اپنی مرضی کے جج، اپنی مرضی کا انصاف

میرا جج،میری مرضی کا انصاف، شاید اس قوم کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ طویل عدالتی کیریئر میں یہ بات اکثر کھٹکتی رہی، کہ یہاں انصاف کا مفہوم یہی ہے کہ جو میرے حق میں ہو، جو میرے خلاف ہوا یا ہو سکتا ہے، ہم اسے انصاف ماننے کو تیار ہی نہیں۔ لوگ عجیب منطق اور مائنڈ سیٹ سے عدالتوں میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہارنا لوگوں نے سیکھا ہی نہیں۔ یہاں تو بعض اوقات مقدمہ بازی کیس جیتنے کے لیے نہیں، بلکہ فریق مخالف کو ہرانے کے لئیے کی جاتی ہے۔ ایک عادی مقدمہ باز جب تقریباً ہر ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت سے غیر مطمئن ہوکر اپنا مقدمہ اس عدالت سے ٹرانسفر کراتا رہا، اور جب ضلع میں کوئی دیگر عدالت نہ بچی، تو بطور ڈسٹرکٹ جج میں نے اسے کہا کہ اب صرف میری عدالت ہی رہ گئی ہے، تو اس نے کمال سادگی مگر عیاری سے جواب دیا، کہ اگر آپ نے میرے حق میں فیصلہ کرنا ہے، تو اپنے پاس رکھ لیں۔ میں دم بخود رہ گیا۔اپنے حق میں فیصلہ کو ہی انصاف سمجھنے والی بات پہلے افراد میں تھی، اب یہ اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اب تقریباً نصف صدی کے لگ بھگ اس نظام عدل سے اپنی وابستگی ہونے کو ہے۔ یہ تصور بھی نہیں تھا، کہ کوئی سرکاری افسر، یا ملازم یا کوئی ادارہ کبھی سول جج کا حکم ماننے سے بھی انکار کرے گا۔ پھر تنزلی کا دور شروع ہوا۔ عدلیہ جو کبھی نظریہ ضرورت کا ماسک پہن کر درپردہ حکومتوں کی اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد کیا کرتی تھی۔ اسے فرنٹ فٹ پر کھیلنے میں مزہ آنے لگا۔ جج صاحبان نے باقاعدہ حکومت کو مشورے دینے شروع کئے، نہ صرف بنچ حکومتی منشا کے مطابق بننے لگے، بلکہ تفتیش اور انکوائری میں بھی عدالتیں براہ راست اثر انداز ہونا شروع ہوئیں۔ عدالت کے اندر بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان ججز یہ سمجھتے رہے کہ انکا اختیار و حکم اب ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، اور اب انکے حکم کے آگے کسی کی مجال نہیں۔کہ کوئی بولے۔ اسی اندھی طاقت کے نشہ میں ہسپتال، سکول کالج بھی چیک ہوتے رہے،لوگوں کو دربدر کرنے کے لئے کئی بڑی بلڈنگز بھی گرا دی گئیں۔ طاقت اور اختیار کا نشہ سر چڑھ کر بولا، مگر بدقسمتی سے یہ عدلیہ کے ادارے کو کمزور کر گیا۔ جوں جوں ججز نے وکٹ اور کریز سے باہر آکر کھیلنا شروع کیا، توں توں عدلیہ کے ادارہ کا وقار مجروح ہوتا گیا اور عدلیہ بطور ادارہ تنزلی کی منازل کی طرف گامزن ہونا شروع ہوا۔جب سے عدلیہ میں تقرریوں میں جوڈیشل کمیشن یا ججز کلب کہنا زیادہ مناسب ہوگا، میں پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے ہونے شروع ہوئے تو حکومت کا بھی حوصلہ بڑھا۔ سیاستدان تو کافی دیر سے عدلیہ کے ادارہ کے کمزور ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ لہٰذا انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس کا آئین کے تابع حق بنتا تھا، اسے روکنے،اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگانے اور سپریم کورٹ کے پر کاٹنے کی ٹھانی۔
جب عدلیہ کی اندرونی کمزوریاں دیگر اداروں پر عیاں ہوئیں، تو بہت سے پول کھل گئے، بہت سے بھرم جاتے رہے۔ اب ملک کی سب سے اعلٰی عدلیہ حکومت سے دو صوبوں میں الیکشن کا تقاضا کرتی ہے، تو بڑی ڈھٹائی سے اس سے پس و پیش کیا جاتا ہے۔ عدالت مخصوص سیٹوں کے حوالے سے ایک حکم صادر کرتی ہے، تو حکومت تو دور کی بات ہے، الیکشن کمیشن ہی اس صاف اور صریح حکم کی تعمیل سے انکار کر دیتا ہے۔ بات یہاں تک کیسے پہنچی، یہ ہے اصل لمحہ فکریہ۔ مجھے ذاتی طور پر افراد سے زیادہ عدلیہ کے ادارے سے غرض ہے، اس لئے نہیں کہ ایک طویل عرصہ تک اس سے وابستگی رہی، بلکہ اس لئے کہ اس ملک کے عام لوگوں کی جو کروڑوں میں ہیں، آخری امید تو عدالت ہی ہوتی ہے۔ ہم ان بے بس و لاچار لوگوں سے وہ امید کی کرن بھی چھیننا چاہتے ہیں، ہم کدھر جا رہے ہیں۔
حکومت ہر حال میں اپنا آئینی پیکیج لا کر موجودہ سپریم کورٹ کا نقشہ ہی تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ آئین میں ترمیم کا طریقہ کار آئین کے اندر ہی درج ہے، مگر یہ کسی کو روکنے یا کسی کو لانے کے لئے persons specific نہیں ہونا چاہئیں۔ یہ قوم تو پہلے ہی سیاسی طور پر منقسم، غربت و افلاس میں دبی ہوئی اور لگتا ہے کہ 25 کروڑ عوام کا جم غفیر بے قابو ہجوم کی طرح بے سمت بھاگ رہا ہے اوپر سے منقسم عدلیہ کا تصور اور حکمرانوں کا ہر صورت میں من پسند چیف جسٹس کا تقرر۔ آج کے حکمران کل تک عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں، انہی عدالتوں نے انہیں ریلیف دیکر حکومت تک پہنچنے میں مدد کی ہے۔ اسی عدلیہ کے پر کاٹ کر کس منزل کے مسافر بننا چاہتے ہیں، سمجھ سے باہر ہے،اگر نظام عدل بھی بکھر گیا تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ ادارے افراد سے نہیں، اصولوں سے، قواعد و ضوابط کی پیروی اور آئین کی پاسداری سے بنتے ہیں۔ جو بھی طریقہ آئین میں نئے چیف جسٹس کی تقرری کا ہے، اسے follow کیا جائے، ملک بھی بچ جائے گا اور ادارے بھی۔ ملک میں پہلے افراتفری تھوڑی ہے کہ ایک نئی آئینی بحث چھیڑ کر ایک نئے بحران میں اسے دکھیلا جا رہا ہے۔ ملک کا مفاد یہی ہے کہ جو آئین میں اس وقت تک موجود ہے اسی کی من و عن پیروی کی جائے۔