چھوٹے میاں سبحان اللہ!

چھوٹے میاں سبحان اللہ!
چھوٹے میاں سبحان اللہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زمانہ یا دور کوئی بھی ہو، ایسے حضرات ضرور پائے جاتے ہیں جن کے حوالے سے لطائف مشہور ہو جاتے اور عام لوگوں کا بھی ہاسا نکل جاتا ہے،آج کے انصافی دور میں اور تو اور آبی وسائل کے وفاقی وزیر فیصل واوڈا ہی کافی ہیں جو چپ رہ جائیں تو عوام بے چین ہوتے ہیں اور وہ بولیں تو رونے کو جی چاہتا ہے اور ہمارا تو اپنا ہاسا نکل جاتا ہے۔

ہم نے جب ٹیلی ویژن پر ان کو پستول لگائے اور کمانڈو ٹائپ ایکشن کرتے دیکھا تو تبھی جان گئے تھے کہ حضرت یقینا تفنن طبع کے سامان پیدا کرتے رہیں گے اور پھر انہوں نے بار بار ایسا کیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں نوکریوں کی بارش کرا دی، حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب سے تحریک انصاف برسراقتدار آئی ہے۔

نوکریاں ملنا تو کجا، یہاں برطرفیوں کی لائن لگ گئی ہے اور تو اور میڈیا میں جو جھاڑو پھرا ہے اس نے سینکڑوں نہیں ہزاروں کارکن بے روزگار کر دیئے، یہ حضرات دودھ کی نہریں بہا رہے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ 50لاکھ گھر بنا کر دینا ہیں اور لوگوں سے ان کی چھتیں چھینی جا رہی ہیں، تجاوزات کے حوالے سے بستیاں صاف کر دی گئیں کوئی متبادل انتظام نہیں ہوا۔
بات محترم وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی تھی۔ ان فیصل واوڈا صاحب نے کروڑوں نوکریوں کی بارش کے بعد ایک اور درفنطنی چھوڑی ہے۔ مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر فرماتے ہیں۔ پاکستانی قوم قربانی دینے والی ہے، پٹرول دو سو روپے لیٹر بھی ہو جائے تو یہ اف نہیں کریں گے اور اس کے بعد ہی تو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے حوالے سے پٹرولیم کے نئے نرخ شائع کئے گئے اور پٹرول نو روپے 35پیسے فی لیٹر بڑھا کر 108 روپے فی لیٹر کر دیا گیا وزیراعظم عمران خان تو کہتے ہیں، انشاء اللہ نیا پاکستان بنا کر دم لوں گا، صبر کریں، جلد اچھا وقت آئے گا اور فیصل صاحب فرماتے ہیں پٹرول دو سو روپے فی لیٹر دوں گا۔ یوں یہ وہی حساب ہے ”بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ“……
فیصل واوڈا کی آنیاں جانیاں اور پھرتیاں دیکھ کر ہمیں اپنے دوست پیارے سید ناصر علی شاہ (مرحوم) یاد آ جاتے ہیں، ہم ان دنوں روزنامہ امروز میں کورٹ رپورٹنگ کی بیٹ پر مامور تھے روزانہ کچہری جانا ہوتا تھا، تب لودھی صاحب اے ڈی سی (جی) اور سید ناصر علی شاہ سٹی مجسٹریٹ تھے۔

ماشاء اللہ اللہ بخشے جوڑی اچھی تھی۔ ایک بار سید ناصر علی شاہ نے عدالت لگا رکھی تھی۔ پولیس نے ایک نوجوان کو چوری کے مقدمہ میں پیش کیا، اس نے ایک مسجد سے گھڑی چوری کر لی تھی۔سید ناصر علی شاہ نے ملزم سے بہت پیار والا سلوک کیا، بولے بیٹا سچ سچ بتا دو، تم نے یہ گھڑی چوری کی تھی۔

اللہ کے گھر میں تو اللہ کا مال ہوتا ہے، ہم اور خود ملزم نے بھی یہی تاثر لیاکہ شاہ صاحب رعائت کرنے والے ہیں اور تنبیہ کرکے ملزم کو چھوڑ دیں گے، ملزم نے اعتراف جرم کر لیا۔ اور غلطی کے لئے معافی کا طلبگار ہوا۔ شاہ جی نے کچھ توقف کیا اور پھر حکم سنایا اور ملزم کو چھ ماہ قید کی سزا دے دی اور ساتھ ہی پولیس والوں سے مخاطب ہوئے ”بڑا اچھا بیٹا ہے، اس نے سچ بولا ہے، اسے ”چھاویں چھاویں“ (سائے میں) لے کے جانا“ تو یہاں بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ عوام کی سانس آئے نہ آئے ان کو صبر کرنا ہو گا۔ فیصل واوڈا کے بقول پٹرول دو سو روپے فی لیٹر ہوتا ہے۔

تاہم ہمارا خیال ہے کہ یہ حکومت کم از کم ایک ڈالر کے برابر فی لیٹر ضرور کر دے گی اور عوام عیش کریں گے کہ وزیراعظم نے سب اچھا ہونے کی نوید سنائی ہے۔ ویسے بھی ان کے پاس کہنے کے لئے ”کرپشن، نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں دوں گا“ کے سوا اور کیا ہے؟ کہ فیصل واوڈا جیسے حضرات 200روپے فی لیٹر کی بات کرتے ہیں کہ خود بھی طبقہ اشرافیہ سے ہیں اور سرکاری پٹرول بھی دستیاب ہے۔
رہ گئے وزیراعظم عمران خان تو شائد اب ان کو پارلیمنٹ اور اپنی تعداد کا احساس ہونے لگا ہے کہ انہوں نے صدارتی نظام کے حوالے سے تردید کی اور غیر منتخب حضرات کی کابینہ میں شرکت کا جواز دیا کہ ترقی اور حالات کی درستگی کے لئے باہر سے لوگ لینا ہی پڑتے ہیں، اب انہوں نے پھر سے یہ بھی کہہ دیا کہ کابینہ میں رد و بدل ہو گا ہمارے خیال میں فیصل واوڈا اور مراد سعید جیسے فاضل حضرات کو تو کوئی فکر نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پسندیدہ ہیں کہ ان کے سربراہ جماعت کا تعلق کھیل سے رہا اور شاید وہ ایسے کھلاڑیوں کو پسند بھی کرتے ہیں۔
ہم نے اپنی طرف سے بھرپور مزاح کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو پائے۔ قارئین سے معذرت اور متعلقہ حضرات سے بھی معافی کے خواستگار ہیں کہ بعض باتیں دل لگی کے طور پر لکھ دیں۔ دل آزاری ہوئی ہو تو معاف کر دیں۔چلتے چلتے وزیراعظم عمران خان کو داد دیتے ہیں کہ انہوں نے کنونشن سنٹر میں بلاول بھٹو کو صاحب کہہ کر دلچسپی پیدا کی اور پھر وضاحت کی کہ کبھی کبھی غلطی ہو جاتی ہے۔

انداز بالکل ایسا تھا جیسے ہمارے بچپن کے دور میں کسی دوست کا نام بگاڑ کر لینے کا سلسلہ تھا، بات کرتے کرتے اچانک وہ نام لیتے جو مذکورہ شخصیت کو ناپسند ہوتا جونہی وہ گھور کر دیکھتا تو معافی مانگ لیتے۔ غلطی ہو گئی۔

مزید :

رائے -کالم -