قائد اعظم کی بیٹی سے علامہ اقبال کے نواسے کی ملاقات کے جذباتی مناظر

قائد اعظم کی بیٹی سے علامہ اقبال کے نواسے کی ملاقات کے جذباتی مناظر
قائد اعظم کی بیٹی سے علامہ اقبال کے نواسے کی ملاقات کے جذباتی مناظر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

علامہ اقبال کے نواسے میاں یوسف صلاح الدین پاکستان کی معروف شخصیت ہیں ،انہوں نے قائد اعظم کی اکلوتی اولاد دینا واڈیا کے انتقال کی خبر سن کر ایک معاصر اخبار میں مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنے رنج و الم کا اظہار بھی کیااور ان سے اپنی ملاقات کا احوال بھی سنایاہے۔ یہ بات بذات خود تاریخی حوالہ اور اعزازکا باعث ہے کہ پاکستان کی تیسری نسل کے درمیان پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال کا نواسہ اور اسکو تعبیر دینے والی ہستی قائداعظم کی بیٹی کا دم غنیمت دیکھنے کو ملا ہے۔میاں یوسف صلاح الدین نے جس بے تابی اور جستجو سے واڈیا جناح سے ملاقات کی یہ تاریخ پاکستان کا ایک بڑا واقعہ تھا جب دو بڑی ہستیوں کی اولادیں ملیں تو اسکو خوش آئیند قراردیا گیا ۔میاںیوسف صلاح الدیں پر اس ملاقات نے گہرا اثرا چھوڑا اور انہوں نے واڈیا جناح کے کہنے پر اپنی وہ عادت بھی چھوڑ دی جو ماں کے کہنے پر نہیں چھوڑ پارہے تھے۔ اس مضمون میں پاکستانیوں کی واڈیا جناح سے اچانک ملاقات کا احوال بھی لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم قائد اعظم کی بیٹی کی محبت میں کس قدر جذباتی ہے لیکن اے کاش وہ پاکستان آتی رہتیں تو اس ملک میں قائد اعظم کی روح بیدار ہوجاتی،انکی صورت میں قوم کو قائد اعظم مل جاتے تو وہ انکے پیروں کو دھو دھو کر پیتی۔یہ قوم عشق رسول ﷺ پر ایمان رکھتی اورقائد اعظم ، علامہ اقبال سے قابل قدرعقیدت رکھتی ہے ۔اسکی وجہ صاف ظاہر ہے کہ انہیں قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسی صفات کا حامل کوئی اور سیاسی اور فکری رہ نما نہیں مل سکا جو ان کے دکھوں کا مداوا بنتا۔
میاں یوسف صلاح الدین قائد اعظم کے دست راست اور لاہور کے مئیرمیاں امیرالدین کے پوتے ہیں۔ان کی حویلی تاریخ پاکستان اور لاہور کی ثقافت کا عجائب خانہ ہے جہاں دنیا بھر کی مقتدر شخصیات بھی آتی رہی ہیں اور اس حویلی کے دروبام دیکھ کر ان پر گوناں مسرت جھڑتی ہے۔لیکن ان کی حویلی میں جب قائد اعظم کی بیٹی نے قدم رکھے تو اسکی اہمیت دوچند ہوگئی۔میاں یوسف صلاح الدین اپنے اس مضمون میں لکھتے ہیں’’کل جب ٹی وی پر خبرنشر ہوئی کہ قائداعظم کی صاحبزادی دینا واڈیا انتقال کرگئیں تو ایسے لگا جیسے کوئی بھارئی پتھر سینے پر آلگا ہو، ان کے ساتھ گزری یادوں کی ایک فلم دماغ میں چلنے لگی، 2004ء کی بات ہے جب ان کو دیکھا تو ایسے لگا کہ قائداعظم میرے سامنے کھڑے ہیں۔ ان سے مکمل شباہت، اس طرح رعب دار شخصیت، نفاست کا ایک مجسمہ اور تحکمانہ لہجہ تھا، ان سے لئے وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کا کوئی متبادل نہیں، ان کے بیٹے نسلی واڈیا بھی ان کے ہمراہ پاکستان آئے تھے۔ کرکٹ میچ دیکھنا سبب اور سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ان کا قیام تھا۔ میرے بیٹے جلال صلاح الدین اور دینا واڈیا کے پوتے جہانگیر اور نیس نے امریکن یونیورسٹی میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کی اور اچھے دوست تھے۔ گھر تشریف لانے سے ایک رات قبل جلال نے جہانگیر اور نیس کیلئے کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا جس میں ان کے والد اور دیگر بھارتی دوست بھی موجود تھے۔ نسلی واڈیا سے ملاقات کے دوران میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ کی والدہ سے ملنا چاہتا ہوں تو ان کا جواب تھا کہ ہم تو کل کراچی جارہے ہیں اور وہاں سے ممبئی چلے جائیں گے، یہ سن کر بہت دکھ ہوا، میں نے کہا کہ میری تو ان سے ملنے کی بڑی خواہش تھی، دوسرے دن ان کا فون آیا اور کہا کہ وہ آپ سے ضرور ملنا چاہیں گی اور آپ کے گھر بھی آئیں گی، اب ہم ایک دن مزید یہاں رہیں گے۔ میں نے کہا کہ پھر کھانا بھی میرے گھر کھائیں تو انہوں نے کہا کہ انہیں ایک مشہور کیفے میں جانے کا بہت شوق ہے، اس وقت فوڈ سٹریٹ نہیں ہوا کرتی تھی، تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں وہیں انتظام کردیتا ہوں، وہ اپنے بیٹے نسلی واڈیا، پوتے جہانگیر اور نیس کے ساتھ وہاں تشریف لائیں۔ پی سی بی کے اس وقت کے چیئرمین شہریار اور ان کی فیملی بھی تھی، میرا بیٹا، ان کی بیوی اور فیملی بھی موجود تھی، قائداعظم پیپلزپراجیکٹ کے ایڈیٹر انچیف ڈاکٹرزوارحسین زیدی جنہوں نے قائداعظم پر کتاب بھی لکھی ہوئی ہے وہ بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔ میں نے ان سب سے پہلے یہ کہا کہ آپ کی بہت مہربانی کہ آپ پاکستان آئیں، یہ ہم سب کیلئے بہت بڑی بات ہے تو کہنے لگیں کہ تم کو شہریار کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ جن کی دعوت پر ہم پاکستان آئے۔ میں نے کہا دیکھیں آپ کے والد نے یہ ملک بنایا، ہمیں یہ تحفہ دیا لیکن میرا خیال ہے کہ ہم نے اس کو خراب کردیا ہے تو فوراً بولیں ’’نہیں نہیں، اس طرح کی باتیں مت کرو، یہ بات بالکل نہیں کرنی، یہ ایک عظیم ملک ہے اور یہاں رہنے سے لطف اندوز ہوا کرو‘‘ جبکہ میں تو حقیقت بیان کررہا تھا، یہ قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان تو نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے اپنے والد قائداعظم سے بہت اختلافات تھے تو اس پر کہنے لگیں ’’یاد رکھو، پوری زندگی میں میرا والد سے ایک دفعہ اختلاف ہوا تھا اور وہ میری شادی تھی، اس کے علاوہ ہمارا کبھی کسی چیز پر اختلاف نہیں ہوا۔‘‘ کھانے میں روایتی کھانے کڑھائی، کباب، چانپیں اور مرچوں والی چیزیں تھیں لیکن انہوں نے ہر چیز بڑے شوق سے کھائی، مغز بھی کھائے، سبزی بھی تھی لیکن انہوں نے زیادہ گوشت ہی کھایا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہیں چانپیں بہت پسند آئی تھیں۔ کھانے کے بعد ہم سب حویلی آئے، ان کو اس کرسی پر بٹھایا، جس پر ان کے والد اور علامہ صاحب بیٹھا کرتے تھے، اس کے علاوہ بھی تین کرسیاں وہاں تھیں جن پر قائداعظم کے علاوہ علامہ صاحب اور دیگر بڑی شخصیات بیٹھا کرتی تھیں، وہ تصویر دیکھ کر بہت خوش ہوئیں جس میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ میری والدہ، دادی اور علامہ صاحب کی بڑی بہن بھی ہیں۔ اس کے علاوہ میرے والد، دادا کے ساتھ قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کی میری والدہ اور دادی اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بہت تصاویر انہوں نے دیکھیں۔ جب میرے دادا امیر الدین 1946ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر میئر لاہور منتخب ہوئے تو اس وقت کی تصویر بھی ان کو دکھائی اور بتایا کہ لاہور میں آپ کے والد کے بااعتماد لوگوں میں میرے دادا بھی شامل تھے اور پنجاب کے حوالے سے پارٹی معاملات بارے ان سے مشاورت کرتے تھے۔ اس الیکشن کی خاص بات یہ تھی کہ دونوں امیدواروں کے ووٹ برابر تھے، فیصلہ ہوا کہ ٹاس کرتے ہیں، جس میں میرے دادا جیت گئے، جس پر قائداعظم نے بیان دیا تھا کہ یہ پاکستان کے لئے ایک اچھا شگون ہے تو کہنے لگیں کہ ہاں مجھے یاد ہے کہ لاہور کے میئر کا الیکشن تھا اور انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ہم لاہور کو جیت گئے، وہ اس جیت پر بہت خوش تھے۔ اس کے علاوہ 1940ء کا جو اجلاس ہوا تھا، اس میں میاں امیر الدین پنڈال کمیٹی کے چیئرمین تھے، میرے پاس وہ قالین بھی موجود ہے جس پر قائداعظم نے 23 مارچ کو سٹیج پر کھڑے ہوکر پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ انہوں نے یہ سب دیکھا۔ میں اس زمانے میں اکیلا تھا، جب میں ان کو تصویریں دکھا رہا تھا، اس وقت میرے ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ تھا، والد کی طرح ملتا جلتا چہرہ، ویسی ہی ان کی آنکھیں تھیں اور بولنے کا انداز بھی والد جیسا تھا، گرج دار آواز میں بولیں ’’نوجوان! تمہارا سگریٹ نوشی کرنا مجھے پسند نہیں‘‘ میں شرمندہ ہوا فوراً خیال آیا کہ ان کے والد قائداعظم بھی سموکنگ کرتے تھے اور ان کی وفات ٹی بی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے تو انہوں نے ا پنے روایتی گرجدار لہجے میں کہا کہ چھوڑ دو، میں نے مسکرا کر اور پیار سے پوچھا کہ میڈم کیا یہ حکم ہے، تو بولیں کہ ہاں یہ حکم ہے ا ور مسکرادیں۔ میں نے تب سے سگریٹ پینا چھوڑ دیا، جب اپنی والدہ کو بتایا کہ وہ یہاں آئی تھیں تو ان کے کہنے پر میں نے تب سے سگریٹ پینا چھوڑ دیا،ہے تو حیران ہوکر انہوں نے کہا کہ میں تو تمہیں کئی سالوں سے سگریٹ چھوڑنے کا کہہ رہی ہوں لیکن تم نے نہیں چھوڑے، میں نے کہا کہ وہ قائداعظم کی بیٹی تھیں، آپ صرف علامہ اقبال کی بیٹی ہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ میں آگے کیا کروں، میں نے سیاست چھوڑ دی تھی اور کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا تھا، تو انہوں نے پوچھا کہ تم کیوں سیاست چھوڑنا چاہتے ہو، میں نے ان کو بتایا کہ سیاست تو ہوتی رہے گی اصل میں جو چیز مجھے کھائے جاتی ہے وہ ہماری شناخت ہے جو نوجوان نسل سے ختم ہوتی جارہی ہے کیونکہ حکومتیں اس کی پرواہ ہی نہیں کرتیں، جن چیزوں سے قائداعظم نے خبردار کیا تھا وہ سب ہم کررہے ہیں اور میرے لئے یہ ایک المیہ ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میں کسی طرح یہ سب نوجوان نسل تک پہنچاسکوں۔ میرے والد صاحب تو ہیں نہیں، آ پ ہیں تو آپ سے ہی رائے لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ بالکل تم کو میڈیا میں آنا چاہیے، میڈیا ایک نئی طاقت ہے۔ میں نے کہا، اقبال کہا کرتے تھے کہ میں کوئی شاعر نہیں ہوں، لیکن میرے پاس کوئی اور طریقہ نہیں ہے کہ میں اپنی قوم سے مخاطب ہوسکوں۔ میں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ الیکٹرانک میڈیا میں شاید بہتر انداز میں اپنا پیغام دوسروں تک پہنچا سکوں تو انہوں نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی پھر جب ہم وہاں سے ریستوران کیلئے نکلے تو گاڑی میں انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھالیا، گاڑی میں وہ مجھ سے لاہور کی تاریخ اور تاریخی مقامات بارے پوچھتی رہیں۔ وہ بڑی تازہ دم تھیں۔ تھکاوٹ کا شائبہ تک ان کے چہرے پر نہ تھا حالانکہ اس وقت ان کی عمر تقریباً 84 سال تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ چونکہ لمز کے پاس ہی ہے، ہم کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے تھے تو کئی طالبعلم پاس آگئے، تین خواتین وہاں سے گزررہی تھیں وہ انہیں جانتی تو نہیں تھیں لیکن جونہی انہوں نے دیکھا، فوراً پہچان گئیں اور میز کے قریب آگئیں اور بولنا تک بھول گئیں، تینوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، ’’میڈم‘‘ کہنے کے سوا وہ بات ہی نہ کرسکیں اور منہ چھپا کر وہاں سے چلی گئیں، اس وقت ان کے چہرے سے بڑا درد جھلک رہا تھا اور پھر کہنے لگیں کہ جب اس طرح کی چیزیں ہوتی ہیں، تو مجھے واقعتاً بہت غمگین کرتی ہیں، قدرتی طور پر انہوں نے فخر بھی محسوس کیا ہوگا کہ ان کے باپ کیلئے لوگوں کے دلوں میں اتنا پیار ہے، جس سے وہ خود بڑا پیار کرتی ہیں۔ سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ جب وہ جارہی تھیں تو میں ان کو گاڑی میں بٹھایا اور دروازہ بند کیا، انہوں نے بہت پیار کیا۔ میرے ماتھے اور گال کو چوما اور دونوں ہاتھوں سے میرے ہاتھ کو پکڑ رکھا۔ میرے لئے یہ قیمتی لمحات تھے۔ وہ گاڑی میں بیٹھی تھیں، جب عام لوگوں کو پتہ چلا کہ قائداعظم کی بیٹی ہیں تو وہ سارے وہاں جمع ہوگئے اور گاڑی کے قریب آنے کی کوشش کررہے تھے اور پولیس ان کو روک رہی تھی، تو انہوں نے پولیس کو روک دیا اور کہا کہ انہیں آنے دیں، اس وقت سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جو لوگ وہاں موجود تھے، وہ سب لائن بنا کر کھڑے ہوگئے، انہیں یہ سب کرنے کا کسی نے نہیں کہا تھا، ایک ایک کرکے آگے آتے اور ان سے ملتے، وہ سب سے ہاتھ ملاتیں اور وہاں موجود لوگوں سے ملنے کے بعد وہاں سے گئیں۔ ان سے ملتے ہوئے کچھ دیر کیلئے ایسے لگا، جیسے میرے سامنے قائداعظم ہی کھڑے ہیں، ان لمحات میں مجھ پر جذباتی کیفیت طاری تھی، ان کا یہاں آنا تو میرے لئے سب سے بڑی بات تھی، حالانکہ یہاں لیڈی ڈیانا سے لے کر بہت بڑی شخصیات آئی ہیں، لیکن جو جذبات میرے اس دن تھے، وہ کبھی ہو ہی نہیں سکتے۔ جب بھارت واپس گئیں تو مجھے ان کا خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ آپ جب بھی بھارت آئیں تو مجھ سے ملیں، ان کے پوتوں سے تو کسی نہ کسی طرح رابطہ رہا، لیکن ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔ آخری بات ٹیلی فون پر 2007ء میں اس وقت ہوئی جب میں بھارت گیا ہوا تھا اور وہ اورنگ آباد میں تھیں، ان کے پوتے سے نمبر لے کر ان کو فون کیا، پھر ای میل کی جس میں اپنا فون نمبر بھی دیا، اس کے بعد انہوں نے مجھے فون کیا۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ مجھے بہت اشتیاق ہے اور دل کی بڑی خواہش ہے کہ میں موہنجوداڑو دیکھوں، تو میں نے کہا کہ آپ آئیں، آپ کا اپنا گھر ہے، لیکن اس کے بعد ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -