”سچ تو یہ ہے“ (1)
تحریک پاکستان اور حیات قائد اعظمؒ ایک ہی نفسِ مضمون کے دو عنوان ہیں۔ اگر کوئی مؤرخ یا محقق قائد اعظمؒ کی زندگی اور ان کے سیاسی کارناموں پر ایک کتاب لکھنا چاہے تو اس کتاب میں از خود پوری تحریک پاکستان سامنے آ جائے گی۔ تحریک پاکستان اور قائد اعظمؒ کے موضوع پر جس تواتر، جس تسلسل اور جس معیار کے ساتھ گزشتہ پچاس سال میں ڈاکٹر صفدر محمود نے لکھا ہے، عہد موجود میں شاید ہی کوئی اور مصنف، محقق یا مؤرخ ان کے ساتھ برابری کا دعویٰ کر سکتا ہو۔ قائد اعظمؒ اور پاکستان سے عشق ڈاکٹر صفدر محمود کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ قائد اعظمؒ اور تحریک پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی جس شخص اور ادارے نے بھی کوشش کی، تحقیق کی روشنی میں اور تاریخی حوالوں کے ساتھ اس کا مُسکِت جواب ڈاکٹر صفدر محمود ہی نے دیا اور سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس میدان میں تحریک پاکستان کی صداقتوں اور قائد اعظمؒ کی عظمتِ کردار کے ہر دشمن کو شکست دی ہے۔
تحریک پاکستان کا ایک اہم سنگ میل، بلکہ نشانِ منزل کہنازیادہ درست ہوگا، علامہ اقبالؒ کا 29 دسمبر 1930ء کا خطبہ الٰہ آباد ہے۔ کتاب …… Immortal years…… کے مصنف نے قائد اعظمؒ سے سوال کیا کہ پاکستان کا تصور، یعنی ایک آزاد مسلمان مملکت کا تصور پہلی بار کب پیش کیا گیا؟ قائد اعظمؒ کا جواب تھا: 1930ء میں جب علامہ اقبالؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں الٰہ آباد کے مقام پر اپنے خطبہئ صدارت میں مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک ریاست کا خاکہ پیش کیا تھا۔ خطبہئ الہٰ آباد کے چھ سات سال بعد علامہ اقبالؒ نے قائداعظمؒ کے نام خطوط میں زیادہ وضاحت کے ساتھ مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اور مقتدر ریاست کی تجویز پیش کی تھی۔ 1940ء میں قرار داد لاہور، جو قرار داد پاکستان کے نام سے زیادہ مشہور ہے، کی منظوری کو قائد اعظمؒ نے علامہ اقبالؒ کے تصور کے عین مطابق قرار دیا تھا۔جب ڈاکٹر مبارک علی نے صوبہ سرحد کے ایک قومیت پرست سیاست دان ولی خاں کی تقلید میں قرارداد لاہور کا مصنف ایک انگریز وائسرائے لارڈ لنلتھگو کی وائسرائے کونسل کے ممبر چودھری ظفر اللہ خاں کو قرار دینے کی کوشش کی تو اس کو خاموش کرا دینے والا جواب ڈاکٹر صفدر محمود نے ہی دیا تھا۔ چودھری ظفر اللہ خان نے 25 دسمبر 1981ء کے روزنامہ ڈان میں خود اس بات کی تردید کر دی تھی کہ انہوں نے برصغیر کی تقسیم کا کبھی کوئی فارمولہ پیش نہیں کیا۔ ڈاکٹر مبارک علی کی سطحی تحقیق کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ قرارداد لاہور کا مصنف چودھری ظفر اللہ خاں کو قرار دے رہے تھے، اس کی تردید 30 سال پہلے خود ظفر اللہ خاں کر چکے تھے۔ قرارداد لاہور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے مطالبے پر مشتمل ایک اہم ترین دستاویز ہے۔اس قرارداد کو کسی انگریز حاکم کی وائسرائے کونسل کے ممبر سے منسوب کرنا برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی خاطر دی گئی قربانیوں اور تحریک پاکستان کی عظیم قیادت کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ بہر حال جب ڈاکٹر صفدر محمود نے دلائل اور شواہد کے ساتھ اپنے مختلف مضامین میں قرارداد پاکستان کے حوالے سے تحریک پاکستان کی قیادت کے خلاف گمراہ کن بہتان تراشی کا جواب دیا تو قرارداد پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے والوں کو ہمیشہ کے لئے چپ لگ گئی۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے ایک ماہر جرنیل کی طرح جس دوسرے محاذ پر کامیاب جنگ لڑی ہے اور فاتح بھی رہے ہیں۔یہ جنگ ان عناصر کے خلاف تھی جو وقفے وقفے کے بعد یہ راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ قائد اعظمؒ کا تصور پاکستان کیا تھا؟ وہ ان کی تقاریر اور افکار سے سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے، لیکن بدنیت دانشور اپنے مخصوص اور مشکوک ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے قائداعظمؒ کی تقاریر اور بیانات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اپنے مطلب کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے عناصر کا علاج ڈاکٹر صفدر محمود نے یہ تلاش کیا ہے کہ قائداعظمؒ کے بیانات اور تقاریر کو وہ سیاق و سباق کے ساتھ مکمل صورت میں پیش کر دیتے ہیں، جس سے ربطِ تحریر اور مضمون کا تسلسل بھی قائم رہتا ہے اور قائد اعظمؒ کا نقطہ نظر بھی واضح شکل میں سامنے آ جاتا ہے۔ قائد اعظمؒ یکم فروری 1948ء کو امریکی عوام سے ریڈیو کے ذریعے اپنے خطاب میں فرماتے ہیں کہ ”میرا یہ یقین ہے کہ پاکستان کا دستور جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی اسلامی اصولوں کا اطلاق ہماری عملی زندگی میں ایسے ہی ہو سکتا ہے،جیسا کہ 1300 برس قبل ہو سکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شاندار روایات کے امین ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔ بہر نوع پاکستان ایک تھیوکر یٹک ریاست نہیں ہو گی، جس میں آسمانی مشن کے ساتھ پا پاؤں کی حکومت ہو“۔
قائداعظمؒ نے اپنے اس ریڈیو پیغام میں یہ واضح کر دیا کہ اسلام میں نہ سیکولر ازم ہے اور نہ ہی تھیوکریسی۔ قائداعظمؒ نے یہ فرما کر سیکولر ازم کی جڑ کاٹ دی کہ اسلام کے اصول آج بھی ہماری عملی زندگی کے لئے ویسے ہی قابل اطلاق ہیں، جیسے 1300 سال پہلے تھے۔ قائد اعظمؒ نے 19 فروری 1948ء کو آسٹریلوی عوام کے نام اپنے ریڈیو کے ذریعے پیغام میں یہ کہا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کا ایک ملک ہونا ہمارے اللہ تعالیٰ پر ایمان کا رشتہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ قائد اعظمؒ نے مزید کہا کہ پاکستان کی عظیم اکثریت مسلمان ہے، ہم رسول کریمؐ کی تعلیمات پر عمل کرنے والے ہیں اور ہم ایک اسلامی ملت و برادری کے رکن ہیں، جس میں حق، وقار اور خودداری کے اعتبار سے سب برابر ہیں۔ قائد اعظمؒ نے یہ بھی فرمایا کہ اسلام کی وجہ سے ہم میں اتحاد کا خصوصی اورگہرا شعور ہے۔(جاری ہے)