والدِ محترم سید علمدار حسین گیلانی کی یاد میں!

  والدِ محترم سید علمدار حسین گیلانی کی یاد میں!
  والدِ محترم سید علمدار حسین گیلانی کی یاد میں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اس سال میرے والد محترم کی برسی ان دنوں آئی ہے۔جب ملک کا سیاسی نقشہ تبدیل ہو رہا ہے۔ جب میں اپنے والد صاحب کے سیاسی سفر پر نظر دوڑاتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پوری زندگی ملک کو بہترین بنانے میں گزر گئی۔ کچھ یہی صورتحال میں اپنے سیاسی سفر کے بارے میں کہتا ہوں۔کہ پوری زندگی عوام کو مشکلات سے باہر لانے کی تدابیر کرتا رہا کہ میرے روحانی،و سیاسی رہنما یعنی میرے والد محترم سید علمدار حسین گیلانی 12دسمبر 1919 بمطابق آٹھ محرم الحرام اپنے آبائی گھر واقع پاک دروازہ ملتان میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے وقت ان کا نام سید ابوالحسن رکھا گیا۔ لیکن آٹھ محرم الحرام کی نسبت سے بعد میں علمدار حسین رکھ دیا گیا اور یہی نام معروف ہوا۔ والد نے ابتدائی تعلیم ملتان اور مظفرگڑھ میں حاصل کی کیونکہ دادا مخدوم غلام مصطفی شاہ گیلانی ان دنوں سب ڈویژنل مجسٹریٹ علی پور، مظفرگڑھ تعینات تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان والد کے کلاس فیلو تھے۔ والد نے 1941 میں ایمرسن کالج ملتان سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ وہ خاندان کے دوسرے فرد تھے جنہوں نے بی۔اے تک تعلیم حاصل کی۔والد نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اورآل پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ جب وہ ایف۔اے کے طالب علم تھے تو انہوں نے اپنے بزرگ سید زین العابدین شاہ اور مسلم لیگ ضلع ملتان کے صدر چچا مخدوم غلام نبی شاہ گیلانی کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کے لیے کام کیا۔والد صاحب اپنے گھر ”الجیلان“کو خوش بختی اور ملتان کی سیاست کا محور سمجھتے تھے کہ اس گھر میں گورنر جنرل غلام محمد،

خواجہ ناظم الدین، وزارئے اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور ملک فیروز خان نون کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح اور سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی جیسی نامور شخصیات تشریف لا چکی تھیں۔ علاوہ ازیں پیر صاحب اجمیر شریف بھی اس گھر میں تشریف لا چکے تھے۔1951 کے عام انتخابات میں والد کے نامزد امیدواروں کو مسلم لیگ کے ٹکٹ دیئے گئے۔ ان انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ کا کنونشن ہمارے گھر 'الجیلان' ملتان میں ہوا جس کی صدارت وزیر اعظم پاکستان اور صدر مسلم لیگ نوابزادہ لیاقت علی خان نے کی۔ جلسے کے دوران وزیراعظم نے والد، تایا ولایت حسین اور چچا رحمت حسین کے ہاتھ تھام کر کہا:"They are the backbone of the Muslim League"۔ترجمہ: یہ مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔والد گرامی کا قول تھا کہ اگر کسی شخص کے ہاتھ میں شفا ہونے کے باوجود وہ کسی دوسرے شخص کو فیض یاب نہیں کرتا تو ایسا شخص خود بدنصیب ہے۔ والد کی یادداشت کمال کی تھی۔ انہیں ہزاروں لوگوں کے نام زبانی یاد تھے اور جب کبھی کسی تقریب میں لوگوں کو مدعو کرنا ہوتا تو بہت ہی کم وقت میں اپنی یادداشت سے لوگوں کے نام تحریر کروا دیتے تھے۔


والد صاحب نے ہمیں اپنے وزیر بننے کا واقعہ یوں سنایا کہ ایک مرتبہ میں وزیراعلی پنجاب فیروز خان نون سے ملنے ان کے گھر گیا کہ تمہارے نانا مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ سے اچانک ملاقات ہو گئی۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کیسے تشریف لائے؟ انہوں نے بتایا کہ میں سردار محمد خان لغاری (سردار فاروق احمد خان لغاری کے والد)کو صوبائی وزیر بنوانے آیا ہوں۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ انہیں لغاری صاحب کے علاوہ میری بھی سفارش کرنی چاہیے تھی۔ جب میری ملاقات نون صاحب سے ہوئی تو انہوں نے کہا کہ تم وزیر اعلی پنجاب ہو اور مجھے اپنی کابینہ بنا کر دو۔ میں نے کہا کہ میں وزیراعلی نہیں ہوں، آپ ہی ہیں اور یہ استحقاق بھی آپ ہی کا ہے۔ مگر وہ بضد تھے کہ کابینہ مجھے ہی بنانی ہے۔ میں نے کابینہ کے لیے پانچ نام تجویز کیے جن میں سردار محمد خان لغاری، رانا عبدالحمید، مظفر علی قزلباش، چوہدری علی اکبر اور شیخ مسعود صادق کے نام شامل تھے مگر جب کابینہ کا اعلان ہوا تو ایک نام کا اضافہ تھا اور وہ نام میرا تھا۔


والد محترم نے 1953 میں فیروز خان نون کی کابینہ میں بطور وزیر صحت و بلدیات حلف اٹھایا۔ وزارتِ بلدیات عوام کے ساتھ رابطے اور مقامی سطح کے کام کروانے کے نقطہء نظر سے اہم ہے۔ والد صاحب نے وزیر صحت کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دیں۔  اس دور میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی تھی اور دیہی علاقوں میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس اہم انسانی مسئلے کے فوری حل کے لیے والد صاحب نے وکٹوریہ ہسپتال، بہاولپور میں ایل ایس ایم ایف میڈیکل سکول کی بنیاد رکھی۔ میٹرک کے بعد اس سکول میں تین برس کا میڈیکل کورس کروایا جاتا تھا جس کے بعد دو برس تک دیہی علاقے میں خدمات انجام دینے کی لازمی شرط پوری کرنے پر متعلقہ امیدوار ایم بی بی ایس کے امتحان دینے کا اہل قرار پاتا تھا۔ ماموں مخدومزادہ سید حسن محمود اس دور میں بہاولپور ریاست کے وزیر اعلی تھے۔ انہوں نے اس نیک کام کے لیے بنیادی ضروریات بہم پہنچائیں اور یوں ایک دردمند دل کی انقلابی سوچ نے نہ صرف دیہی علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کر دیں بلکہ ملک میں ڈاکٹروں کی شدید کمی دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 


1953 میں والد محترم کے پارلیمانی سیکرٹری چوہدری فضل الہی تھے جو بعد میں صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سردار عطا محمد خان لغاری محکمے کے سیکرٹری تھے جو بعد میں رکن صوبائی اسمبلی ایم پی اے منتخب ہوئے۔ والد کو اس حیثیت سے بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ صوبائی وزیر صحت و بلدیات بننے پر 1954 میں انہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہر ضلع میں ایک لائبریری ہو تاکہ عوام کی کتابوں تک رسائی ممکن بنائی جا سکے۔ اس سلسلے میں قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان میں ایک وسیع میونسپل لائبریری کا افتتاح کیا جو ملتان کے لیے ایک عظیم علمی خزانہ ہے۔  وہ 1956 کا آئین بنانے والوں میں شامل تھے۔ آئین کی اہمیت اور تقدس کو ان سے بہتر کون جان سکتا ہے جنہوں نے قیامِ پاکستان کے لیے ان گنت قربانیاں دی ہوں۔ آئین پاس ہونے پر انہوں نے تمام اراکین کے ساتھ بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ننگے پاؤں ان کے مزار پر حاضری دی۔ ان کے اس عمل میں قوم کے لیے پیغام تھا کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں سے محبت اور ان کا ادب و احترام ان کی زندگی اور بعد از زندگی برقرار رکھتی ہیں۔ دنیا کی مشہور سوانح عمری "The World's Who's Who 1954-55 Edition" میں بھی ان کا نام شامل ہوا۔اکتوبر 1958 میں جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کیا اور 1956 کا آئین معطل کر دیا۔

'تحریک پاکستان' کے کارکنوں اور چوٹی کے سیاستدانوں کو ایبڈو کے ذریعے نااہل کر دیا گیا۔ اس بدنامِ زمانہ قانون کی زد میں آنے والوں میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، آئی آئی چندریگر، فیروز خان نون، خان عبدالقیوم خان، محمد خان لغاری، کرنل (ر) عابد حسین، سید حسن محمود، ایوب کھوڑو، پیر الہی بخش، جی ایم سید، قاضی علی اکبر، قاضی عیسی اور کئی دیگر رہنماں کے علاوہ میرے والد بھی شامل تھے۔ 
میں نے ہمیشہ والد کو اپنے بھائیوں کے ہمراہ عیدمیلاد النبیﷺ کے مرکزی جلوس، دس محرم الحرام اور ہر جمعرات کو دربار حضرت پیر پیراں موسی پاک شہید پر حاضری دیتے ہوئے دیکھا۔ وہ جمعرات کو بڑی ہمشیرہ کے پاس جاتے اور رات کا کھانا خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر کھاتے، یہیں پر خاندان کے اکثر معاملات اور مسائل پر گفتگو ہوتی۔ یہ سلسلہ خاندان میں اتفاق قائم رکھنے کا موجب تھا۔والد محترم کو لاہور بہت پسند تھا۔ وہ جب بھی لاہور جاتے تو داتا دربار حاضری ضرور دیتے تھے۔ کبھی کبھار دربار میاں میر پر بھی حاضری کے لیے جاتے تھے۔ کئی مرتبہ میں بھی ان کے ہمراہ گیا۔ وہاں پر میری ممانی رضیہ حسن محمود کا مزار بھی ہے۔ ممانی رشتہ میں فاروق لغاری کی پھوپھی اور سابق وفاقی وزیر بیگم عفیفہ ممدوٹ کی ہمشیرہ تھیں۔ مجھے زمانہ طالب علمی ہی سے والد لاہور کے اپنے چیدہ احباب سے روشناس کرواتے رہے۔والد صاحب ہمیشہ تین رمضان المبارک کو اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرتے اور کہتے کہ یہ بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے وصال کا دن ہے۔ اس دن اپنے دوستوں کو مدعو کرتے اور اس دن کی مناسبت سے احباب کو تبرک کھلاتے تھے۔ زندگی بھر انہوں نے اس روایت کو نہایت محبت و شوق سے نبھایا۔ اتفاق ہے کہ وہ اسی دن یعنی تین رمضان المبارک مورخہ 9 اگست 1978 کو نشتر ہسپتال، ملتان میں انتقال کر گئے۔ اِنا لِلہِ و اِنا اِلیہِ راجِعون۔
والد باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اپنی وفات سے ایک روز قبل انہوں نے ڈائری میں احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر لکھا:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
آج والد صاحب کو ہم سے بچھڑے 44برس ہو گئے اور ان کی یاد کی شمع ہمیشہ ارد گرد روشن رہتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -