’’کہاں گئے وہ لوگ‘‘ کمال جو صاحب کمال تھا بے مثال اداکار لاجواب انسان سید کمال

’’کہاں گئے وہ لوگ‘‘ کمال جو صاحب کمال تھا بے مثال اداکار لاجواب انسان سید ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وقت کی لہریں سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں۔ عظیم ہیں وہ فنکار جو اپنے فن کے ذریعے وقت کی لہروں سے نبرد آزما ہوکر انہیں شکست دیتے ہیں اور زمانے کے اورزق پر اپنا نام ہمیشہ کے لئے ثبت کردیتے ہیں ، یوں تو ہماری فلم انڈسٹری میں بے شمار فنکار اور ہنر مند ایسے آئے جو اپنا اپنا کمال دکھا کر دنیا سے چلے گئے مگر پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور اداکاروں میں ایک نام اداکار کمال کا بھی تھا جو اپنے اندر صاحب کمال تھا۔ اس کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں نے اسے نہ صرف ایک اچھا اداکار بلکہ فلمساز، ہدایت کار اور رائٹرز کے طور پر بھی فلمی دنیا میں عالمی شہرت سے ہمکنر کیا۔ اداکار کمال کے والد سید زین العابدین کا تعلق بھارت کے شہر سرہند کے ایک زمیندار سید گھرانے سے تھا۔ ان کی والدہ کا تعلق سرسید احمد خان کے خاندان سے تھا۔ کمال کو گھ روالے بلال کے نام سے پکارتے تھے،1950ء میں فلم انڈسٹری ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت، تعلیم یافتہ اور مردانہ وجاہت سے بھرپور اداکارؤں سے بھری پڑی تھی۔ ان میں اداکار سدھیر، سنتوش کمار، اسلم پرویز، نذیر، یوسف خان، اعجاز درانی ودیگر شامل تھے۔ یہ گھریلو سماجی مسائل پر مبنی اور رومانٹک فلموں کا دور تھا۔ اس دور کے ہیرو اور ہیروئن کے لئے رقص کرنے کی صلاحیت بھی ضروری ہوتی تھی۔1957ء میں اداکار کمال نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ قبل ازیں وہ ممبئی کی فلم نگری میں بھی بطور اداکار تھوڑا بہت کام کرآئے تھے۔ وہ گانے میں اچھلتے کودتے اور رقص کرتے ہوئے پہلے ہیرو کہلائے۔ پاکستان میں کمال کو اس دور کے نامور رائٹرز وفلمساز واداکار علی سفیان آفاتی نے فلمساز وہدایت کار شباب کیرانوی مرحوم سے ملوایا۔ انہوں نے کمال کو اپنی فلم’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں ہیروکاسٹ کرلیا۔ٹھنڈی سڑک ایک مکمل کامیڈی فلم تھی جس میں کمال نے بیک وقت ہیرو، کامیڈین اور رقص کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دیکھنے والے تھے وہ گئے۔ فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ زیادہ کامیاب تو نہ ہوسکی مگر کمال کے فنی کیرئیر کو آگے بڑھاگئی۔ کمال کی شکل اس دور کے کامیاب بھارتی اداکار راجکپور سے بہت ملتی تھی اس لیے بھی فلم بینوں کی توجہ ملی۔ کمال پاکستان آنے سے قبل جب بمبئی میں تھے تو ایک بھارتی اداکار نرگس بھی کمال کو راجکپور سمجھ کرمخاطب کربیٹھی تھیں۔ فلم ٹھنڈی سڑک میں کمال کو بالکل راجکپور کے انداز میں پکچرائز کیا گیا تھا۔ کمال نے بمبئی میں پہلے ’’کمال کپور‘‘ کے نام سے فلموں میں کام کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے بھارت کے مشہور فلمساز وہدایت کار محبوب کی فلم مدراانڈیا کیلئے سکرین ٹیسٹ بھی دیا تھا۔ کمال کو اسی وقت راجکپور کا ہمشکل سمجھا جانے لگا تھا۔ اس میں کمال کا کوئی قصور نہ تھا قدرت نے راجکپور کی طرح کمال کو گورا چٹا رنگ، دراز قد اور فنی صلاحیتوں سے مالا مال کیا تھا۔ کمال نے ابتداء میں بھارتی فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کی بہت کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس دوران فلم فیئر ایوارڈ کی ایک تقریب میں کمال کی ملاقات راجکپور سے ہوگئی۔ راجکپور نے کمال کو اپنی فلموں میں کاسٹ کرنے کا وعدہ کیا۔ فلم فیئر ایوارڈ کے موقع پر کمال اور راجکپور کی اکٹھے تصویر جب اخباروں میں چھپی تو کمال کی شہرت میں بھرپور اضافہ ہوا۔ دوسری طرف کمال کو تین بھارتی فلموں’’ باغی سردار‘‘ جاگتے رہو اور زندگی کے میلے میں جب مختصر کردار ملے تو وہ بھارتی فلم انڈسٹری سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کرلیا۔ پاکستان پہنچنے سے قبل ان کی شہرت لاہور، کراچی کے فلمی حلقوں تک پہنچ چکی تھی۔ یہاں انہیں جب فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں کاسٹ کیا گیا تو ان کا نام کمال کپور سے بدل کر سید کمال کردیا گیا اور یوں وہ فلموں میں کمال کے نام سے کمال دکھانے لگے۔ کچھ ہی عرصے میں کمال پاکستان کی فلمی دنیا کی ضرورت بن گئے۔فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں کمال کی ہیروئن اس وقت کی نامور اداکارہ مسرت نذیر تھیں۔ فلم میں مسرت نذیر کے ہمراہ ایک اور اداکارہ نادرہ بھی اہم کردار ادا کررہی تھی۔ کمال عاشق مزاج طبعیت کے سبب نادرہ کو شادی کا پیغام دے بیٹھے۔ نادرہ کرسچین مذہب سے تعلق رکھتی تھی جبکہ کمال مسلمان اور سید گھرانے سے تھے۔ نادرہ زمانہ شناس عورت تھی اور کمال کی طرف سے شادی کی آفر سن کر ہنس پڑیں۔ اداکارہ مسرت نذیر اپنے وقت کی بڑی اداکارہ اور حاضر جواب طبیعت کی مالک تھیں۔ پھر کمال کے سامنے ان کی حیثیت زیادہ مستحکم تھی۔ ٹھنڈی سڑک کی نمائش کے بعد کمال کی ریلیز ہونے والی دوسری فلم’’مراد‘‘ تھی۔ مراد کا ٹائٹل کردار اداکارالیاس کشمیری نے ادا کیا تھا۔ یہ ایک اہم یادگار کردار تھا۔ فلم کامیاب رہی، فلم میں اداکارہ یاسمین جو اب یاسمین شوکت حسین رضوی ہیں نے بطور ہیروئن کام کیا تھا۔1959ء میں بھارت سے آئے ہوئے فلم ساز منورایچ قاسم نے فلم’’ آج کل‘‘ کا آغاز کیا۔ اس فلم میں کمال کے ہمراہ اداکارہ صبیحہ خانم نے ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ فلم میں کمال کو پھر راجکپور کی طرح عکسبند کیاگیا۔ فلم کی عکسبندی کے دوران فلمساز منور ایچ قاسم کو کمال بہت پسند آئے۔ ان کی بیگم کا ووٹ بھی کمال کی طرف تھا۔ انہوں نے کمال کی منگنی اپنی ایک بیٹی سے کردی۔ کمال کے گھر والے بھی اس منگنی پر رضا مند تھے۔ فلم آج کل ریلیز ہوئی تو ناکام ہوگئی۔ کمال کی منگنگی چار سال قائم رہی۔ اس دوران کمال کے گھر والے منور ایچ قاسم سے جب شادی کی بات کرتے تو وہ آج کل کہہ کر ٹال دیتے۔ ایک روز انکشاف ہوا کہ کمال کی منگنی ختم کردی گئی ہے کمال کی منگیتر کی شادی ایک بینک کے اعلیٰ افسر سے کردی گئی کمال کو اس شادی پر بہت افسوس ہوا۔1959ء میں کمال نے ایک فلم ’’سویرا‘‘ میں پہلی مرتبہ اداکارہ شمیم آراء کے ہمراہ بطور ہیرو کام کیا۔ شمیم آراء کمال کو بہت پسند آئی، فلم’’سویرا‘‘ کراچی میں بنی تھی ، فلم کے ہدایت کار رفیق رضوی تھے، فلم کا ایک گانا عمر تو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں گلوکار ایس بی جون کی آواز میں بے پناہ ہٹ ہوا۔ اس گانے نے نہ صرف گلوکار ایس بی جون کو ہٹ کردیا بلکہ شمیم آرا اور کمال کی پرفارمنس بھی پسند کی گئی۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ دونوں نے شادی کا خواب دیکھنا شروع کردیا۔ شمیم آرا کی خانی اقبال بیگم کو جب خبریں ملی تو وہ غصے سے سیخ پا ہوگئیں۔ انہوں نے شیمیم آرا پر کمال کے ہمراہ کام کرنے پر پابندی لگادی۔ شمیم آرا کو کمال سے علیحدہ کرنے میں کمال کے بڑے بھائی میجر جلال نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ نئی فلم ’زمانہ کیا کہے گا‘ نے کمال کو سپر سٹار بنادیا۔ کمال کی زندگی میں آنے والی دوسری ہیروئن نیلو(شان کی والدہ) تھی۔ نیلو اور کمال کراچی میں بننے والی اردو فلم انصاف میں پہلی بار آئے، اس فلم کے ہدایت کار ایچ صدیقی تھے۔ فلم انصاف اپنے دور کی کامیاب فلم تھی۔ 1962ء میں ہدایت کار حسن طارق کی فلم’’بنجارن‘‘ نیلو اور کمال کے ہمراہ ریلیز ہوئی۔ فلم ناگن کی کراچی کے ساحل سمندر کی شوٹنگ کے دوران کمال نے نیلو سے اپنے عشق کا اظہار ککرتے ہوئے شادی کی پیشکش کردی۔ یہ پیشکش کمال نے سب کے سامنے کی کمال کی اس بے باکی نے نیلو کو پریشان کردیا۔ پھر کمال سے نیلو کے تعلقات محض دوستی تک قائم رہے اور شادی نہ ہوسکی۔ کمال نے بطور فلمساز’’جوکر‘‘ کا آغاز کردیا۔ جس میں نیلو اور شمیم آرا اہم کردار ادا کررہی تھیں بعد میں نیلو کوہٹاکر اداکارہ رانی کو کاسٹ کرلیا گیا۔ پھر شمیم آرا بھی فلم سے علیحدہ ہوگئیں اور ان کی جگہ زیبا آگئی۔ نیلو نے ایک دور میں کمال کا بازو ایک حادثے میں ٹوٹ جانے کی وجہ سے بہت ہمدردانہ کردار ادا کیا تھا۔ نیلو کے ہمراہ معروف شاعر قتیل شفائی نے بھی کمال کی تیمار داری اور مدد میں بھرپور ساتھ دیا تھا۔ کمال کو حادثے کی وجہ سے فلمی بے روزگاری کا بھی سامنا تھا تو نیلو نے کمال کو اپنی دو فلموں میں کاسٹ کرکے بھی انسان دوستی کا مظاہرہ کیا تھا۔ کمال ساری زندگی نیلو کی اس نیکی کا ذکر فلمی حلقوں میں کرتے رہے۔ کمال فطری طور پر کبھی اپنے محسن کو نہیں بھولتے تھے۔ ہدایت کار حسن طارق نے اپنی فلم بنجارن کے ہٹ ہونے پر کمال اورنیلو کو اپنی دوسری فلم ’’قتل‘‘ میں بھی کاسٹ کیا۔ یہ ایک جاسوسی فلم تھی جس میں اداکار محمد علی نے بطور مہمان اداکار کام کیا تھا۔ فلم قتل بھی کامیاب رہی۔1964ء میں ہدایت کار اقبال یوسف کی فلم’’نہلے پہ دہلا‘‘ میں کمال آئے۔ یہ فلم بہت ہٹ ہوئی۔ اس فلم میں کمال کے ہمراہ اداکارہ بہار بیگم ہیروئن تھیں۔ اداکارہ بہار اوراقبال یوسف کا عشق ان دنوں عروج پر تھا جو شادی تک پہنچا مگر دونوں کے درمیان ازدواجی رشتہ زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا۔ کمال پھر اداکارہ زیبا کے ہمراہ فلم ’’دل نے تجھے یاد کیا‘‘ میں ہیرو آئے۔ فلم ہٹ ہوگئی جبکہ کمال اور زیبا کی جوڑی ہٹ ہوگئی۔ کمال ایک ہیرو تھا جو اپنے دور کی ہر ہیروئن کے ہمراہ پسند کیا جانے لگا۔ کمال اور زیبا کی جوڑی کو بھرپور رسپانس فلم’’توبہ‘‘ سے ملا جس کے ہدایت کار ایس اے حافظ تھے۔ توبہ میں پہلے شمیم آرا کو ہیروئن کاسٹ کیا گیا مگر شمیم آرا کی نانی نے کمال کے ہمراہ کام کرنے پر پابندی لگادی تھی لہٰذا شمیم آرا کی جگہ کمال کے ہمراہ کو ہیروئن کاسٹ کیا گیا۔ فلم بہترین سکرپٹ، میوزک اور ڈائریکشن کی وجہ سے سپرہٹ ہوگئی اور یوں اس کا کریڈٹ کمال اور زیبا کو بھی ملا۔ فلم ’توبہ‘ نے کراچی سے لیکر ڈھاکہ تک کامیابی حاصل کی تھی۔ فلم کی قوالی میری توبہ توبہ نے بھی دھوم مچادی تھی اور گلوکار منیر حسین کو بھی قوالی گانے سے بھرپور شہرت ملی تھی۔ کمال کو پھر ہدایت کار ایس ایم یوسف کی فلم’’آشیانہ‘‘ سے بھی شہرت ملی۔ 1964ء میں رانی کے ہمراہ فلم’’ چھوٹی بہن‘‘ میں کمال آئے۔ فلم چھوٹی بہن کے دوران کمال اور رانی کا عشق بھی تیزی سے پروان چڑھتا رہا۔ شمیم آراء کے بعد رانی کو کمال بہت چاہتے تھے۔ چھوٹی بیگم کے بعد رانی کی کمال کے ہمراہ دوسری فلم ’’ایک دل دو دیوانے‘‘ تھی جس کے ہدایت کار رتن کمار تھے۔ فلم کی شوٹنگ سوات کی خوبصورت وادیوں میں ہوئی تھی۔ فلم میں دونوں کی جوڑی کو بہت پسند کیا گیا۔ فلم کے دوران کمال اپنے عزیزواقارب کو ملنے بھارت چلے گئے۔ رانی سے ان کا رابطہ کٹ گیا۔ رانی سے نہ رہا گیا تو وہ بھی کمال کے پیچھے بھارت پہنچ گئی۔ ہندوستان میں دونوں سیر سپاٹا کرکے واپس پاکستان آگئے۔ اس دور کے اخبارات نے رانی اور کمال کی شادی کی بے بنیاد خبریں بھی چھاپ دیں۔ کمال نے رانی سے شادی کا پکا ارادہ کرلیا تھا اس دوران ان کی ذاتی فلم جوکر بھی مکمل ہوگئی تھی اور اس کی ریلیز کے انتظامات بھی کرلیے تھے۔فلم’’جوکر‘‘ کے پریمیر شو کا اہتمام خیام سینما کراچی میں کرنے کی تیاریاں ہوچکی تھیں۔ پریمئر میں کمال کے عزیزواقارب بھی شریک ہونے کیلئے تیا رتھے۔ اس دوران ایک پرستار لڑکی زرین نے کمال سے خط وکتابت شروع کردی لڑکی کی لکھائی بے حد خوبصورت تھی۔ کمال کی زندگی میں یہاں سے ایک نئی تبدیلی آتی ہے اور وہ پرستار لڑکی سے ملاقات کرکے پہلے اس کے عشق او ربعدازں شادی کے لئے رضا مند ہوجاتے ہیں اوریوں دونوں گھرانوں کی رضا مندی سے زرین زرین کمال بن جاتی ہیں۔ دونوں کی ازدواجی زندگی کامیاب رہی۔ کمال کے عشق کا بھوت پھر کبھی نہ ان کے اوپر سوار ہوا اور وہ اداکاری کے ہمراہ اپنا پروڈکشن ادارہ کمال فلمز بناکر ذاتی فلمیں بنانے میں مزید مصروف ہوگئے۔ کمال نے پنجابی فلم’’جٹ کڑیاں تو ڈردا‘‘ جٹ کمالاگیا دوبئی‘‘ انسان اور گدھا‘ بنائیں۔ ان کے علاوہ کمال کی دیگر فلموں میں ’’اپنا پرایا‘‘ وطن، ایاز، دل نادان، خان بہادر، صبح کہیں شام کہیں، گل فروش، جادوگر، بلبل بغداد، دال میں کالا، دل نے تجھے مان لیا، قتل کے بعد، پیار کی سزا، ایسا بھی ہوتا ہے، کون کسی کا، ہم دونوں، درد دل، میں وہ نہیں، سہاگن، میرے بچے میری آنکھیں، البیلا، شب بخیر، عالیہ، دل دیوانہ، دوسری ماں، کھلونا، الف لیلی، شریک حیات، آوارہ، نائٹ کلب، شہنائی، عاشق، بہن بھائی، عورت اورزمانہ، گھر پیارا گھر، نئی لیلی نیا مجنوں، ہنی مون، روڈ ٹو سوات، گھر داماد، چودھویں صدی، دل دے کے دیکھو، مہمان، لوان یورپ، دو باغی، روٹھا نہ کرو، روپ بہروپ، آخری حملہ، فرض، نام کے نواب، بھائی بھائی، اج دی کڑیاں، ہیرا پھیری، کل دے منڈے، دل دل ڈسکو، نوٹاں نوں سلام، ہرفن مولا، فٹا فٹ، لالے دی جان، مشرق مغرب، سیاست، میرا انصاف اور مہندی شامل ہیں۔ اداکار کمال اپنے فلمی کیرئیر میں ایک بنگالی فلم ’’ناچرپتل‘‘ (ناچنے والی گڑیا) میں بھی کام کیا تھا۔ یہ فلم ڈھاکہ میں1971ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔ فلم کے ہدایت کار اشوک گھوش تھے جو موسیقار روبن گھوش کے بڑے بھائی تھے فلم میں مرکزی کردار شبنم اور بنگالی ہیرو رزاق نے ادا ک ئے تھے۔ فلم نے 11ہفتے تک بزنس کیا۔ کمال فلم ہنی مون کی شوٹنگ کیلئے مشرقی پاکستان گئے ہوئے تھے جہاں انہیں بنگالی فلم میں اہم کردار کیلئے کاسٹ کیا گیا تھا۔
اداکار کمال نے اپنے دور کی نامور ہیروئنوں کے ہمراہ کام کیا۔ ان میں مسرت نذیر، شمیم آراء، حسنہ، عالیہ، زیبا، دیبا، رانی، سلونی، یاسمین، نیلو، نیر سلطانہ، لیلی، مینا شوری، بہار، صوفیہ بانو، رخسانہ، غزالہ، شبنم ، صابرہ سلطانہ، نسیم خان، نشو بیگم، نغمہ یگم، شائستہ قیصر، روزینہ، نجمہ، مسرت شاہین، خانم، آسیہ، بابرہ شریف اور دیگر شامل ہیں۔
اداکار کمال کی جوڑی جن ہیروئنوں کے ہمراہ بہت ہٹ ہوئی ا ن میں زیبا فلم آشیانہ، توبہ، ایسا بھی ہوتا ہے، توبہ جبکہ دیبا کے ہمراہ عاشق، سہاگن، میرے بچے میری آنکھیں، شمیم آرا کے ہمراہ اپنا پرایا، زمانہ کیا کہے گا، نائٹ کلب، عالیہ، کھلونا اور نام کے نواب شامل ہیں، اداکارہ حسنہ کے ہمراہ ہنی مون اور بہن بھائی کامیاب فلمیں تھیں۔ اداکارہ روزینہ کے ہمراہ کمال کی جوڑی بھی پسند کی گئی۔اداکار کمال نے اپنے دور کے ہیرروز اعجازدرانی، حبیب، ندیم، وحید مراد اور دیگر کے ہمراہ بھی کام کیا تھا۔ فلم انڈسٹری میں جب پنجابی فلموں کا زور بڑھنے لگا تو کمال نے اداکاری کم کرکے کچھ پنجابی فلمیں پروڈیوس کیں۔ پھر شعبہ سیاست کو اپناکرکراچی سے بطور سیاست دان الیکشن لڑا مگر بری طرح ہار گئے۔ بعدازاں انہو ں نے اپنے سیاسی تجربے اور سیاست میں کرپشن اوردیگر ہتھکنڈوں پر مبنی اردو فلم ’’سیاست‘‘ بنائی جو بری طرح فلاپ ہوگئی۔ پھر کمال نے کراچی میں اداکاری اور دیگر فلمی شعبے سکھانے کے لئے تربیتی ادارہ کمال اکیڈمی کے نام سے بنایا۔پھر کمال بڑی سکرین سے چھوٹی سکرین پی ٹی وی پر آگئے۔ پی ٹی وی پر ’’کمال شو‘‘ کے نام سے اسٹیج شو کراچی سے کیا۔ شو بطور کمپیئر کامیاب رہا۔ پھر اپنی کمال اکیڈمی سے تربیت یافتہ فنکار لے کر کچھ ٹی وی ڈرامے اور دستاویزی فلمیں بھی بنائیں۔اس میں ناکامی ہوئی۔ پھر کمال بتدریج بڑھاپے اور گمنامی کی طرف چلتے چلے گئے پھر اس دوران انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی جو زیادہ ہٹ نہ ہوسکی۔کمال عملی زندگی میں ہمدردانہ اور دوسروں کا درد بانٹنے والے فنکار تھے۔ طبیعت میں کنجوسی بہت نمایاں تھی۔ دوستوں کی طرف سے دعوتوں میں بھرپور انداز سے شریک ہوتے مگر خود بہت کم دعوتیں کیا کرتے تھے آخری عمر میں کراچی کے فلمساز غفار دانہ والا، فلمی صحافیوں وسیع قریشی، اطہر جاوید صحافی، پرویز مظہر، ذیشان صدیقی اوریونس بٹ مرحوم کے ہمراہ ملاقاتوں میں مصروف رہتے اور اپنے ماضی کے قصے سناتے تھے۔کمال نے عاشق مزاج ہونے کے باوجود اپنی بیگم زرین کے ہمراہ مرتے دم تک محبت کی اور وفا کے تمام ریکارڈ قائم کیے۔ اپنے اکلوتے بیٹے غالب کمال سے بہت پیار کرتے تھے۔ اسے اپنا جانشین اداکار بنانے کی بھرپور کوشش کی اعلیٰ تعلیم دلوائی مگر غالب کمال شوبز دنیا میں فلم اور ٹی وی ڈراموں سمیت کہیں کامیاب نہ ہوسکے۔ کمال کو اس بات کا بہت دکھ تھا۔ کمال 1934ء میں پیدا ہوئے تھے اور یکم اکتوبر 2009ء کو کراچی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے ۔ کمال کو ہم سے جدا ہوئے 8برس کا عرصہ گزر چلا ہے مگر ان کی طویل فلمی زندگی کے یادگار شاہکار آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ ’’کہاں گئے وہ لوگ‘‘ ایسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اداکار کمال واقعی صاحب کمال تھے اور فلموں میں وہ اپنی پرفارمنس کے گہرے نقوش چھوڑ گئے۔ آج بھی ہزاروں لاکھوں پرستار کمال کو یاد کرتے ہیں۔ کمال نے ہمیشہ کمال کیا۔ خدا انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے!! وہ آج کے فن کاروں کے لیے ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ آج کے نوجوان کی فلمیں دیکھ کر اداکاری کے اسرارورموز سیکھ سکتے ہیں۔

مزید :

ایڈیشن 2 -