شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 22
میں نے نہ اس سے پہلے اتنے شیر یکجا دیکھے تھے نہ اس کے بعد دیکھے ۔کسی معتبر شکاری نے بھی اس قسم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔یہ ایک بالکل غیر معمولی اتفاق تھا۔
ایک آدم خورشیر کے اس طرح اتفاقاًمل جانے سے مجھے خوشی ضرور ہوئی ،لیکن اب میں اپنے جھولا بن تک جانے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگیا۔شیر مڑھی کے گردونواح میں تھے۔مجھے مڑھی ٹھہر نے کا خیال ہوا۔پھر سوچا کہ اس علاقے میں دو فائر ہوجانے اور ایک ساتھی کی موت کے بعدیہ تینوں آدم خور قریب تو کہیں ٹھہرنے کے نہیں ۔
میں نے فیصلہ کیا کہ جھولا بن جانا مفید ہوگا اور سفر جاری رکھا۔۔۔ڈھائی بجے بعد دوپہر ہم لوگ جھولا بن پہنچے تو میں نے پہلی بار رام سروپ سے بات کی ۔وہ پہلے ہی اس موقعے کا منتظر تھا ،میرے چھیڑتے ہی اس کی زبان قینچی کی طرح چلنے لگی۔رام سروپ کو ماگھ کی شناخت میں کمال حاصل تھا اور اس نے ماگھ کی ہی بنا پر تصدیق کی کہ جس شیر کو میں نے مارا وہ ان چار آدم خوروں میں سے ایک ہے ۔۔۔۔ایک مرتبہ ماگھ دیکھنے کے بعد وہ تمام عمر نہیں بھولتا تھا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 21 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جھولا بن کے سات آدمی ان آدم خور وں کا شکار ہو چکے تھے ۔گاؤں والوں نے ان وارداتوں کی جو تفصیل مجھے سنائی اس کا اعادہ کرنا غیر ضروری طوالت کا باعث ہوگا۔ان وارداتوں میں سے آخری واردات کی تفصیل سے قطع نظر کرکے صرف یہ بتادینا کافی ہے کہ جھولا بن کا ساتواں شکار دو آٹھ سالہ اور چھ سالہ بچیاں تھیں ۔ان کے ماں باپ کھیت میں ہل چلارہے تھے اور یہ بچیاں ان سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر کھیت کی مینڈھ کے کنارے بیٹھی مٹی کے گھر وندے بنا رہی تھیں۔گاؤں والے بتاتے تھے کہ دونوں بچیاں بڑی خوب صورت اور سمجھ دار تھیں اور ان کی آپس کی محبت قابل رشک تھی۔
دوپہر سے ذرا پہلے کا وقت تھا کہ ایک جھاڑی سے کسی شیر نے نکل کر ایک بچی کو جو جھاڑی کی طرف پشت کیے بیٹھی تھی،گردن سے پکڑ کر کھینچا۔دوسری بچی نے اپنی بہن کو شیر کا لقمہ بنتے دیکھا تو چیخ کر دوڑی اور قریب پڑا ہوا گھاس کاٹنے کا ہنسیا اٹھا کر شیر کو مارا ۔اتنی سی بچی کی یہ ہمت قابل صد ستائش ہے۔ہنسیا شیر کے کان کے نیچے پڑا اور سر پر سے کان سمیت ایک بوٹی اڑ گئی ۔۔۔۔لیکن اسی اثنا میں دوسرے شیر نے اس بہادربچی کو کمرسے پکڑ لیا۔ماں باپ دوڑے ۔بہت کچھ شور وغل کیا ،لیکن شیر دونوں کو لے کر غائب ہوگئے۔
جب گاؤں کے نوجوانوں کی ایک مسلح جماعت تلاش کے لیے نکلی تو ماگھ اور دوسرے نشانات سے پتہ چلا کہ شیر دونوں بچوں کو لے کر ندی پار کر کے جھولا بن میں داخل ہو گئے ہیں ۔یہ لوگ جنگل میں کچھ دور تو گئے لیکن آگے جھاڑیاں بے حد گھنی اور راستہ دشوار گزار تھا ۔اس لیے ان کی ہمت نے جواب دے دیا۔یہ واقعہ بہت دردناک تھا اور میں بہت متاثر ہوا۔اصولاًمجھے لڑکیوں کے والدین سے گفتگو کرنا چاہیے تھی ۔کیونکہ وہ لوگ اس واردات کے چشم و دید گواہ تھے ،لیکن میں نے ان کو صرف اس وجہ سے نہ بلوایا کہ میں ان کی گریہ وزاری برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
شیر نوجوان ہونے کی وجہ سے انسانوں کے علاوہ بڑے جانوروں کو بھی گرا لیتے تھے ۔اس لیے میں نے دو بھینسے گاؤں سے لے کر دو مختلف مقامات پر بندھوائے ۔۔۔۔ندی کے جنگل والے کنارے پر کوئی میل بھر اندر جانے کے بعد ایک خشک نالہ تھا۔اس مقام پر برگدکا ایک بڑا تناور درخت تھااور ماگھ بھی بکثرت تھے ۔میں نے برگد کے اس درخت پر مچان بندھوائی اور بھینسا درخت سے تقریباًبیس گز دور نالے کے عین کنارے بندھوادیا۔۔۔۔دوسرابھینسا اس مقام سے تقریباًدو میل کے فاصلے پر واقع پہاڑی کے دامن میں اس جگہ بند ھوایا،جہاں ایک جنگلی پگڈنڈی مڑھی جانے والے راستے سے ملتی تھی۔
رام سروپ کی ماگھ شناسی اور جنگل سے واقفیت کی بنا پر میں نے اس کو بھی ساتھ رکھا۔اتفاق سے اسی روز مڑھی سے چھ آدمیوں کی ایک جماعت جھولا بن پہنچی اور انھوں نے بیان کیا کہ جھولابن سے کوئی میل بھر ہی انھوں نے دوپہر کو دو شیروں کے بولنے کی آواز یں سنی تھیں۔یہ بات اس لیے ہمت افزاتھی کہ میں اسی شام مچان پر بیٹھنے کو تھا۔اس اطلاع سے یہ معلوم ہوگیا کہ حسب عادت شیر جھولا بن کے نواح میں موجود ہیں اور کراریہ کا چکر لگانے سے پہلے جھولابن یا اطراف کی کسی اور مختصر آبادی کے کسی شخص کو لقمہ تر بنا بنانے کی کوشش ضرور کریں گے۔ مجھے لوگوں کے بیانات سے معلوم ہوا تھا کہ شیر ایک دائرے کی صورت میں کراریہ سے جھولابن تک گھومتے رہتے تھے۔کراریہ ،مڑھی،جھولابن اوراس کے آگے پنچگوڑہ ۔۔۔اس کے بعد پھر اسی ترتیب سے کراریہ واپس آجاتے تھے۔
میں ،رام سروپ،میرا ملازم دلاور اور گاؤں کے پانچ چھ مضبوط جوان ،سہ پہر کو تین بجے گاؤں سے نکلے اور تقریباًپینتالیس منٹ بعد برگدکے اس درخت تک پہنچ گئے ،جہاں مچان بندھی تھی۔پہلے دلاور مچان پر چڑھا اور اچھی طرح دیکھ بھال کے بعد رسی کی سیڑھی لٹکا دی تو میں چڑھ گیا۔اس کے بعد رام سروپ بھی آگیا۔
تھوڑی دیر بعد گاؤں والوں نے بھینسا باندھا او رمیری ہدایت کے مطابق زور زور سے باتیں کرتے گاؤں کی طرف چلے گئے۔ میں نے اپنی چار سو پچاس بور کی رائفل پر سات سیل والی ایک تیز ٹارچ لگالی تھی۔ قریب ہی ایک تین سو پچھتر میگنم اور تھرٹی سپرنگ فیلڈ رکھی تھی۔ دلاور کے ہاتھ میں میری بارہ بور کی بندوق تھی اور رام سروپ اپنی منرل لوڈر لئے ہوئے تھا۔ ہم لوگ ساڑھے چار بجے مچان پر بیٹھے اور شیروں کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔(جاری ہے)