عید الفطر کی فضیلت!

عید الفطر کی فضیلت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ڈاکٹر فیض احمد چشتی

 ”عید“ کا لفظ ”عود“ سے بنا ہے،جس کامعنی ”لوٹنا“ اور”خوشی“کے ہیں، کیونکہ یہ دن مسلمانوں پر باربار لوٹ کرآتاہے اورہرمرتبہ خوشیاں ہی خوشیاں دے جاتاہے، اس لئے اس کو عید کہتے ہیں۔نیزیہ کہ اللہ تعالیٰ ہرسال اس دن اپنے بندوں پرانواع واقسام اورطرح طرح کے انعامات اوراحسانات لوٹاتاہے اور اس دن خوشی ومسرت کااظہارکرنالوگوں کی عادت ہے۔ یہ دن فرزندانِ اسلام کے  لئے نہایت ہی مسرت وشادمانی کادن ہوتاہے۔ یہ دن بچوں، بوڑھوں،جوانوں اورعورتوں سب کے لئے یکساں طورپر خوشیوں کاپیغام لاتاہے اورہر ایک بندہ اپنے غموں، پریشانیوں اور مصائب و آلام کو یکسر بھول کرعیدکی حقیقی خوشیوں اور جشنِ طرب سے لطف اندوز ہوتاہے۔عید اور خوشی کا یہ دن مسلمانوں کا عظیم اور مقدس مذہبی تہوار ہے، جو ہر سال ما ہِ شوال المکرم کی یکم تا ریخ کو انتہا ئی عقیدت واحترام اور خوشی ومسرت کے سا تھ منا یا جا تا ہے۔عید الفطر دراصل تشکر وامتنان، انعا م و اکرام اور ضیافت ِخدا وندی کا دن ہے کہ رمضان المبا رک کا تمام مہینہ عبادت وریاضت، روزوں اور نما زِ تراویح میں مشغول رہنے کے بعد شوال کی پہلی تا ریخ کو اللہ تعالیٰ اپنے عبادت گزار اور اطاعت گزاربندوں کو انعام واکرام،بے شماررحمتیں وبر کتیں، بے حساب اجرو ثواب اور اپنی رضا ایسی بیش بہا دو لت و نعمت عطا فر ما تا ہے۔
عید الفطر! در حقیقت یو م الجا ئزہ اور یوم الانعام ہے، کیوں کہ اس دن اللہ تبا رک و تعا لیٰ اپنے بندوں کو انعام و اکرام، اجرو ثواب اور مغفرت و بخشش کا مژدہ سنا تا ہے۔ عید الفطر کا دن گناہوں کی مغفرت اور نزوِ ل رحمت ِ با ری کا دن ہے۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عبا سؓ سے رو ا یت ہے کہ حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب عید الفطر کی رات آتی ہے، تو اس کا نا م آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ (یعنی انعام و کرام کی رات) لیا جاتا ہے۔ اور جب عید کی صبح ہو تی ہے، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، وہ زمین پر اتر کر تما م گلیوں اور راستوں پر کھڑے ہوجا تے ہیں اور ایسی آواز سے(جسے جنات اور انسانوں کے علا وہ ہر مخلو ق سنتی ہے) پکارتے ہیں کہ اے امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم! اس ربِ کریم کی با رگاہ کی طرف چلو، جو بہت زیا دہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معا ف فرمانے وا لا ہے۔
جب لو گ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے باری تعالیٰ!اس کابدلہ یہ ہے کہ اس کو پوری مزدوری دے دی جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتاہوں کہ میں نے انہیں (رمضان المبارک کے روزوں اور قیام اللیل کے بدلے)اپنی رضااور مغفرت عطاکردی ہے۔اوراللہ تعالیٰ بندوں سے ارشاد فرماتا ہے:اے میرے بندو!مجھ سے مانگو، مجھے میری عزت و جلال کی قسم! آج کے دن تم اپنے اجتماعِ عیدمیں دنیا و آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے میں تمہیں عطا کروں گا…… میری عزت وجلال کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہارے عیوب پرپردہ ڈالوں گا اور تمہیں مجرموں اورکافروں کے سامنے رسوا نہیں کروں گا،پس اب تم مغفور (بخشے ہوئے) ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ جاو، تم نے مجھے راضی کر لیا اور میں تم سے راضی ہو گیا۔ فرشتے آج عیدکے دن امت ِمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوملنے والے اس اجروثواب کودیکھ کر بہت زیادہ خوشیاں مناتے ہیں۔ (الترغیب والترھیب/ مجمع الزوائد)
اسلام کا فلسفہئ عید الفطر: قرآنِ مجید کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ قومیں اور امتیں بھی عید منایا کرتی تھیں۔کسی خاص دن خوشی اور مسرت کا اہتمام کر کے عید منائی جاتی تھی۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی قوم بھی ایک خاص دن عید و خوشی منایا کرتی تھی اور اس دن شہرسے باہرایک کھلے میدان میں تین دن تک میلہ لگتا تھا،جہاں لوگ اپنے اپنے انداز میں خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ ہرقوم کا خوشی منانے کادن اورعید منانے کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا تھا،مگر حضور تاج دارِختم نبوت پیغمبر انقلاب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بعثت مبارکہ کے بعد عیداورخوشی منانے کا انداز اور طریقہ ہی بدل گیا۔ اسلام سے قبل عیدوں میں لہو و لعب،کھانا پینا اور کھیل کود ہوتا تھااور اب عید کے دن نمازِعید اور ذکرِالٰہی ہوتا ہے۔ پہلے عیدوں میں غریبوں کو دور کیا جاتا تھا اور اب غریبوں کوگلے لگایا جاتا ہے۔ پہلے عیدوں میں فضول خرچی اورخرافات ہوتی تھیں اوراب عیدکے دن صدقہ و خیرات اور فطرانہ اداکیاجاتاہے۔
ادائے صدقہئ فطر: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خوشی کی وہ تقریب جس میں غریب اور نادار لوگوں کو شریک نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ اور اسلام کی نظر میں وہ سخت ناپسندیدہ ہے۔ اس لئے حضور رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے کہ”روزوں کی عبادت اس وقت تک زمین وآسمان کے درمیان معلق(لٹکی ہوئی یعنی بارگاہ ِ خداوندی میں غیر مقبول) رہتی ہے جب تک کہ صاحب ِنصاب مسلمان صدقہئ فطر ادا نہیں کرلیتا“۔ (صحیح مسلم/ جامع ترمذی)اسی طرح ایک اورحدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ: صدقہئ فطرروزوں کو لغو اورگندی باتوں سے پاک کرنے کے لئے اور مسکینوں کی روزی کے لئے مقررکیا گیا ہے“۔ (سنن ابی داؤد)صدقہئ فطرکی ادائیگی سے اہل ِایمان کودوفائدے حاصل ہوتے ہیں، روزہ کی حالت میں جو خراب اور گندی باتیں زبان سے نکلیں، صدقہئ فطرکے ذریعے روزہ ان سے پاک ہوجاتاہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عید کے دن ناداروں اور مسکینوں کی مددہوجاتی ہے اور وہ بھی عیدکی خوشیوں میں شریک ہوجاتے ہیں۔صدقہئ فطرادا کرنے  والے شخص کو جس قسم کی گند م یاآٹا خود استعمال کرتا ہے اس کے سوادوکلو گرام یا اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔واضح رہے کہ صدقہ ئ فطر کے واجب ہونے کے لئے روزہ رکھنا یا بالغ ہوناشرط نہیں ہے۔
نمازِ عید اور فرزندانِ اسلام: عیدکے دن تمام صاحبانِ ایمان مساجداورعیدگاہوں میں حاضرہوکراپنے رب تعالیٰ کے حضور نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ نمازِ عید ادا کرتے ہیں اوراشک ِندامت بہاکراپنے گناہوں، خطاؤں اورلغزشوں سے توبہ کرتے ہیں اوراپنے ملک و قوم کی سلامتی، استحکام اوربقاء کے لئے اور ملت اسلامیہ کے اتحادواتفاق،امن وسلامتی اورخوشحالی کے لئے دعائیں مانگتے ہیں۔ نمازِعیدکایہ منظرکتناایمان افروز اور روح پروَر ہوتاہے کہ آج کے عظیم دن میں خصوصاًنمازِعید میں امت ِمسلمہ کا اخوت وبھائی چارے کا منظر پیش ہوتا ہے جس میں تمام اہلِ ایمان کارنگ ونسل کے فرق وامتیاز کے بغیربڑایمان افروزاورروح پروراجتماع ہوتاہے اوراس میں امیر و غریب، حاکم و محکوم، شاہ وگداسب نمازِعیداداکرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں اللہ تعالیٰ کے حضورسجدہ ریز ہوتے ہیں اور ایک ہی وقت میں سب کی زبان پر ایک ہی کلمہ … ایک ہی تلاوت…… ایک ہی ذکر…… ایک ہی تسبیح وتحمیداور ایک ہی دعا ہوتی ہے……امت ِ مسلمہ عید کے موقع پر اپنے خالق ومالک کے حضور سر بہ سجود ہو کر اطاعت و بندگی کی عملی تصویرپیش کرتی ہے۔
اتحادواتفاق کا درس عیدالفطر کا عظیم تہواروسیع پیمانے پراخوت وبھائی چارے اوراتحاد اتفاق کا درس دیتاہے۔اسی اتحاد وا تفاق سے مسلمانوں کے قلوب واذہان کومعمور کرنے کے لئے نمازِعید کااہتمام کیاجاتاہے۔آیئے ہم اللہ تعالیٰ کے حضورخلوصِ دل سے یہ عزمِ مصمم کریں کہ آج سے ہماراجوبھی قدم اٹھے گا، آج سے ہماری جو بھی آوازاٹھے گی آج سے ہم جو بھی کام کریں گے،وہ اسلام کی سربلندی، امت ِمسلمہ کے اتحاد واتفاق اور خصوصاً اپنے ملک وملت اورقوم ومعاشرہ کی بہتری اور استحکام کے لئے کریں گے۔ اورآج سے ہم اپنے درمیان پھیلی ہوئی ہرقسم کی نفرتوں، اختلافات اورلسانی ومسلکی تعصبات کوختم کریں گے اور اتحادواتفاق،مساوات اور بھائی چارے کو فروغ دیں گے اورہرقدم پرمحبتوں کے چراغ جلائیں گے۔
عیدکے سنن وآداب
عیدالفطر کے دن حسبِ ذیل کام کرنا سنت اور مستحب ہیں۔
(1) حجامت بنوانا (2)ناخن ترشوانا
(3) مسواک کرنا (4)غسل کرنا
(5) نئے یاصاف ستھرے کپڑے پہننا (6)خوشبو لگانا
(7) عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز(طاق عدد میں)کھانا
(8) نمازِ عید سے پہلے صدقہئ فطر ادا کرنا
(9) صبح کی نماز مسجد میں پڑھ کر عیدگاہ چلے جانا
(10) راستے میں تکبیرات تشریق پڑھنا
(11) عیدگاہ آتے جاتے راستہ تبدیل کرنا
(12) خوشی ومسرت کا اظہارکرنا 
(13) آپس میں عید کی مبارک باد دینا
(14) بعدازنمازِعید مصافحہ ومعانقہ کرنا(یعنی گلے ملنا)،وغیرہ
عیدگاہ آتے جاتے راستہ تبدیل کرنا
مسنون یہ ہے کہ جس راستے سے نمازِعید پڑھنے کے لئے عیدگاہ جائے تو نمازِ عید پڑھ کر اس راستے کے بجائے دوسرے راستے سے گھر آئے۔چنانچہ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید کے دن (عیدگاہ آتے جاتے)راستہ تبدیل فرماتے تھے“۔ (صحیح بخاری، مشکوٰۃ المصابیح)علماء کرام فرماتے ہیں کہ راستہ تبدیل کرنے میں چند حکمتیں یہ ہیں: دونوں راستے نمازی کی عبادت اورذکر کی گواہی دیں۔ان راستوں کے رہنے والے جن وانس اس کے ذکر اور عبادت کے لئے گواہ ہوں۔ دونوں راستوں کو ”جائے عبادت“کی گزر گاہ بننے کی فضیلت حاصل ہو۔ دونوں راستوں پر شعائر ِاسلام کا اظہار ہو۔ متعدد جگہوں پر ذکر ِالٰہی کا اظہار ہو۔
دونوں طرف کے رہنے والے رشتہ داروں اور دوست واحباب سے ملاقات ہوجائے۔ راستے میں اگر قبرستان ہو تو قبروں کی زیارت کاموقع بھی حاصل ہوجائے۔
نمازِعید کے لئے جانے والے نمازیوں کے ذکر سے دونوں راستوں کے بے نمازیوں کے ضمیرپرضرب لگے اور انہیں یہ خیال آئے کہ ایک یہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے جا رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ جنہیں سال کے بعد بھی نماز پڑھنے کا ہوش نہیں ہے۔(شرح صحیح مسلم: جلد2صفحہ661)
ماہِ شوال کے چھ (6) روزے
حضرت ابو ایوب انصاری ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ”جس شخص نے رمضان المبارک کے (سارے) روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال میں چھ (6) روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے کی مثل ہے“۔ (صحیح مسلم،مشکوٰۃ المصابیح) امام یحییٰ بن شرف نوویؒ (متوفی676ھ) لکھتے ہیں کہ عیدالفطر کے بعد شوال المکرم کے یہ 6 روزے پے درپے اور متواتر رکھنے چاہئیں اور اگر یہ روزے متفرق کرکے رکھے یاشوال کے آخر میں رکھے تب بھی فضیلت حاصل ہو جائے گی۔ علماء کرام بیان کرتے ہیں کہ یہ 6 روزے ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر اس لئے ہوں گے کہ 1 نیکی کااجر10 گنا ہوتا ہے۔      ٭٭٭
                   ٭٭٭

final

مزید :

ایڈیشن 1 -