مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 2
پھیکو سے محمد رفیع بننے کا سفر ایک غیر معمولی ڈرامائی کہانی کی طرح لگتا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ گائیکی کی دنیا کا تاجور بننے والے محمد رفیع کی سرگزشت اور حالات زندگی کا مکمل طور پر جائزہ نہیں لیا جا سکا۔نہ کسی ایک کتاب میں ان کے حالات یکساں طور پر موجود ہیں۔ ان کے بچپن اور کوٹلہ سلطان سے لاہور ہجرت کے واقعات جس جس نے بھی بیان کئے ہیں وہ زیادہ تر سنے سنائے واقعات پر مشتمل ہیں ۔بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ وہ کہاں کہاں رہے اور کب تک کس جگہ رہے ،اس بارے مکمل معمولات تک رسائی ناممکن لگتی ہے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ محمد رفیع سوشل لائف سے محروم تھے۔اس زمانے میں میڈیااگرچہ زیادہ سرگرم و متجسس نہیں تھا لیکن ناتواں بھی نہیں تھا ۔تب بھی میڈیا شوبز شخصیات کے پورے شجرے نکال لاتا تھا لیکن محمد رفیع کے ساتھ ایسی کوئی بد قسمتی بھی رونما نہیں ہوئی کہ کوئی ان کی ذاتی اور بچپن کی زندگی کا جزئیات کے ساتھ ذکر کرتا۔وہ شریف اور شرمیلے کم گو تھے ،انکے ایسے اسکینڈل بھی نہ بن سے جن سے زیادہ تر گلوکا ر اور اداکار فائدہ اٹھا کر زیاد ہ شہرت حاصل کرتے ہیں۔میڈیا انکے پیچھے پڑجاتا ہے تو کھوج لگاتے ہوئے ایسی شخصیات کی ذاتی زندگی پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ محمد رفیع کو تو کام سے ہی فرصت نہیں مل سکی ،نظر اٹھاتے ،محفلوں میں جاتے ،جام لٹاتے تو اس کا موقع ملتا ،وہ تو شرافت کا منبع تھے جنہیں کام کے بعد صرف گھر جانا ہوتا تھا ۔اس لئے ان کی ذاتی زندگی پر جزئیات کے ساتھ تحقیق نہیں ہوسکی حالانکہ ان کے دورکے لوگ اور مقامات ابھی تک موجود ہیں ، رفیع صاحب یا ان کے بھائیوں اور بچوں نے بھی اس پر روشنی نہیں ڈالی ۔ محمد رفیع نے بہت کم انٹرویوز دئیے لیکن ان انٹرویوز میں انٹرویو نگار بھی ان سے کرید کریدکر سوال نہیں کرسکے تھے کہ جس سے معلوم ہوسکتا کہ دراصل محمد رفیع جب ابھی پھیکو تھے،انہیں وہ بابا ،بزرگ،صوفی ملنگ کہاں ملا تھا ،جس نے انہیں گانے کا دیوانہ بنایا تھا ۔وہ کوٹلہ سلطان سنگھ کا تھا یا لاہور کا ۔۔ جس کے ہاتھ جو معلومات لگیں اس نے محمد رفیع کی زندگی کا تعلق اپنے تئیں اس علاقے سے جوڑ دیا ۔
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔۔ ۔ قسط نمبر ۱ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہندوستان میں رہنے والوں کا دعویٰ ہے کہ محمد رفیع لاہور میں آٹھ دس سال رہے اور وہیں سے انہوں نے ہاتھ پاوں مارے اور پھر بمبئی آگئے لیکن ان میں گائیکی کی جوت کوٹلہ سلطان سنگھ میں جاگی ۔ان کے بچپن کے دوست اور سکول کے ساتھی کندن سنگھ نے کئی بار انٹرویوز میں بتایاہے کہ محمد رفیع کوٹلہ کی گلیوں میں ہی بھاگتے دوڑتے تھے ۔سکول میں اسمبلی ہوتی تو محمد رفیع جوکہ اس وقت فقط پھیکو کہلاتے تھے ،استاد ان سے نعتیں اور صوفیانہ کلام سنتے تھے۔کوٹلہ میں ہی انہیں فقیر بابا ملا اور اس نے پھیکو کو دعا دی تھی۔
کندن سنگھ کے گھرکی دیوار پھیکو کے گھر کی دیوار سے جڑی ہوئی تھی۔دونوں تیسری جماعت میں پڑھتے تھے ۔کندن سنگھ پھیکو سے ایک سال بڑا تھا لیکن دونوں ایک ہی جماعت میں اکٹھے ہوگئے تھے کیونکہ پھیکو تیسری جماعت میں فیل ہوگیا تھا ۔ کندن سنگھ کو اپنے استادوں کے یہ جملے اچھی طرح یاد ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ پھیکو ایک روز بڑا کلاکار بنے گا۔کندن سنگھ کو یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ پورا گاوں پھیکو کی اماں کے ہاتھ کی بنی سوئیاں شوق سے کھاتا تھا ۔اماں اللہ رکھی کے ہاتھ میں ایسا رس اور ذائقہ تھا کہ پورے گاوں کی نظریں پھیکو کے گھر کی جانب اٹھی رہتی تھیں ۔ویسے بھی کھانا بنانے کا جو ملکہ پھیکو کی اماں اور میاں جی کو حاصل تھا کوئی اس کا ثانی نہیں تھا ۔قدرت نے حاجی علی محمد اور اماں اللہ رکھی کے ہاتھوں میں جو لذت کاخزانہ رکھاتھا اس کا ہر کوئی طلب گار اورخریدار تھا ۔گاوں میں اور کوئی تو رزق کا ذریعہ نہیں تھا ۔آمدن محدود تھی ۔پھیکو کے والد علی محمد سیپ کا بھی کام کرتے تھے ۔جس سے گھر میں اناج غلہ آجاتا تھا ۔پرانے زمانے میں گاوں میں غریب لوگ اور خاص طور پر حجامت کے پیشے سے وابستہ لوگوں کو سیپی بھی کہا جاتا تھا جو شادی مرگ یا خوشی کے موقع پر کھانا پکاتے یا پیام بر بن کر چار آنے اور لیرا لتا معاوضہ میں وصول کرتے ۔وہ ایک خدمت گار کے طور پر بڑی جاتی والوں ،چودھریوں کے کمی ہوتے تھے ۔
پھیکو کے سامنے گھر کے حالات موجود تھے اس لئے اپنے بھائی کے ساتھ اس نے لاہور کا قصد کیا،اب یہاں ایک اور مسئلہ آن پڑتا ہے ۔محمد رفیع کے چھوٹے بھائی محمد صدیق جو دوسرے بھائی بہنوں کی طرح قیام پاکستان کے بعد لاہور چھوڑنے پر رضا مند نہیں ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی عمر لاہور کے ساتھ وفا کرتے گزاری ،وہ بلال گنج کے محلہ چومالا میں قیام پذیر رہے ۔انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں مختصراً بتایا تھا کہ وہ بھائی کے ساتھ لاہور آئے اور اپنے ساتھ ٹینٹ قنات بھی لے آئے تھے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد رفیع کے لاہور ہجرت کرنے سے پہلے ان کے گھر کا دوسرا کوئی فرد لاہور میں نہیں تھا ،البتہ عزیز رشتہ دار موجود تھے ۔لیکن دوسری جانب بعض لوگ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ محمد رفیع کے والد حاجی علی محمد جنہیں لوگ کوٹلہ میں میاں جی بھی کہہ دیتے تھے ،کثیرالعیال ہونے کے بعد معاشی طور پر پریشان ہوگئے تو 1926 میں وہ اپنے بڑے بیٹے محمد دین کے ساتھ لاہور آگئے اور بلال گنج کے محلہ چومالا میں رہائش اختیار کرلی جبکہ حجامت کی دوکان بھاٹی گیٹ کے نور محلہ میں کھولی ۔دونوں باپ بیٹے نے نو سال تک لگا تار محنت کی۔دوکان میں غسل خانہ بھی بنایا جس سے عام اور خاص لوگ بھی انکی دوکان میں آتے ۔اس دور میں بھاٹی گیٹ کا علاقہ زرخیز لوگوں سے آباد تھا ۔اس کا محل وقوع بڑا شاندار اور صوفیانہ تھا ۔ داتا صاحب کا مزار بھاٹی دروازہ سے ایک کلومیٹر کی دوری پر تھا ،اب تو دربار کی تزیں و تعمیر نو کے بعد یہ فاصلہ گھٹ چکا ہے ۔بھاٹی دروازہ پر زائرین قیام و طعام بھی کیا کرتے تھے ،جمعرات کے دن تو لاہور کے بڑے خانوادہ لوگ بھی آتے ،گوئیے اور قوال دربار پر حاضری دیتے،میلوں کا اہتمام ہوتا ،لوک گلوکار فن کا اظہار کرتے ۔اس قدر رونق اور گہماگہمی کی وجہ سے علی محمد کی دوکان پر گاہکی بھی جاری و ساری رہتی ۔میاں جی علی محمد کو گھر جانے میں زیادہ دیر بھی نہیں لگتی تھی کیونکہ بلال گنج دربار کے عین پیچھے واقع تھا ،یہ بھاٹی دروازہ سے پیدل مسافت پر موجود تھا،علی محمد دوکان پر آتے جاتے راستے میں داتا صاحب پر حاضری دیتے تھے۔انہیں داتا صاحب کے قرب میں رہنے سے بڑا اطمینان تھا،ویسے بھی ان کی دوکان جس محلہ میں آباد تھی ،اسکا اپنا بھی درویشانہ رنگ تھا۔اندرون لاہور میں بھاٹی دروازہ کا یہ محلہ بھی تاریخی ہے ۔اس میں علامہ اقبال بھی قیام کر چکے ہیں،حکیماں والا مشہور زمانہ تاریخی بازار بھی اس کے قرب میں ہے ۔داتا دربار سے راوی کی جانب جو سڑک جاتی ہے ،نور محلہ کے پچھواڑے میں واقع ہے ۔ اسکے عین پیچھے اب میٹرو کا اسٹیشن بن چکا ہے۔ نور محلہ میں کئی درویشوں کے مزار واقع ہیں اسی نسبت سے یہ محلہ بھی نورو رحمت فیضان کا مرکزبنا رہا ہے ۔ممکن ہے اسکے نام کی وجہ تسمیہ کوئی اور ہو مگر یہاں بزرگ ہستیوں کے مزارات سے یہ تو یقین ہوجاتا ہے کہ بازار میں فقرا،درویشوں اور ملنگوں کا گزر ہوا کرتا تھا ۔ جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ محمد رفیع نے اسی محلہ میں اپنے والد کی دوکان پر بیٹھے ہوئے ایک فقیر کو اکتارہ بجاتے ہوئے سنا تھا اور اسکے دست شفقت نے اسکو گائیکی میں کامل کردیا تو ایک طرح سے وہ بھی غلط نہیں کہہ رہے ۔ یوں بھی تو ہوسکتاہے کہ 1935 میں جب محمد رفیع کے والد کی دوکان اور پہچان کافی پھیل چکی تھی تب انہوں نے اپنے کنبہ کولاہور بلالیا اور محمد رفیع جو کہ کوٹ سلطان سنگھ سے لوک گیتوں اور صوفیانہ کلام گانے کا ذوق و جنون لے کر لاہور آئے تھے تو انہیں نور محلہ میں بھی اللہ والوں کی دعائیں لینے کا موقع ملا ۔وہ فقیر بابا جس نے ان کے من کو ’’ کھیڈن دے دن چار نی مائیں،کھیڈن دے دن چار‘‘سے گرمایا تھا ،اکثر لاہور کے میلوں اور عرسوں میں بڑے جذب و مستی میں غرق ہوکر گاتے تھے جس کو سن کر فقیروں،مجذوبوں ملنگوں اور اہل سلوک پر وجد طاری ہوجایا کرتا تھا ،اس گیت میں معرفت اور سوز تھا ،اور اس پر پھیکو کے دلگداز اور وجدانی انداز کا غلبہ ۔روایت چاہے جیسی بھی ہو بہر حال پھیکو لاہور کے کلچرمیں رس بس گیا تھا ۔
(جاری ہے )