پھر نئے بلدیاتی انتخابی نظام کا تجربہ؟

   پھر نئے بلدیاتی انتخابی نظام کا تجربہ؟
   پھر نئے بلدیاتی انتخابی نظام کا تجربہ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے،مگر پاکستان میں دلچسپ صورتحال ہے گزشتہ نصف صدی سے باریاں لینے والی حکومتوں نے کبھی خوشی سے بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے پاکستان میں کئی بلدیاتی نظام متعارف ہو چکے ہیں عملاً بلدیاتی انتخابات اب تک آمروں نے کروائے ہیں کبھی بی ڈی ممبر، کبھی چیئرمین، کبھی ناظم اور کبھی صرف کونسلر، کئی  نظام اب تک آزمائے جا چکے ہیں، موجودہ حالات میں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو مجبوری میں عدالت عالیہ کے حکم پر ہوئے۔ اسلام آباد میں عدلیہ کے ساتھ جمہوری پنڈتوں کی آنکھ مچولی بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے، عدالت کا دباؤ بڑھا تو قانون سازی  کر کے سب کچھ بے رنگ کر دیا گیا۔پنجاب میں لاہور ہائیکورٹ کے واضح احکامات بار باررپورٹ طلب کیے جانے کے بعد مریم نواز صاحبہ کی حکومت نے نئی قانون سازی کرتے ہوئے نئے بلدیاتی نظام کی منظوری دی ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے عدالت کے دو ٹوک احکامات کے بعد پنجاب اسمبلی سے بلدیاتی نظام کی قانون سازی ہو نے کے باوجود جائزہ لیا جا رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے ہیں تو نتائج کیا ہوں گے؟آٹھ فروری کے انتخابات نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں کو بوکھلا کر رکھ  دیا ہے۔سندھ میں جو بلدیاتی نظام رائج کیا گیا ہے؟ جس انداز میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے بعد منتخب نمائندوں کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے ہیں وہی خوف پنجاب حکومت کو لاحق ہے، حالانکہ پیپلزپارٹی کے ذمہ داران صدر آصف علی زرداری سے پنجاب حکومت کے خلاف تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد پنجاب میں فوری الیکشن کروانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔میاں محمد نواز شریف بھی وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز (صاحبزادی) کو حالات کا جائزہ لے کر الیکشن کروانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ گزشتہ دس سال کے زائد عرصہ سے الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے کوئی جماعت بھی حکمرانوں کے طرزِ عمل کو دیکھتے ہوئے اعتماد  کے لئے تیار نہیں ہے۔

نئے بلدیاتی نظام کا جو خاکہ سامنے آیا ہے اس میں ابہام موجود ہے۔ الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوں گے یا غیر جماعتی بنیادوں پر، اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی مداخلت بند ہونے کے خدشے نے اور ابہام پیدا کر دیا ہے۔پنجاب حکومت کی طرف سے منظور ہونے والے نئے بلدیاتی نظام میں ضلع کونسل کو ختم کر دیا گیا ہے، ڈی سی کو بااختیار بناتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں اتھارٹی بنانے کا فیصلہ ہوا ہے اس سے پہلے چیئرمین ضلع کونسل ہوتا تھا جو بااختیار ہوتا تھا، ڈی سی وغیرہ ان کے ماتحت کام کرتے تھے اب جمہوریت کی نرسری کی آبیاری عوامی نمائندوں کے ذریعے کم اور بیورو کریسی کے ذریعے زیادہ کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ جرمانوں کا اختیار بھی ڈی سی کی نگرانی میں بننے والی اتھارٹی کے ذمہ ہو گا۔بلدیاتی ایکٹ2025ء کے تحت یونین کونسل بنیادی حکومتی اکائی ہو گی،یونین کونسلوں کو اپنے اپنے علاقوں میں ثالثی کونسل کے اختیارات بھی ہوں گے، بغیر اجازت کھدائی پر دو ہزار روپے جرمانہ، ہسپتال اور سکولوں کے قریب ڈھول، میوزک یا شور کرنے پر پانچ ہزار روپے جرمانہ ہو گا، لوکل گورنمنٹ بل جو اسمبلی نے قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا ہے اس میں یونین کونسل کو اختیارات دینے کی بات ہوتی ہے، مگر عملاً  ہماری سڑکوں کی تباہی ہمارے اداروں نے  ہی کی ہے، کھدائی کی بات اگر کر لی جائے تو دیکھا گیا ہے نئی سڑک بنی، افتتاح ہوا ہو تھوڑے دِنوں بعد ٹیلیفون، سوئی گیس یا واسا والے آتے ہیں درمیان سے کھدائی شروع کر دیتے ہیں اہل محلہ تو دور کی بات وہ کسی سے اجازت لینا بھی گوارہ نہیں کرتے اندھیر نگری چل رہی ہے گڑھے کھود کر پائپ ڈالتے ہیں پھر آدھے گڑھے بھر کر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔اہل علاقہ اور گزرنے والے کئی کئی ماہ خوار ہوتے ہیں،گاڑیاں خراب کرتے ہیں، حکومتی ادارہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔اب بلدیاتی نظام کا پنجاب حکومت جو تجربہ کرنا چاہتی ہے اس میں خوف زیادہ نظر آتا ہے قائمہ کمیٹی کے سپرد کئے گئے بل کے مطابق یونین کونسل کا چیئرمین اور وائس چیئرمین ہو گا ان کا انتخاب عوام براہ راست نہیں کریں گے بلکہ ان کا انتخاب براہ راست منتخب ہونے والے کونسلر شو آف ہینڈ کے ذریعے کریں گے۔یونین کونسل کے 9 کونسلر ہوں گے، جو براہِ را ست منتخب ہوں گے اس کے علاوہ خواتین اقلیتوں،یوتھ، کسان، لیبر کے لئے چار نشستیں مخصوص ہوں گی۔ کونسلر حضرات سے مناسب نمائندگی کے مطابق بھی تجویز زیر غور ہے اگر20کونسلر کھڑے ہوتے ہیں جو اوپر سے زیادہ ووٹ لینے والا پہلے نمبر پر،اسی طرح دوسرا اور9 تک کامیاب قرار دیئے جائیں گے اس حوالے سے ابھی مشاورت جاری ہے،تحصیل کی سطح پر چیئرمین اور دو وائس چیئرمین ہوں گے مخصوص نشستوں کے علاوہ تمام یونین کونسلوں کے چیئرمین ممبر ہوں گے۔شہری علاقوں میں ٹاؤن کارپوریشن  ہو گی جس کا ایک میئر، دو ڈپٹی میئر ہوں گے،مخصوص نشستوں کے علاوہ یونین کونسلوں کے چیئرمین ممبر ہوں گے۔ میونسپل کمیٹی میں ایک چیئرمین اور وائس چیئرمین  ہو گا یونین کونسلوں کو اپنے اپنے علاقوں میں ثالثی کونسل کے اختیارات بھی ہوں گے، جرمانوں کی نئی شرح مقرر کی گئی ہے،43 مختلف امور پر جرمانوں کے ٹکٹ جاری ہوں گے۔کھدائی،میوزک شوز کرنے، کوڑا کرکٹ پھینکنے،اشتہار بازی، ہسپتالوں، سکولوں کے نزدیک شور کرنے سمیت مختلف مدعات طے کی جا رہی ہیں اس میں درخت کاٹنا، بغیر اجازت منڈی مویشیاں لگانا، ٹرانسپورٹ اڈا قائم کرنا وغیرہ شامل ہوں گے۔قائمہ کمیٹی کی طرف سے مختلف تجاویز شامل کیے جانے کے بعد بلدیاتی ایکٹ2025ء دو ماہ بعد دوبارہ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ ایکٹ کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والی بہت سی شقوں کو کلیئر نہیں کیا گیا۔ البتہ پنجاب کے  عوام خوش ہیں، پنجاب حکومت الیکشن کروانے کے حوالے سے کام کر رہی ہے دو ماہ بعد نہیں،چھ ماہ بعد الیکشن ہوں جائیں یقین مانیں گراس روٹ لیول پر بڑے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔بلدیاتی ادارے نہ ہو نے سے درجنوں مسائل ایسے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ یونین کونسل کے نظام میں ہر آنے والے دن میں ابتری بڑھ رہی ہے۔ایڈمنسٹریٹر ہونے کے باوجود نظام فعال نہیں ہے، بداعتمادی اور بے یقینی کا دور دورہ ہے۔ راقم کی سالہا سال کے بلدیاتی نظام کے تجربوں کے بعد نئے پلان کا دِل سے خیر مقدم کرتے ہوئے درخواست ہے بلدیاتی نظام میں سیاست نہ لائی جائے خالصتاً سوشل سروسز فراہم کرنے والے سوشل ورکرز کو موقع دیا جائے،عوام جس کو منتخب کریں اس کو اختیارات دیئے جائیں اگر غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کا تجربہ کر لیا جائے تو زیادہ مفید اور سود مند ہو سکتا ہے البتہ الیکشن ضرور ہونے چاہئیں۔

مزید :

رائے -کالم -