلومات ہے۔ خاص طور سے اشتراکی رجحانات رکھنے والے طالبعلم طبقے میں تنظیم سازی کا عمل جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، اس کی سرگزشت عبرتناک ہے۔ اس سے پہلے اسی حوالے سے پروفیسر عزیز الدین احمد اور زاہد اسلام کی کتابیں ’’ پاکستان میں طلبہ تحریک‘‘ اور ’’ ترقی پسند طلبہ کی تحریک‘‘ بھی منظر عام پر آئی تھیں دائیں بازو کے طلبہ کی جدوجہد پر سلیم منصور خالد کی کتاب ’’ طلبہ تحریکیں‘‘ بھی دو جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔
اس میں بائیں بازو کے اہم طالبعلم لیڈروں کی بھی یادداشتیں محفوظ کی گئی ہیں لیکن عزیز الدین احمد اور زاہد اسلام کی کتابیں صرف لیفٹ کی جدوجہد سامنے لاتی ہیں۔
زیر نظر آپ بیتی پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاضل مصنف نے سراسر حافظے پر اعتماد کیا ہے، تحقیق سے کام نہیں لیا اس لئے کئی جگہ خلاف واقعہ باتیں بھی رقم کر گئے ہیں۔ مثلاً لکھتے ہیں: ’’ میں بھی دوسروں کی طرح شملہ معاہدے کا مخالف تھا اور جب ذوالفقار علی بھٹو نے اس کے خلاف تحریک چلائی تو اس کا حامی ہو گیا تھا‘‘(ص:39) ڈاکٹر صاحب ’’ تاشقند معاہدہ‘‘ کی جگہ ’’ شملہ معاہدہ‘‘ لکھ گئے ہیں۔
بھٹو نے بھلا اپنے ہی کئے ہوئے معاہدے کے خلاف تحریک کیوں چلانی تھی۔ صفحہ 71 پر فیصل آباد کے جس ’’ جماعتی منڈے‘‘ فیروز کا ذکر کیا ہے، اس کا پورا نام افتخار فیروز تھا او وہ اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے بلا کے مقرر تھے۔
سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں جمعیت کو جو لگا تار کئی سال تک کامیابیاں ملتی رہیں اس میں افتخار فیروز مرحوم و مغفور کی شعلہ نوائی کا بہت دخل تھا۔ اسی صفحہ پر پروفیسر ایم ڈی شامی کا نام صرف ’’ شامی‘‘ لکھا ہے۔ شہزادہ قیصر کو ایک جگہ قیصر شہزاد اور سید سجاد ظہیر کی کتاب ’’ روشنائی‘‘ کا نام ’’ روشنی‘‘ رقم کیا ہے۔
صفحہ 62 پر فاضل مصنف نے لاہور میں بائیں بازو کے ممتاز سیاستدان مولانا عبدالحمید بھاشانی کے جلسے میں ہونے والی گڑبڑ کی ذمہ داری جماعت اسلامی کے حامیوں پر ڈالی ہے۔ حالانکہ یہ واردات ان خفیہ ایجنسیوں کی تھی جو جنرل یحییٰ خاں کو اقتدار تک پہنچانے کے لئے ایسے کام انجام دے رہی تھیں۔ ڈاکٹر منظور اعجاز غالباً بھول گئے ہیں کہ انہی ایام میں نیلے گنبد کے علاقے میں واقع جماعت اسلامی کا دفتر نذر آتش ہوا تھا جس میں مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن جل گئی تھی اور دوسرے دن سارے اخبارات نے اس سانحے کی تصاویر شائع کی تھیں۔ وہ واردات بھی خفیہ ہاتھوں ہی سے انجام پائی تھی۔
ان وارداتوں سے ایک تو بد امنی بڑھ گئی جس نے صدر ایوب کے اعصاب شل کر دیئے اور وہ جنرل یحییٰ کو اقتدار سپرد کرنے پر تیار ہو گئے۔ دوسرے دائیں اور بائیں بازو کے درمیان محاذ آرائی میں شدت آ گئی۔ جماعت اسلامی کے پرانے کارکن آج بھی اپنے دفتر کے جلنے کی ذمہ داری اشتراکی عناصر پر ڈالتے ہیں اور اشتراکی عناصر بھاشانی کے جلسے میں ہڑبونگ مچانے والوں کو جماعت کے آدمی قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ یہاں بائیں بازو کی جماعتیں، خواہ وہ طلبا کی تھیں یا مزدوروں کی، بار بار افتراق و انتشار کا شکار ہوتی رہیں۔ کئی دفعہ اتحاد بھی بنے مگر جلد ہی ٹوٹ پھوٹ جاتے رہے۔
اس کے مقابلے میں دائیں بازو کی جماعتوں کا بھی یہی حشر ہوتا رہا، ان میں جماعت اسلامی نمایاں ترین ہے۔ آج اس کا ووٹ بینک دیوالیہ قرار پا چکا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دونوں تحریکوں کا سارا زور نظریات پر رہا، اپنی زمین کے ماضی اور حال کو معروضی طور پر سمجھنے کی کسی نے کوشش نہ کی۔ ڈاکٹر منظور اعجاز نے اس تلخ حقیقت کا کھلے لفظوں میں اعتراف کر لیا ہے، لکھتے ہیں:
’’ ہم نے پچھلے سالوں میں سوشلزم کے بارے میں روسی اور چینی بہت کتابیں پڑھ لی تھیں مگر مجھے لگتا ہے کہ ہم اپنی دھرتی اور اس کے ٹھوس مسائل کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے ہم سے پہلے جو ترقی پسند تحریک تھی اس نے بھی اپنی دھرتی کی تاریخ اور اس کے ارتقا پر کوئی خاص کتاب نہیں لکھتی تھی‘‘ (ص:63)
راقم الحروف ایک عرصے سے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر آپ لوگ موجودہ ظالم نظام کو بدل کر اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں تو پہلے اس سرزمین پر کار فرما سماجی، معاشی اور ثقافتی قوتوں کی ہئیت اور حکمت عملی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس طرف توجہ دیئے بغیر آپ کی ساری جدوجہد اندھی اور بہری رہے گی، کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا سوائے مایوسی اور بے چارگی کے!