اجالاشاہد خاقان عباسی کا نیا سیاسی سفر

  اجالاشاہد خاقان عباسی کا نیا سیاسی سفر
  اجالاشاہد خاقان عباسی کا نیا سیاسی سفر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا ہے اور ممکنہ طور پر ان کی نئی جماعت کا نام ”عوام پاکستان“ ہو گا،پارٹی جھنڈے میں دو رنگ نیلا اور سبز ہوگا۔ ذرائع کے مطابق شاہد خاقان عباسی ساتھیوں سمیت پارٹی کا اعلان اسی ماہ کریں گے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور مصطفی نواز کھوکھر بھی ان کے ساتھی ہوں گے،(ن) لیگ کے ناراض ممبران بھی شمولیت کریں گے۔شاہد خاقان عباسی ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور مسلم لیگ ن نے جس طرح ان کی قربانیوں کو نظر انداز کیا اور جس طرح انہیں ٹریٹ کیا ان کیلئے مسلم لیگ ن میں رہنا دشوار ہو چکا تھا۔ قارئین کو بتاتا چلوں کہ جب 1999 بارہ اکتوبر کو نوازشریف کا مشرف نے تختہ الٹا تھا تو شاہد خاقان عباسی اور نوازشریف ایک ہی جیل میں بند تھے اور شاہد خاقان عباسی کو طرح طرح کے لالچ دیئے گئے انہیں وزیراعظم بنانے کا وعدہ کیا گیا اور انہیں کال کوٹھری میں رکھا گیا، ہر طرح کا حربہ استعمال کیا گیا لیکن انہوں نے نوازشریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا اور پھر ہوتا کیا ہے کہ جس نوازشریف کی خاطر شاہد خاقان عباسی نے اتنی استقامت دکھائی وہی نواز شریف، شاہد خاقان عباسی کو جیل کی کال کوٹھری میں چھوڑ کر خود جدہ کے سرور محل جا پہنچے اور شاہد خاقان نوازشریف کی اس حرکت پر حیران رہ گئے۔ لیکن اتنے بڑے دھوکے کے باوجود شاہد خاقان عباسی نے نوازشریف اور مسلم لیگ ن کا ساتھ نہ چھوڑا اور پھر جب نوازشریف کو پانامہ کیس میں نا اہل کیا گیا تو یہ شاہد خاقان عباسی ہی تھے جنہوں نے مشکل حالات میں وزیراعظم بننا قبول کیا اور پارٹی کی بہتری کیلئے وزارت عظمی کا کانٹوں بھرا سیج قبول کرتے ہوئے ن لیگ کو مشکل حالات میں بھی سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے بعد عمران خان کا کٹھن دور آتا ہے اور شاہد خاقان عباسی پر ایل این جی میں کرپشن کا الزام لگا، نیب کی جیل میں وہ بند رہے لیکن ان کے قائد نوازشریف خود ایک پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر واپسی کا وعدہ کر کے علاج کیلئے باہر چلے گئے اور چار سال تک واپس نہ آئے اور ان کی غیر موجودگی میں یہ شاہد خاقان عباسی ہی تھے جو ن لیگ کے جلسوں کی رونق کو بڑھاتے رہے اور بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے اور جیلیں بھی کاٹتے رہے۔ اس دوران پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے ان پر بھرپور دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ن لیگ کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آ جائیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا، ان پر ایل این جی کرپشن کیس ختم کر دیا جائے گا اور انہیں حکومتی عہدے دیئے جائیں گے۔ لیکن شاہد خاقان عباسی نے ایک بار پھر پارٹی کا ساتھ دیا اور ن لیگ کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ شاہد خاقان عباسی جو 1988سے کوچہ سیاست میں ہیں جن کی سیاسی اننگز 36سال پر محیط ہے حق تو یہ تھا کہ جب پارٹی عہدے دیئے جا رہے تھے تو انہیں مریم نواز یا حمزہ شہباز سے بالا تر عہدہ دیا جاتا لیکن ہوتا کیا ہے کہ انہیں پارٹی میں مریم نواز کا ماتحت کر دیا گیا یعنی ایک شخص جس نے پارٹی کو چھتیس برس دیئے اور ایک وہ شخصیت جو پارٹی قائد کی دختر ہیں جن کی سیاسی زندگی محظ دس برس پر محیط ہے انہیں ایک طویل سیاسی تجربہ رکھنے والے شخص کے اوپر چیف آرگنائزر مقرر کر دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شاہد خاقان عباسی نہ سہی لیکن کسی تجربہ کار ن لیگی سیاست دان کو پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کیا جاتا لیکن مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنانے سے ن لیگ میں ایک دراڑ بنی اور شاہد خاقان جیسا گوہر نایاب ن لیگ کو چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ شاہد خاقان عباسی جیسے سیاسی کارکنان جو پارٹیوں کی پہچان ہوتے ہیں اور جن کی پارٹی سے وابستگی ہی پارٹی کیلئے سرمایہ ہوتی ہے ان جیسے سیاسی کارکنان یا لیڈران کو مجبورا سیاسی پارٹیاں چھوڑنے پر مجبور کرنا ہماری سیاسی جماعتوں کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ شاہد خاقان عباسی جیسے لوگوں کا نئی سیاسی جماعت بنانا ظاہر کرتا ہے کہ ایسے سیاسی لوگ جو کرپشن سے پاک ہیں، جن کے دامن صاف ہیں جو ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں جو ملک کو آگے لے کر بڑھنا چاہتے ہیں جو ملک میں دشنام طرازی کی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں ان جیسے لوگوں نے اگر نئی پارٹی بنانے کا اعلان کر دیا ہے تو پھرصاف ظاہر ہے کہ موجودہ سیاسی پارٹیاں جن میں ن لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی شامل ہیں یہ ملک کے نظام کو بہتر طریقے سے چلانے میں ناکام ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے ان تینوں سیاسی پارٹیوں کے بہتر لوگ ایک نئی جماعت بنانے جا رہے ہیں۔ ان تینوں سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہئے کہ ایسے سیاسی کارکنان جو ان پارٹیوں میں برسوں رہتے ہیں لیکن آخر کار مایوس کیوں ہو جاتے ہیں، شاہد خاقان عباسی کے علاوہ ماضی میں ن لیگ کے غوث علی شاہ، جاوید ہاشمی جیسے سینئر سیاست دان بھی پارٹیاں چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اسی طرح پی پی اور پی ٹی اآئی کو بھی برسوں اپنی سیاسی زندگی بخشنے والے سیاسی کارکنان بھی پارٹیاں چھوڑنے پر مجبور ہوئے،یہ لوگ اس لئے پارٹیاں چھوڑ رہے ہیں کہ موجودہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کے علاوہ ان کے پاس کوئی ملکی مسائل کا حل موجود نہیں ہے، بس ہر کوئی اپنی باری لینے کیلئے سازشیں بن رہا ہے، دعا ہے کہ شاہد خاقان عباسی سمیت جو لوگ بھی نئی سیاسی پارٹی بنانے جا رہے ہیں اللہ انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب کرے اور ان کی یہ کاوش پاکستان کی بہتری کا باعث بنے، آمین۔