سیاسی توازن اور گڈ گورننس ( سولہواں حصہ )
مغربی جمہوریت کے کچھ کنسپٹ آپکے سامنے گوش گزار کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔توہین عدالت کی اصطلاح اکثر سننے میں آتی ہے۔اور بعض اوقات اس اصطلاح کی بازگشت اور گونج بہت لاؤڈ ہوجاتی ہے۔توہین عدالت کے زمرے میں عدالت کی حکم عدولی، عدالت کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنا اور اس سے ملتے جلتے اقدام آتے ہوں گے۔ لیکن مغرب کا کنسپٹ ہمارے ہا ں سے ذرا مختلف ہے۔
کیا ایسا نہیں ہوتا کہ ایک جج موصوف ایک ادارے جسکو عدالت کہتے ہیں کے ساتھ ایک معاہدہ کرتا ہے کہ وہ ماہانہ اتنی تنخواہ ، اتنی مراعات اتنے ٹی اے ڈی ایز کے بدلے میں اتنے برس کے لیے لاء پریکٹس کرے گا اور اپنی پوری جانفشانی اور محنت سے اپنے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کرے گا۔ نہیں شاید یہاں ہمارے ہاں اسکو حلف اٹھانا کہتے ہیں۔
کیا حلف اٹھانے کا مطلب ہے کہ اگر جج موصوف نے فرائض میں کوتاہی کی تو اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگا۔اور کیا ادارہ خود مواخذے کی ذمہ داری سے بری ہوجاتا ہے؟ ایک ماڈرن سٹیٹ کی گورننس کی بات ہورہی ہے تو گرے ایریاز پر بات ہونا ناگزیر ہے۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ جج موصوف ایک گوشت پوست کا انسان ہوتا ہے۔ جو باقی لوگوں کی طرح کھاتا پیتا اور سوتا جاگتا انسان ہے۔ اور انسان خطا کا بھی پتلہ ہے۔ چنانچہ ذاتی حیثیت میں کسی جج موصوف پر تنقید کو توہین عدالت نہیں سمجھا جاتا۔ ظاہر ہے کسی بھی انسان سے غلطی ہوسکتی ہے یا کسی بھی انسان سے اس کو دیئے گئے اختیارات مس یوز ہوسکتے ہیں۔
مغربی جمہوریت میں جج کو فرشتہ سمجھنے کا تصور موجود نہیں ہے جس پر تنقید نہ کی جاسکے۔ وہاں چونکہ ادارے مضبوط ہیں اس لیے مواخذے کا کام بھی سٹیٹ کے متعلقہ اداروں کا ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں ادارے کمزور ہیں اس لیے اداروں پر اعتماد کا فقدان رہتا ہے اور سیاستدان اداروں کے اہلکاروں کو سیاسی مجمعوں میں زیر بحث لے آتے ہیں ۔ مقصد مثبت بھی ہوسکتا ہے اور منفی بھی۔ مقصد بلئینگ کرنا بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے فلاں صاحب فلاں ادارے میں فرائض انجام دیتے ہوئےاگر جانبداری کا مظاہر ہ کریں گے تو عوام ان کا مواخذہ کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
توہین عدالت کا بنیادی کنسپٹ اصل میں یہ ہے کہ قانون کی توہین نہ کی جائے۔ قانون مقدس ہے۔ قانون سٹیٹ اور معاشرے کی بنیاد ہے ۔ اور اس کے بغیر سٹیٹ اور معاشرہ ایک جنگل ہیں۔ عدالتوں پر بھی تنقید ہوسکتی ہے یعنی کہ وہ بحیثیت ایک ادارہ اپنے فرائض غیر جانبدارانہ یا حق اور انصاف کے مطابق سرانجام نہیں دے پا رہی۔ عدالتوں کا کام قانون سازی بھی نہیں ہوتا۔ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ یا ایمرجنسی میں پارلیمنٹ کے ذریعے منتخب کیے گیے صدر کے آرڈیننس کی صورت میں قانون کا مسودہ عدالت کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کہ اسے پوری غیر جانبداری اور فرض شناسی سے پریکٹس کرے۔ عدالتوں کا ایک بجٹ ہے اور عوام کے ٹیکسز بھی اس میں شامل ہیں۔ عدالتوں کو پرائیویٹائیز کرنے کا ابھی تک سننے میں نہیں آیا لیکن مغربی جمہوریت میں یوں سمجھ لیں عدالتیں پرائیویٹائیز ہی ہوتی ہیں۔ ہاں ایک بات تو ہمیں پتہ ہے کہ ہماری اپنی تاریخ میں دربار لگانے اور درباریوں کی لغزشوں پر انہیں سزائیں سنانے کے قصے کہانیاں ہمارے لٹریچر کا حصہ ہیں۔ اور اس بات کو تو ہم سب مانتے ہیں جج حضرات بھی ہمارے معاشرے اور سوسائٹی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور ان کے لیے چیلنج تو ہوتا ہوگا کہ وہ نہ صرف اپنے ذاتی مفادات کو نظر انداز کریں بلکہ اپنے سیاسی نظریات اور بشری اور ذاتی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر لاء پریکٹس کریں۔
ایک اور دلچسپ اصطلاح کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ ہے پروٹوکول۔ آپ ایک مغربی ملک میں ایک ہسپتال کے ملازم سے پوچھیں کہ فلاں مریض کی حالت ٹھیک نہیں ہے اور اگر اسکی حالت اتنی بگڑ گئی تو آپ لوگ کیا کریں گے۔ وہ جواب میں کہہ سکتا ہے ہم پروٹوکول فالو کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلاں ایمرجنسی میں جو اقدامات ہم نے سوچ کے لکھ رکھے ہیں وہ فالو کیے جائیں گے۔ یعنی ہسپتال کی انتظامیہ نے ایک روٹین تحریری صورت میں مرتب کررکھی ہے جو مجموعی طور پر ایک لیگل پروسیجرکا حصہ ہے۔ اس میں ڈاکٹرز کی میٹنگ بھی ہوسکتی ہے۔ کوئی مزید ٹیسٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ ایمرجنسی وارڈ میں منتقلی بھی ہوسکتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
آپ ایک پولیس اہلکار سے پوچھیں کہ فلاں تخریبی کارروائی کی صورت میں پولیس اس واقعہ کو کیسے ہینڈل کرے گی۔ پولیس اہلکار اس کا جواب یوں دے سکتا ہے کہ پولیس پروٹوکول فالو کرے گی۔ یعنی اس طرح کی صورت حال سے نپٹنے کے لیے پولیس نے اپنی روٹین وضع کررکھی ہے اور تحریری شکل میں موجود ہے۔ جسے موجود عملہ فالو کرتاہے۔ چنانچہ جب کبھی کسی ادارے یا محکمے کی کارکردگی یا فرائض منصبی پر سوال آنے لگے تو متعلقہ ادارہ اپنی صفائی میں بتاتا ہے کہ اس نے پروٹوکول فالو کیا ہے اور فلاں معاملات میں اس کا زیادہ قصور یا غلطی یا فرائض میں کوتاہی شامل نہیں ہے۔تہذیب تیزی سے آگے کی طرف رواں ہے۔ قانون اور دستور کی بالا دستی قائم رکھنا بیس برس قبل اگر کٹھن کام تھا تو آج کٹھن ترین کام ہے۔ تغیر ، تبدیلی اور اصلاح کی کاوش اور محنت اور لگن کا تعلق مورال سے بھی ہے۔
مغرب والوں کا خیال ہے کہ انکی جمہوریت اصل جمہوریت ہے۔ مغربی جمہوریت نے مسلسل اصلاح کا کام چھوڑا نہیں اپنے ملک اور سٹیٹ کے نظام کی تعمیر جاری رکھی، یہ ایک لمبا سفر ہے۔ قدرتی آفات بھی آتی ہیں ان ممالک میں لیکن یہ آفات ان ممالک کو مفلوج نہیں کر پاتیں۔ حال ہی میں ایک بین الاقوامی کانفرانس میں پہلی بار اتفاق رأے پایا گیا کہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث ترقی پذیر ممالک میں جو قدرتی آفات آتی ہیں ان کا معاوضہ ترقی یافتہ ممالک پر دینا بنتا ہے۔ اس پر فرانس کے صدر نے یہ سوال اٹھایا کہ فنڈز کون دے گا اور گورننس کون کرے گا؟ ۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں