تعلیم اور آبادی

تعلیم اور آبادی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پروفیسر نصیر اے -چوہدری
پاکستان کے دستور یا آئین میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’ریاست ناخواندگی کو ختم کرے گی اور کم سے کم ممکنہ عرصے میں مفت اور لازمی سکینڈری تعلیم فراہم کرے گی، ٹیکنیکل اور پروفیشنل تعلیم عمومی طور پر مہیا کرے گی اور اعلیٰ تعلیم تک سب کو میرٹ پر رسائی ہوگی‘‘۔ 2010ء میں پارلیمینٹ سے پاس ہونے والی اٹھارویں ترمیم میں تعلیم کے حق (25-A) کے ضمن میں ’’ریاست 5 سال سے 16سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم طے کیے جانے والے قانون کے مطابق مہیا کرے گی‘‘۔ لازمی پرائمری تعلیم ایکٹ 1994ء کے مطابق والدین اپنے ہر بچے کو سکول میں داخل کرانے کے پابند ہیں اگر کوئی والد اپنے بچے کو سکول میں داخل کرانے کے بعد بچے سے مزدوری یا ملازمت کرواتا ہے تو دونوں صورتوں میں والد یا آجر کو جرمانے اور قید کی سزا یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں لیکن اِن قوانین پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے ؟یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی، غربت وجہالت اور ناکافی تعلیمی سہولیات اِن قوانین کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹیں ہیں جنہیں دُور کئے بغیر سو فیصد خواندگی اور تعلیم کا تصور حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا ہے۔
موجودہ دور میں ثقافتی اور معاشرتی بہبود کے تعین کے لئے تعلیم و خواندگی ہی وہ واحد پیمانہ ہے جس سے ملکی ترقی و سر بلندی کو ماپنے کی ضرورت پڑتی ہے۔تعلیم کی بدولت معاشی اور اقتصادی ترقی کی راہیں ہموار کرنے کے لئے مناسب منصوبہ بندی کی جاتی ہے تا کہ مستقبل کی قوم اُن متعینہ گزرگاہوں پر چل کر اپنے وسائل کے مطابق ترقی و سر بلندی سے قریب تر ہو سکے۔گویا قوموں کی زندگی میں تعلیم یا علم حاصل کرنے کی ایک ناگزیر اہمیت ہوتی ہے ۔ علم کے ذریعے ترقی و خوشحالی کی منزلوں کو طے کرنا اگر آسان نہیں تو مشکل بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ کسی بھی ملک کی پسماندگی، غربت اور کم تر معیارِ زندگی کی بنیادی وجہ ناخواندگی کو ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ قومی تعمیر و ترقی کے عوامل یعنی زراعت، صنعت و حرفت، تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں خواندگی اور تعلیم ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے علوم حاصل کئے بغیر بے روز گاری، منشیات کے استعمال، ماحولیاتی آلودگی اور فرقہ واریت جیسے مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کو کامیاب بنانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی رفتارتمام ترقیاتی اور تعلیمی منصوبوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔
آبادی میں تیزرفتار اضافے سے دیگر مسائل کے علاوہ تعلیمی سہولتوں کے فقدان کا مسئلہ خاصی اہمیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے۔ آبادی میں بے پناہ اضافہ تعلیمی اداروں کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتا جارہا ہے۔ غریب ممالک کے وسائل اتنے زیادہ نہیں ہوتے کہ وہ بڑھتی ہو ئی آبادی کے لئے مناسب تعلیمی سہولتیں فراہم کر سکیں جبکہ ایسے ممالک میں 15سال سے کم عمر بچوں کی آبادی کل آبادی کا تقریباً 40 سے46 فی صد تک ہوتی ہے۔پرائمری تعلیم کی عمر کے 3میں سے 2 بچے تقریباً 71 فیصد پرائمری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری تعلیمی شعبے پر کئے جانے والے اخراجات بہت ہی کم ہیں۔ جی ڈی پی کا صرف 2فیصدکے لگ بھگ تعلیمی شعبے کے لئے مختص کیاجاتا ہے جو کہ بہت ہی کم ہے۔ تعلیمی اداروں کے لیے حکومتی امداد کی کمی کی وجہ سے سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے لامحالہ فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی اپنے بچوں کو مناسب تعلیم نہیں دلوا سکتا اور اعلیٰ تعلیم کا تو تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔
اکنامک سروے آف پاکستان 2014-15 ء کے مطابق ملک بھر میں 2لاکھ 44ہزار 900 تعلیمی ادارے موجود تھے جن میں 1لاکھ 58ہزار 700پرائمری، 43 ہزار200 مڈل، 32ہزار 600 ہائی سکول تھے جبکہ 6000ہائر سیکنڈری /انٹرکالجز، 1000 ڈگری کالجز ، 3400 ٹیکنیکل اور ووکیشنل ادارے، اور 161 یونیورسٹیاں شامل تھیں۔ جن میں 3کروڑ 38لاکھ 84ہزار 8سو طالب علم اور 15لاکھ 77ہزار اساتذہ کرام تدریسی فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ 4کروڑ 34لاکھ 23ہزار 7سو طلباء میں پری پرائمری یا مسجد مکتب میں زیرِ تعلیم 95لاکھ 38ہزار 9سو طالب علم شامل نہیں ۔
پاکستان ایجوکیشن سٹیٹسٹکس 2007ء کے مطابق 2006 میں پاکستان میں کل 2لاکھ 45 ہزار 682 تعلیمی ادارے تھے جن میں 1لاکھ 64ہزار 579سرکاری اور 81ہزار 103پرائیویٹ تھے۔
نیشنل ایجوکیشن سینسس 2005کے مطابق 83.3 فیصد سرکاری سکول ، سرکاری عمارتوں میں اور 5.7فیصدبغیر کرایہ کی بلڈنگوں میں چل رہے تھے۔ جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں 43.1 فیصد کرایہ کی بلڈنگوں میں ، 42.8فیصد مالکوں کی ذاتی عمارتوں میں اور 11.6% بغیر کرایہ کی بلڈنگوں میں قائم تھے۔ کل تعلیمی اداروں کی عمارتوں میں سے 51.6 فیصد صحیح حالت میں تھیں۔ جبکہ 42.7فیصد عمارتوں کی زیادہ یا کم مرمت کروانے کی ضرورت تھی۔ 5.7فیصد عمارتیں خطرناک یا مخدوش حالت میں تھیں۔
منسٹری آف ایجوکیشن حکومت پاکستان کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق 2008-09ء میں 96769 (60.02فیصد) سرکاری سکولوں میں جن میں 85160 (65.5فیصد) دیہاتی اور 11609 (35.8فیصد) شہری سکول تھے بجلی کی سہولت نہیں تھی۔ 54996 (34.2فیصد) سکولوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت نہیں تھی۔ اُن میں 52817 (40.6فیصد) دیہاتی اور 2179 (6.7فیصد) شہری سکول تھے۔ 59846 (37.2 فیصد) سکول لیٹرین جیسی بنیادی سہولت سے محروم تھے جن میں 50087 (38.5فیصد) دیہاتوں میں اور 9763 (30.1فیصد) شہروں میں تھے۔ اِس سے طلبہ اور خصوصاً طالبات کی حاجاتِ ضروریہ سے فارغ نہ ہونے کی وجہ سے اٹھائی جانے والی اذیت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ سکولوں میں طالب علموں کے ڈراپ آوٹ کی یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ اِسی طرح 61274 (38.1فیصد) سکولوں میں جو 52248 (40.2فیصد) دیہاتی اور 9026 (27.9فیصد) شہری تھے ،اُن کے گرد چاردیواری بھی نہیں تھی۔ سکولوں کے گرد چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے خدانخواستہ کسی بھی ناگہانی حادثے کی صورت میں عدم تحفظ کے احساس کا ہونا طلبہ وطالبات،والدین اور اساتذہ کرام کے لئے پریشانی ،تشویش یا خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ جیسے کہ اکتوبر 2009 میں اسلام آباد میں واقع اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں، دسمبر 2014میں آرمی پبلک سکول پشاور اور جنوری 2016میں باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں دہشت گردی سے ہونے والی شہادتوں سے ہوا۔
حکومت کی طرف سے تعلیم کے شعبے کے لئے کم رقم کی فراہمی کے علاوہ ہر سال آبادی میں تقریباً 36لاکھ(36,38,832) سے زائد افراد کا اضافہ ہونے سے نوجوانوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اگر ہم 2015 میں پاکستان کی آبادی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ہماری 40 ملین کے قریب آبادی) 21 فیصد( 15 سے 24سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ دوسرے لفظوں میں ہماری کل 19کروڑ 17لاکھ 10ہزار کی آبادی میں 4 کروڑکے قریب نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی ضرورت تھی۔
بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات کے پیشِ ِ نظر تعلیمی شعبے میں بہتری پیدا ہونے کے آثار بہت ہی کم ہیں اور نوجوانوں کی اکثریت مہنگی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان ڈھنگ کی نوکریاں نہ ملنے سے پریشان حال اور سرگرداں ہیں اور اُن کے والدین بے بسی سے اپنی اولاد کی حسرتوں کا گلا گھٹتے دیکھ رہے ہیں۔
ہماری اکا نومی کے بڑھنے کی رفتار 2سے 3 فیصد سالانہ ہے جبکہ لیبر فورس یعنی کام کرنے والے گروپ کے بڑھنے کی رفتار تقریباً 6 فیصد سالانہ ہے۔لیکن کام کرنے کی عمر والی آبادی میں اکثریت پرائمری ایجوکیشن سے بھی محروم ہے۔
10سال سے اوپر کی عمر کے افراد میں شرح خواندگی 1951میں 16فیصد تھی ۔جو 2014میں 60 فیصد ہو چکا تھی۔ لیکن پھربھی صنفی فرق کو ختم نہیں کیا جا سکا اور 2014 میں 70 فیصد مرد اور 47فیصد خواتین خواندہ تھیں۔پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈز میئیر منٹ سروے (PSLMS) 2012-13 کے مطابق 34 فیصد لڑکیاں اور 22فیصد لڑکے سکولوں میں نہیں جا رہے تھے۔ 2015میں سکول جانے والے پانچ سے چودہ سال کی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد 40 ملین تھی جو 2030 میں بڑھ کر 48 ملین ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں وطنِ عزیز میں یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے حصول کے لئے کم ازکم 10سال اور 100 فیصد سیکنڈری سکول لیول ایجوکیشن کی انرولمنٹ کے لئے ہمیں کم ازکم 35 سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ لہذا حکومتی سطح پر فوری طور پر کم از کم 60 فیصد سیکنڈری انرولمنٹ کے لئے 2020 تک ایک فعال تعلیمی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔ ایسی پالیسی جس میں مستقبل کی قوم کی ذہنی نشونما ، اخلاقی اور تہذیبی اقدار کی تشکیل، سماجی اور ثقافتی نقطہ ہائے نظر کی وضاحت کے عمل کو پائے تکمیل تک پہنچانے والے اساتذہ کرام کی ہمت افزائی اور قدرومنزلت میں اضافہ کر کے اُنھیں اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے آمادہ کیا جا سکے۔

مزید :

ایڈیشن 2 -