ظالمانہ ٹیکس
کسی گاؤں میں ایک گورکن ہوا کرتا تھا وہ عجیب حرکت کرتا تھا جیسے ہی کوئی نئی قبر بنتی وہ اسی رات قبر کشائی کرتا مرنے والے کا کفن نکالتا اور اسے بازار میں فروخت کرآ تا وقت گزرتا گیا آخر کسی نے اسے قبر کی بے حرمتی کرتے دیکھ لیا اس نے یہ واقعہ گاؤں کے نمبردار کو بتایا اگلی تدفین کا انتظار کیا گیا جیسے ہی نئی قبر بنی گاؤں والوں نے قبرستان میں چھپ کر اس کی کاروائی کا انتظار کیا رات ہوتے ہی اس نے حسب معمول قبر کھودنا شروع کر دی جب اس نے تقریبا آدھی مٹی ہٹا لی تو گاؤں والوں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اس کی خوب چھترول کی منہ کالا کر کے گاؤں کا چکر لگوایا اور اسے علاقہ بدر کر دیا اور نیا گورکن رکھ لیا گاؤں والوں کی قسمت خراب کہ یہ اس سے بھی بڑا ظالم نکلا اس نے کچھ ڈاکٹروں کے روپ میں کالی بھیڑوں کو ساتھ ملایا وہ بھی رات ہوتے ہی قبر کشائی کرتا لاش نکال کر ہسپتال لے جاتا اور کفن کے ساتھ اس کے جسم میں کے جو اعضاء کام آ سکتے نکلواتا اور لاش کو صبح ہونے سے پہلے دفن کر دیتا کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس کی اصلیت سامنے آ گئی گاؤں والوں نے اس کے ساتھ پہلے سے بھی بدتر سلوک کیا اور اسے بھی نکال دیا اور پھر تیسرا رکھ لیا۔ بدقسمتی سے گزشتہ پچھتر سالوں سے ہمارے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے ایک سیاسی جماعت نئے ٹیکسز لگاتی ہے مہنگائی کرتی ہے اپوزیشن میں بیٹھے سیاستدان ان کے خلاف چانگڑیں مارتے ہیں اور جب حکومت میں آتے ہیں تو خود بھی وہی کرتے ہیں اگر میں غلط نہیں ہوں تو ہمارے پارلیمانی نظام میں صرف حکومت ہی ہوتی ہے اپوزیشن نہیں اور یہ سب آ پس میں کزن ہیں ان کے مفادات سانجھے ہیں اگر حکومتی جماعت اپنی عیش و عشرت اور عیاشیوں کے لیے ٹیکس لگاتی ہے تو اپوزیشن دو چار بیان دیتی ہے اور پھر خاموشی سے سب مل بانٹ کر موج کرتے ہیں اور عوام جائیں بھاڑ میں۔
حالیہ بجٹ نے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو یکسر پریشان کیا ہے بجٹ کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ حکومت نے تمام ملکی اخراجات بجلی اور گیس بیچ کر ہی پورے کرنے ہیں کسی بھی حکومتی رکن یا بجٹ ساز کمیٹی کے ممبر سے بات کر لیں اس کے پاس بہت آسان جواب ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی تجویز پر بنایا گیا ہے تو جناب وزیراعظم آئی ایم ایف سے قرض غریب عوام کی حالت بہتر کرنے کے لیے نہیں بلکہ اشرافیہ کی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے لیا جاتا ہے جس کی واپسی اسی طرح غریب کا خون نچوڑ کر کی جاتی ہے حضور بجلی کے بل میں سوا سو ٹیکس لگانے سے اگر کام نہیں چل رہا تو ایک بار وزیراعظم ہاؤس، صدر،ججز،آرمی افسران،بیوروکریٹس اور تمام مراعات یافتہ طبقے کی مراعات میں کمی لا کر دیکھ لیں امید ہے ملک خسارے سے بچ جائے گا اگر پھر بھی کوئی کسر نظر آئے تو ہزاروں کی تعداد میں سرکاری گاڑیوں سرکاری گھروں کے اخراجات کم کر لیں بات بن جائے گی لیکن میرے خیال میں آپ ایسا نہیں کر پائیں گے کیونکہ جس طرح بیوروکریسی نے نظام کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے وہ آ پ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔
جناب وزیراعظم پھر یوں کر لیں کہ جہاں آپ نے ملکی معیشت کی بحالی کا وقت ایک سال مقرر کیا ہے اسے بڑھا کر دو سال کر لیں کیونکہ یک دم بجلی کی قیمتوں اور ٹیرف میں ظالمانہ اضافہ آپ کی محنت اور عوامی حمایت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگا اس کے ساتھ ظالمانہ آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی فرمائیں جتنے پروڈکشن یونٹ زیادہ خرچ اور کم آؤٹ پٹ دے رہے ہیں ان سے معاہدے فورا ختم کر دیں اور صرف آ پ ہی یہ کر سکتے ہیں ورنہ سال2032تک یہ جونکیں ملک اور غریب عوام کا خون چوستی رہیں گی جناب وزیراعظم آپ کی حکمرانی میں ٹیرف کے نام پر ایک ایسا خاموش قاتل عوام کے پیچھے کھڑا ہے جو کسی وقت کسی کو بھی اپنے شنکجے جھکڑ کر مارسکتا ہے برائے کرم ان ٹیرف سازوں کو طلب فرمائیں اور ان سے اس ظلم کا حساب لیں اور انہی کے ساتھ مل کر بجلی کے بلوں کے لیے کوئی ایسی ترتیب واضح کر دیں کہ دوبارہ تلمبہ کی کسی بلقیس کو بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے اپنی گڑیا کے کانوں سے بالیاں اتار کر فروخت نہ کرنی پڑیں یا چونڈا کے کسی ارشد کو بجلی کے بل کی وجہ سے پھندے سے نہ جھولنا پڑے یا شورکوٹ کی کسی گمنام خاتون کو بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے اپنا آ پ کسی نواب کے پاس گروی نہ رکھنا پڑے۔
جناب وزیراعظم میرے خیال میں بلقیس ارشد اور گمنام خاتون کے ساتھ سرعام ڈکیتی ہوئی ہے اور اس میں سب شامل ہیں بجلی کی قیمتوں سے کمائی کرنے کی بجائے ملک کی ایکسپورٹ میں اضافہ کر کے دیکھ لیں میرے خیال میں بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے سال 2024 میں بے شک سڑکوں کی تعداد کم کر دیں اپنے ٹارگٹ سے کچھ پروجیکٹس کو خارج کر دیں میرے ملک کے لوگ اتنے بڑے بڑے بل ادا نہیں کر سکتے۔
جناب وزیراعظم خدارا ہم پر رحم فرما دیں ہم اس ملک کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے ہمیں اتنی بے رحمی سے نہ کچلیں کہ ہم اپنے ہی ملک میں قیدیوں کی طرح زندگی گزاریں جتنی جلدی ممکن ہو بجلی کی قیمتوں پر نظر ثانی فرمائیں عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے اور یہ خودکشیوں تک پہنچ چکے ہیں ہم آپ کے اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے شکر گزار ہیں بے شک ان اٹھارہ گھنٹوں میں چار گھنٹے کم کر لیں لیکن ہمیں باعزت زندگی گزارنے کا کوئی راستہ ضرور دکھا دیں بلا شبہ ملک اس وقت بہت نازک حالات سے گزر رہا ہے اور یہ سنتے ہمیں پچھتر سال ہو گئے ہیں جبکہ ہمارا ہمسایہ ملک ہمارے ساتھ آزاد ہو کر دنیا کی دوسری تیسری یا چوتھی بڑی معیشت بننے جا رہا ہے سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف تو آپ فرما رہے ہیں کہ بہت سے چینی سرمایہ کار انڈسٹری لگانے پاکستان آ رہے ہیں جناب آ پ اپنی انڈسٹری چلانے میں تو ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے وہ اتنی مہنگی بجلی گیس پٹرول اور اندھا دھند ٹیکسوں میں کیسے انڈسٹری چلائیں گے اللہ کرے آپ نے جو اعلانات کیے ہیں ان میں کامیاب ہو جائیں یہ مشکل فیصلے جلد از جلد مکمل ہو جائیں تاکہ ہم جیسے غریب اور سفید پوش لوگ باعزت زندگی گزار سکیں۔