جامعات کی عالمی درجہ بندی اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

جامعات کی عالمی درجہ بندی اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جامعات کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ترقی کی منازل طے کرنے میں اعلیٰ تعلیم کو بنیاد سمجھا جاتا ہے۔معاشی طور پر مستحکم ممالک پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے تعلیم کو بنیادی حیثیت دی۔ ان کے سکول، کالج، یونیورسٹیاں معیاری تعلیم کے مخزن ٹھہرے۔ ملکی وسائل کا گراں قدر حصہ تعلیم کی مد میں مختص کیا جاتا ہے۔ آکسفورڈ، کیمبرج برطانیہ کی شہرہ آفاق جامعات میں شمار ہوتی ہیں۔سابق برطانوی وزیراعظم مسز مارگریٹ تھیچر سے ایک بار پوچھا گیا کہ آپ کی پہلی ترجیح کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم، دوسری بھی تعلیم، تیسری بھی تعلیم اور چوتھی صحت۔یہ وہ اہمیت ہے جو تعلیم کو دی جاتی ہے۔ اس ملک میں جس کی عملداری میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا،تعلیم اور تحقیق کی بناءپر انہوں نے ایک لمبا عرصہ برصغیر سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں کو اپنی کالونیاں بنائے رکھا۔ اندلس، فارس، بغداد، ہندوستان جیسے علم و فن کے مراکز سے گراں قدر کتابیں برطانیہ کی لائبریوں میں جمع کرکے ان سے استفادہ کیا۔اسی کا نوحہ علامہ اقبالؒ نے اپنے شعر میں کیا ہے:
وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباءکی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
پاکستان ایک لمبا عرصہ، یعنی تقریباً نصف صدی تک گوناگوں سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی آماج گاہ بنا رہا۔ بابائے قوم کی وفات کے بعد قیادت کا خلا پیدا ہوگیا، نوزائیدہ مملکت ابتدائی برسوں ہی میں عدم استحکام کا شکار ہوگئی اور تعلیم جیسا اہم شعبہ بھی عدم توجہی کا شکار ہوا۔ ملک کو ورثے میں محدود سے چند تعلیمی ادارے ملے۔ زرعی تعلیم اور تحقیق کے حوالے سے زرعی کالج لائل پور بھی ہمارے حصے میں آیا۔ 1961ءمیں زرعی کالج کو زرعی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔سرحد پار لدھیانہ میں اسی مادرِ علمی کی طرز پر کالج اور پھر یونیورسٹی قائم کی گئی۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا سفر 1961ءسے بطور اعلیٰ تعلیمی ادارہ شروع ہوا۔سفر ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ تین ہزار طلباءکے لئے قائم کردہ ادارہ بتدریج مختلف شعبہ جات میں ترقی کرتا گیا۔یونیورسٹی نے اس عرصے میں نامور زرعی سائنسدان، اساتذہ ، فوجی افسر، سول بیورو کریٹ پیدا کئے۔یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباءکو اعلیٰ سول اور فوجی اعزازات سے نوازا گیا، مگر یونیورسٹی 2008ءسے ایک نئے دور میں داخل ہوئی ہے۔نئے ڈگری پروگرام، نئے شعبہ جات، نئے سب کیمپس ، نئی لیبارٹریاں، جدید سائنسی سامان اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی، نئے ہاسٹل، ویمن کمپلیکس، کھیلوں کے میدان وغیرہ وغیرہ، غرض کوشش پیہم کرتی ہوئی فیکلٹی، پرجوش اور پُرعزم طلبا و طالبات اس عظیم جامعہ کا سرمایہ افتخار ٹھہرے۔

عالمی سطح پر جامعات کی درجہ بندی کا ایک مربوط نظام موجود ہے۔کمپیوٹرکی مدد سے ہریونیورسٹی تک رسائی عالمی اداروں کو حاصل ہے۔یہ درجہ بندی تعلیمی استطاعت، ریسرچ اور انفراسٹرکچر کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایک عرصہ ہمارے ملک پر ایسا دور بھی گزرا کہ ایک یونیورسٹی بھی عالمی درجہ بندی میں پہلی 500یونیورسٹیوں میں شامل نہیں تھی ،جسے ماہرین تعلیم حسرت سے محسوس کرتے۔زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے 2008ءمیں پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان(ستارئہ امتیاز) کی قیادت میں ٹاپ درجہ بندی میں 300والی فہرست میں جگہ بنائی، اسلامک یونیورسٹیوں میں ٹاپ کرنے پر ورلڈ بینک سے ایک لاکھ امریکی ڈالر سمیت اعزازی شیلڈ حاصل کی۔گزشتہ برس جامعہ زرعیہ عالمی رینکنگ میں 158ویں نمبر پر تھی، جوموجودہ برس ترقی کرکے 98ویں نمبر پر ہے، یعنی ٹاپ 100یونیورسٹیوں میں شامل ہو گئی۔یہ ایک خواب تھا جو نصف صدی سے دیکھا جا رہا تھا۔
اس کی تعبیر جو ملی تو رئیس جامعہ پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان نے 29اکتوبر 2013ءکو ایک بڑے عشایئے کا اہتمام کیا۔یونیورسٹی کے سبھی اساتذہ، شہر کی سول انتظامیہ، عوامی نمائندے، صحافی حضرات اور کاروباری شخصیات کو مدعو کیا۔صوبائی وزراءرانا ثناءاللہ خاں اور رانا مشہود خان بطور مہمان خصوصی اور مہمانِ اعزاز رونق افروز ہوئے۔ وائس چانسلر صاحب نے بنفسِ نفیس ہر مہمان کو بیرونی دروازے پر خوش آمدید کیا۔چہرے پر شادمانی اور انبساط، لبوں پہ تبسم، استقبال میں گرمجوشی، سٹاف کلب کا وسیع مرغزار شامیانوں سے مرصع اور برقی قمقموں سے روشن و تاباں۔ لگتا تھا، جشن طرب اپنے عروج پر ہے۔فتح، کامیابی، کامرانی شادمانی کا سامان تو ہوا ہی کرتی ہے،دل کے آنگن میں بہار اُترے تو فضا بھی عطر بیز ہو جاتی ہے۔ جناب وائس چانسلر خوب ترنگ میں آکر بولے اور خوب بولے، کامیابیوں کے سفر کی داستاں سنائی کہ :
یہ پھول خیرات میں نہیں پائے
خونِ جگر صرف کیا ہے تو بہار آئی ہے
اپنے رفقائے کار کی شبانہ روز محنت کا تذکرہ دل نشین کیا، خراجِ عقیدت پیش کیا، سامعین کو مبہوت کر دیا۔اعدادوشمار کا گورکھ دھندا، حکومتی پالیسیاں، پنجاب حکومت کی فیاضانہ امداد، زرعی میلے، نمائش، کانفرنسیں، غیر ملکی مہمانوں کی ہر روز آمد، بین الاقوامیت، غرض وہ سب کچھ اس روانی، سلاست اور ترتیب سے بتایا کہ سامعین بات بات پر تالیاں بجاتے، تحسین و آفرین کے غلغلے بلند کرتے رہے۔وائس چانسلر صاحب کی قابلیت، قیادت اور سیادت پر ہر کوئی خوشگوار حیرت میں مستغرق تھا۔انہوں نے بات کو معراج پر پہنچا دیا اور گویا ہوئے:
آﺅ مل کر اس زمین پر کہکشاں ترتیب دیں
اک سے اک روشن ستارہ خاک میں موجود ہے
وہ اظہار کررہے تھے کہ ہم عمل کے بندے ہیں، باتوں کے غازی نہیں۔انہوں نے فرمایا.... عزم صمیم، اخلاص، عمل پیہم اور دوررس نگاہ، قافلہ جاں سپاروں کا توشہ ہوتا ہے اور الحمد للہ اللہ کی بے پایاں عنایات ہمارے اوپر سایہ فگن ہیں:
آﺅ اپنا جسم چن دیں اینٹ پتھر کی جگہ
زرعی یونیورسٹی کی اس اعلیٰ درجہ بندی پر رانا مشہود احمد خان نے بھرپور داد دی اور وعدہ کیا کہ وہ وزیراعلیٰ کو ساتھ لائیں گے اور یونیورسٹی کی اس عظیم کامیابی میں انہیں بھی شریک کریں گے۔صدارتی کلمات میں رانا ثناءاللہ خان صوبائی وزیر قانون نے وائس چانسلر کی قیادت کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ انہوں نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا ہے کہ یہ پاکستان کی واحد جامعہ ہے جو اس عظیم اعزاز کی مستحق ٹھہری ہے۔ایشیا پیسفک ریجن کی یہ درسگاہ ہمارے لئے باعثِ فخروانبساط ہے۔انہوں نے دعا کی کہ اللہ کرے پروفیسر اقرار احمد خان کی قیادت میں یہ جامعہ ترقی کے زینے تسلسل سے طے کرتی رہے:
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا

مزید :

کالم -