گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 69
بعد میں میری ملاقات جب لارڈ الیگزنڈر سے ہوئی تو انہوں نے کہا ’’سمجھ نہیں آتا کہ آپ نے ایسی تقریر کیوں کی تھی؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’وہ تقریر ضرور وجدانی ہوگی کیونکہ میرا پہلے سے تقریر کا کوئی ارادہ نہ تھا۔‘‘ میرے نزدیک اولیت ان فرائض کو حاصل ہے جو عوام کی طرف سے مجھ پر عائد ہوتے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر برطانیہ کی کنزریٹو حکومت برسراقتدار ہوتی تو وہ اپنی اس امید پر ہندوستان کو ہرگز تقسیم نہ کرتی کہ ہندوستانی فوج مشرق وسطیٰ میں متحد اور معمول کی طرح مضبوط رہے گی۔ وہ یہ سوچنے سے معذور تھے کہ متحدہ ہندوستان میں کسی مسلمان کو فوج کا کمیشن نہیں ملے گا۔ جیسا کہ اب عملاً تقسیم کے بعد ہندوستان میں نظر آرہا ہے۔
مجھے بعض مسلمان وکلاء کے بارے میں معلوم ہے کہ تقسیم کے بعد انہوں نے ہندوستان میں قیام کو ترجیح دی لیکن انہیں ایک بھی مقدمہ نہیں ملا۔ مسلمان موکل بھی بعض دفعہ اس اندیشہ کے تحت ہندو وکیل کے پاس جاتے تھے کہ انہوں نے اگر کسی مسلمان وکیل کی خدمات مول لیں تو ہندو مجسٹریٹ ان کے حق میں متعصبانہ فیصلہ کریں گے۔ ہم سب جانتے تھے کہ اگر ہندوستان متحد رہا تو ہم مسلمانوں کے خلاف یہاں امتیازی سلوک کیا جائے گا اور ہمیں اچھوتوں کی طرح زندگی گزارنا پڑے گی۔ ہم نے آزادی کی راہ میں مذہب کو اپنا معاون بنایا اور اس حقیقی خطرہ سے تقویت حاصل کی کہ متحدہ ہندوستان میں یہ مذہب ختم ہوجائے گا۔ آزادی کے بعد سے کاروبار، تجارت اور صنعت، غرض سبھی شعبوں نے ہماری توقعات سے کہیں زیادہ کامیابی اور خوشحالی حاصل کی۔ اقتصادی خوشحالی کا انحصار سیاسی اقتدار پر ہے۔ مطالبہ پاکستان کے حق میں ہمارے پاس یہ ایک اور مضبوط دلیل موجود تھی۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 68 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فرقہ پرستی کے جنون کے باعث، نہتے عوام کے وحشیانہ اور جنونانہ قت کے جو واقعات اس برصغیر میں رونما ہوئے ان کا بیان اب سے پہلے بار ہ کیا جاچکا ہے اور اس کی مذمت بھی کی گئی ہے تاہم یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مہذب اقوام کے لعن طعن کرنے کے باوجوع عملاً اس کا کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا کیونکہ تنگ نظری، ہٹ دھرمی اور تعصب، کم یا زیادہ بہرحال انسان کے ضمیر میں شامل ہے اور دنیا میں ہر جگہ ان شرپسندانہ جذبات کو بہت جلد اشتعال میں لایا جاسکتا ہے۔ درحقیقت ہر شخص اپنے کسی آشنا یا عزیز کے حوالے سے ان مجنونہ فسادات سے متاثر ہوا تھا۔ میرے معاملہ میں یہ افتادگزری کہ خود میری بیوی کی زندگی کا خطرہ میں تھی۔ وہ 1947ء کے موسم گرما کا زمانہ کلو کی وادی میں اپنے مکان میں گزار رہی تھی۔
لندن کے ایک سرکردہ وکیل سرسیرل ریڈکلف کو حد بندی کمیشن کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔ کمیشن کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان، ان مقامات پر دونوں مملکتوں کی حدود متعین کرنی تھی جہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے اکثریتی علاقے ختم ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی مدد کے لئے لاہور ہائیکورٹ سے دو مسلمان اور دو غیر مسلم ججوں کا انتخاب کیا۔ اس طرح ہر دو فریق کے ووٹ کا توازن برقرار رکھنا ممکن تھا کیونکہ یہ بات گویا طے شدہ تھی کہ مسلمان پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے اور دوسرے لوگ ہندوستان کی تائید میں۔ اس طرح ریڈ کلف کو ہمارے مقدر کے فیصلہ کا مکمل اختیار دے دیا گیا تھا۔ جب میں نے قائداعظم سے اس اندیشہ کا ذکر کیا کہ آپ نے اپنی تقدیر کو فرد واحد کے ہاتھ میں دے کر بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے۔ مناسب یہ تھا کہ آپ لندن ہائیکورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ایک کمیشن کے تقرر کا مطالبہ کرتے۔ قائداعظم نے میری اس بات سے اتفاق کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ میں نے جس معاملہ پر پہلے ہی اتفاق کرلیا ہے اب اس سے پھر جانا میرے لئے ممکن نہیں۔ ہم دونوں بڑے خلوص دل یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ سرسیرل اس فیصلہ میں اپنے پیشہ کی اعلیٰ روایات کا احترام کریں گے۔
غیر رسمی تقسیم کی رو سے پٹھانکوٹ کا علاقہ پاکستان میں آتا تھا۔ اس طرح کشمیر میں ہندوستانی فوج کے داخلہ کا راستہ مسدود ہوجاتا تھا لیکن ان دنوں یہ افواہ گشت کررہی تھی کہ حد بندی کا فیصلہ لاہور میں کیا جاچکا ہے اور ابتدائی حد بندی کی توثیق بھی ہوچکی تھی۔ کمیشن کے ایک جج نے مجھے بتایا کہ ان کے اجلاس میں اس فیصلہ کا فی الواقع اعلان کردیا گیا تھا لیکن سرسیرل جب دہلی پہنچے تو انہوں نے اس فیصلہ میں ترمیم کردی اور پٹھانکوٹ ہندوستان کے حوالہ کردیا۔ اس طرح انہوں نے ہندوستان کو وہ راستہ مہیا کردیا جس سے ہوکر ہندوستانی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئیں اور مسلمانوں کے اس اکثریتی علاقہ پر قابض ہوگئیں۔
پاکستانی لوگ ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن سے سخت برہم تھے۔ ماؤنٹ بیٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہی نے ریڈ کلف کو اپنے ابتدائی فیصلہ میں ترمیم پر آمادہ کیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ماؤنٹ بیٹن کی اس کارروائی کا ہمارے پاس کوئی ثبوت بھی ہے یا نہیں تاہم یہ بات ہمیشہ میرے دل میں چٹکیاں لیتی رہی کہ ریڈ کلف سے کبھی اپنے فیصلہ میں مبینہ ترمیم کا سبب دریافت کروں گا۔
مجھے یہ موقع 1956ء کے موسم خزاں میں مل گیا۔ نیویارک میں مسٹر ایس ٹیس سیلیگمان نے مجھے دن کے کھانے پر مدعو کیا۔ لارڈ کلف بھی اس دعوت میں شریک تھے۔ کھانا ختم ہونے کے بعد میں نے ان سے کہا ’’میں ایک سوال دریافت کروں، آپ برا تو نہیں مانیں گے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’نہیں‘‘ اور خفیف سا مسکرائے۔ غالباً انہوں نے متوقع سوال کو بھانپ لیا تھا۔
میں نے کہا ’’آپ نے گورداسپور کے بارے میں دبلی پہنچنے کے بعد اپنا فیصلہ بدل کیوں دیا تھا؟‘‘
انہوں نے جواب دیا ’’کیونکہ مجھے یہ احساس ہوا کہ دریا بہتر حد بندی کا کام دے گا۔‘‘
ممکن ہے انہوں نے خلوص سے یہ محسوس کیا ہو کہ دریا ایک بہتر حد بندی کا کام دے گا کیونکہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں بھی کئی مقامات پر دریا کو بین الاقوامی سرحد کا درجہ دے دیا تھا۔ ہمارے اخبارات نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور لارڈریڈ کلف دونوں کو مصنوعی اور غیر منصفانہ سرحدوں کے تعین کا ملزم گردانا اور ان پر کڑی نکتہ چینی کی کیونکہ ہمارے خیال کے مطابق یہ حد بندی ہندوستان کی ضرورت کے مطابق کی گئی تھی۔ لارڈ ریڈ کلف کو حد بندی کے فیصلہ کا اعلان دہلی میں 15 اگست کو ہی کردینا چاہیے تھا لیکن اس کا اعلان 16کو ہوا جب لارڈ کلف کراچی سے جاچکے تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ کراچی میں احتجاجی مظاہروں سے ڈرگئے تھے۔ یہ احساس جرم نہیں تھا تو اور کیا تھا؟
میری ملاقات لارڈ مونٹ بیٹن سے 1957ء میں ہوئی۔ وہ پہلے ’’سی لارڈ‘‘ کی حیثیت سے ساؤتھ کوسٹ کی بندرگاہ میں ’’بابر‘‘ نامی جہاز میرے حوالے کرنے کے لئے آٗے تھے اور میں بطور وزیر خارجہ پاکستان کی طرف سے اسے وصول کرنے گیا تھا۔ کئی سال کے بعد ہم دونوں کے درمیان پہلی بار بات چیت ہوئی۔ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو دہلی میں سپریم کوکمانڈر کی حیثیت سے جانتا تھا۔ اس وقت میں خود وائسرائے کی کونسل میں وزیر دفاع تھے۔ وائسرائے کی بدقسمتی سے گورنر سرایون جنکنز لاہور میں اپنی تجوری میں ایک نقشہ چھوڑ گئے تھے جو ماؤنٹ بیٹن کے سیکرٹری مسٹر جارج ایبل آئی سی ایس نے انہیں فراہم کیا تھا۔ یہ نقشہ ہمیں اپنے دوست سرفرانسس موڈی کے توسط سے ہاتھ آگیا۔ سرفرانسس، آزاد پاکستان میں پنجاب کے پہلے گورنر تھے۔ انہوں نے نقشہ مسٹر جناح کو بھجوادیا۔ اس الزام کے خلاف لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پاس واقعی کوئی عذر نہیں تھا کہ مسلمانون نے پاک و ہند کے مشترکہ گورنر جنرل کی حیثیت سے جب ان کا نام مستر د کردیا تو انہوں نے ایک مشتعل مزاج بندر کا سارویہ اختیار کرلیا۔
سرفرانسس موڈی تقسیم سے پہلے کئی برس تک سندھ کے گورنر رہ چکے تھے۔ مسٹر جناح نے ان کی انصاف پسندی اور لیاقت کا انعام یہ دیا کہ انہیں قیام پاکستان کے بعد پنجاب کا گورنر مقرر کردیا۔ مسٹر جناح کی رحلت کے بعد ہمارے بعض نوجوان لیڈروں کے کہنے پر مسٹر لیاقت علی خان نے موڈی کو سبکدوش کردیا۔ یہ اقدام میرے خیال میں قبل از وقت تھا۔ موڈی کی یاد بہت سے لوگوں کو اور خاص طور پر مجھے بہت عزیز ہے۔ وہ جب وائسرائے کی کابینہ کے رکن تھے تو میں بھی ان کا رفیق کار تھا۔
مئی 1947ء میں میری اہلیہ لاہور سے ضلع کانگڑہ چلی گئیں جہاں ان کا مکان تھا۔ انہوں نے انتخابات اور سول نافرمانی کی تحریک میں بڑی جانفشانی سے کام کیا تھا اور اب آرام کرنا چاہتی تھیں۔ کلو کی اس حسین و پرفضا وادی میں یہ مکان میں نے انہیں ایک سال قبل خرید کر دیا تھا کیونکہ انہیں پہاڑی علاقہ اور مچھلی کا شکار بہت پسند ہے۔
ضلع کانگڑہ ہندو اکثریت کا علاقہ تھا لہٰذا پاکستان میں اس کی شمولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن یہ بات تو ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ آئی تھی کہ برصغیر کی تقسیم وہ صورت اختیار کرے گی جو اس نے بعد میں اختیار کی۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ علیحدگی امریکہ اور کینیڈا کی طرح ہوگی۔ یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ شہریوں کی وہ املاک جو دوسرے ملک میں ہوں گی ضبط کرلی جائیں گی بلکہ تباہ کردی جائیں گیا ور ان کے مالکوں کو قتل کردیا جائے گا۔
میری اہلیہ کا خوبصورت مکان اور تین ایکڑ کا شاداب باغ ایک سنسان اور پرسکون علاقہ میں واقع تھا۔ بدقسمتی سے اس کا بھی وہی حشر ہوا جو دوسروں کی جائیدادوں کا ہوا تھا۔ سارا مکان اور باغ نظر آتش کردیا گیا اور میری اہلیہ کو جان بچا کرچند نوکروں کی معیت میں بھاگنا پڑا۔ پٹھان کوٹ کے راستے میں منڈی کے راجہ کی چھوٹی سی پہاڑی ریاست واقع ہے۔ راجہ صاحب میرے پرانے دوست ہیں۔ انہوں نے میری اہلیہ کو پناہ دی اور وہ وہاں تین ہفتے تک چھپی بیٹھی رہیں۔ بالآخر ستمبر 1947ء کے وسط میں راجہ صاحب اور بعض دوسرے ہندو احباب نے انہیں بحفاظت امرتسر پہنچادیا اور وہ پاکستانی حکام کی پناہ میں آگئیں۔ اس تجربہ نے میری بیوی کے کردار پر گہرااثر ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ستم رسیدہ، لاچار اور نادار لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتی ہیں۔ جب ان کی واپسی کی اطلاع ملی تو اخباری نمائندوں کا ایک ہجوم ان کے گرد جمع ہوگیا لیکن انہوں نے یہ سوچ کر کچھ بتانے سے انکار کردیا کہ کہیں ان کے کسی بیان سے مجنونانہ نفرت اور قتل و غارت گری کے جذبات کو شہ نہ ملے۔(جاری ہے)