نئے مالی سال کا آغاز اور مہنگائی
لیں جناب جولائی کا مہینہ شروع ہو گیا۔ وہ مہینہ جس کا انتظار حکومت کو تھا‘ آئی ایم ایف کو تھا‘ اور عوام کو بھی تھا۔ حکومت کو اس لیے تھا کہ اس نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر کے دکھانا تھیں تاکہ ایک اور اقتصادی بیل آؤٹ پیکج حاصل کیا جا سکے۔ آئی ایم ایف کو جولائی کے شروع ہونے کا انتظار اس لیے تھا کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ پاکستان کی حکومت نے اس کی شرائط پوری کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے اور عوام کو اس لیے انتظار تھا کہ یہ دیکھ سکیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر حکومت نے جو ’عوام دوست‘ بجٹ بنایا ہے اس میں ان کے لیے کیا کچھ ہے‘ کچھ ہے بھی یا نہیں؟ مالی امور کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کا سارا بوجھ عام آدمی پر ڈال دیا گیا ہے‘ اور یہ کام دو طریقوں سے کیا گیا ہے۔ پہلا یہ کہ جن شعبوں میں ٹیکسوں کی چھوٹ تھی وہ چھوٹ ختم کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے عوام کو ایک اعشاریہ چھ ٹریلین روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا‘ اور دوسرا یہ کہ کچھ چیزوں پر ٹیکس نافذ کر دیے گئے ہیں‘ کچھ پر بڑھا دیے گئے ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ابھی لوگوں کے جون کے بجلی کے بل آئے ہیں اور صارفین بلبلا اٹھے ہیں کہ اتنی زیادہ رقم وہ کیسے ادا کر پائیں گے اور یہ کہ اگر وہ بجلی کے بل دیں گے تو پھر سالن روٹی کا انتظام کہاں سے اور کیسے ہو گا؟ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بجلی کی اوور بلنگ کی جاتی ہے‘ لیکن افسوس کہ اس کو روکنے کا ابھی تک بندوبست نہیں ہو سکا، جانے کون کون سی مدوں میں کون کون سے ٹیکس بجلی کے بلوں میں دال دیے جاتے ہیں جن کو سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے، یہ اس وجہ سے ہوا ہے کہ حکومت کی طرف سے ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کے جو وعدے یا دعوے کیے گئے تھے ان پر عمل نہیں ہوا اور پہلے سے جو لوگ ٹیکس بھی دے رہے ہیں اور بجلی کے بل بھی باقاعدگی سے ادا کر رہے ہیں انہی پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے، اب اس پر لوگوں کا کیا رد عمل آتا ہے یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتا چلے گا‘ لیکن ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ لوگ اب بھرے بیٹھے ہیں‘ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور بس چھلکنے ہی والا ہے۔
ایک پیمانہ تو چھلک بھی پڑا ہے۔ ایک خبر کے مطابق سینئر اداکار راشد محمود 45 ہزار کا بجلی کا بل دیکھ کر پھٹ پڑے اور ایک ویڈیو میں بل کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ارباب اختیار کو کھری کھری سنا کر آب دیدہ ہو گئے۔ ایک ویڈیو میں راشد محمود نے بتایا کہ میرے 701 یونٹ کا بل 45 ہزار 368 روپے آیا ہے، میں 4 مرتبہ ہارٹ اٹیک کے باوجود اللہ کے کرم سے زندہ ہوں لیکن آج سوچتا ہوں میرے اللہ مجھے کیوں بچایا، میں نے اپنی ساری زندگی اس ملک کی نہایت ایمان داری کے ساتھ خدمت کی، ہمارے کاموں کے باعث یہاں اربوں روپے اکٹھا ہوئے لیکن پچھلے کئی سالوں سے لاہور میں ہمارے لیے کوئی کام نہیں، اب میں 45 ہزار بجلی کے بل کی ادائیگی کے لئے پیسے کہاں سے لاؤں؟ سینئر اداکار نے آب دیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ ہم نے زندگی رب کے خوف سے گزاری کیا یہی ہمارا قصور ہے؟ میرے مالک مجھے اٹھالے، میں زندہ نہیں رہنا چاہتا‘ اگر میں بھی چوروں کے ساتھ شامل ہو جاتا تو یہ چیخ و پکار نہیں کرتا۔
راشد محمود کی طرح کے اس ملک میں پتا نہیں کتنے لوگ ہوں گے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حد سے تجاوز کرتے بجلی کے بلوں کو دیکھ کر آہیں بھر رہے ہوں گے۔ اس ملک کی تقریباً سبھی بڑی پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران 200 یا 300 یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مفت بجلی تو کیا ملتی‘ الٹا بجلی پر بھاری ٹیکس ادا کرنے پڑ رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔
اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ قومی خزانے کو بھرنے‘ معیشت کو مستحکم کرنے‘ زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے‘ حکومتی اخراجات پورے کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حکومت کو ریونیو کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو ٹیکسوں کے ذریعے اکٹھا کیا جاتا ہے‘ لیکن ٹیکسوں کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے‘ اوور بلنگ کا بھی تو کوئی پیمانہ ہوتا ہو گا۔ یہاں تو کوئی حد کوئی پیمانہ نظر نہیں آتا۔ حکومت نے سادگی اختیار کرنے اور حکومتی اخراجات کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس بارے میں کمیٹیاں بھی بنی تھیں، انہوں نے اپنی سفارشات بھی پیش کی تھیں لیکن اس جانب کوئی بھی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی۔ سارے کا سارا بوجھ عام آدمی پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور اب بھی کی گئی ہے۔
لیکن ظاہر ہے کہ ایسا زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ ٹیکسوں کا بوجھ مزید بڑھایا گیا تو عوام کی طرف سے رد عمل آ سکتا ہے، ایسا ہوا تو پھر مسائل بڑھیں گے، میں نے پہلے بھی تجویز پیش کی تھی اور اب بھی وہی دہرا رہا ہوں کہ قومی معیشت کو سہارا دینے اور مستحکم اور مضبوط کرنے کا بہترین طریقہ زرعی شعبے کی طرف فوری توجہ مبذول کرنا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ شعبہ چھ ماہ میں اپنا رزلٹ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ دھان کی فصل کاشت ہونا شروع ہو رہی ہے تو حکومت اس جانب توجہ دے کر دھان کی بمپر پیداوار کیوں حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتی تاکہ اسے عالمی منڈی میں فروخت کر کے چند ارب ڈالر کمائے جا سکیں۔ ہم اس قابل ہو سکیں کہ درآمدات اور برآمدات میں کچھ توازن قائم ہو جائے۔ میرے خیال میں حکومت کو عوام کی یوٹیلٹیز پر ٹیکس لگانے کے بجائے ملک میں کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس طرح جو پیداوار حاصل ہوتی ہے وہ ملکی ضروریات پوری کرنے اور سرپلس پیداوار برآمد کرنے کے کام آ سکتی ہے۔